ہبی آزادی  اور  احترامِ  مذاہب

ہبی آزادی اور احترامِ مذاہب

مذہبی آزادی  اور  احترامِ  مذاہب

Profilbildet til Arif Kisana

ڈاکٹر  عارف  محمود  کسانہ   ۔  سویڈن

arifkisana@yahoo.se

انتہا پسندی ، دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنے اور اختلاف رائے کی عدم برداشت نے معاشرہ میں خوف اور عدم تحفظ کی جو صورتِ حال پیدا کردی ہے اس سے سب آگاہ ہیں۔انہی حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے کچھ احباب سیکولرازم کو اپنانے کا درس دیتے ہیں۔ جب وہ سیکولرازم کی بات کرتے ہیں تو وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مذہب ذاتی مسئلہ ہے اور امور مملکت اور معاشرتی زندگی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔مذہب اور سیکولرازم دنوں کی غلط تشریح انہیں اس مقام پر لاکھڑا کرتی ہے۔ اگر اُن کی نظر قرآن پر ہو اور اسلام کی درست تصویر اُن کے سامنے رکھی جائے تو وہ بھی انہی حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں۔دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے جس کی قرآنِ حکیم نے سورہ آل عمران کی آیت انیس میں وضاحت کی ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی  بیان کی ہے کہ یہ دین یعنی نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے نہ کہ مذہب جو کہ چند رسوم اور پوجا پاٹ کا نام ہوتا ہے اسی لیے قرآن حکیم نے دین کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔مذہب اور دین میںبہت فرق ہے۔مذہب میں فرد ذاتی نجات کے لیے مذہبی فرایٔض ادا کرتا چلا جاتا ہے اورزندگی کے دیگر امورسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ ہمارے مذہبی شخص اسے کہا جاتا ہے کو معاشرتی معاملات سے لاتعلق ہوکر اپنا وقت مذہبی مناسک میں صرف کرتا ہے اور ایسے ہی شخص کو نیک آدمی اور اللہ والا کہا جاتاہے ۔لیکن قرآن حکیم نے دین کی ایک جامع اصلاح کے انتخاب سے جہاں اس تصور کی نفی کی کہ اسلام ایک مذہب ہے وہاںیہ حقیقت بھی بیان کردی کہ مذہبی رسوم و رواج اور روز مرہ کے کام یہاں تک کہ امورِ مملکت سب دین کا حصہ ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ واضع ہوجاتا ہے کہ دین قانون، نظم و نسق، اطاعت و فرماں پذیری اور نظام زندگی سب کا احاطہ کرتاہے جبکہ سیکولرازم میں امور مملکت میںدینی تعلیمات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ایک مسلمان اور ایک اسلامی ریاست حدود اللہ کی پابند ہوتی ہے جبکہ سیکولرازم میں حدود کا کوئی تصور نہیںبلکہ یہ ایک ایسا میچ ہے جس میں بائونڈری لائن کا کوئی وجود نہیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جب حضورۖ نے کفارِ مکہ کو دینِ حق کی دعوت دینا شروع کی تو انہوں  نے آپ ۖ کی زبردست مخالفت شروع کردی کیونکہ آپ ۖ انہیں بُتوں کی پوجا سے منع کرتے  تھے لیکن بات صرف بتوں کی پوجا کی مخالفت کی نہیں تھی بلکہ کفارِ مکہ جانتے تھے کہ یہ ایک پیغامِ انقلاب ہے جو اُن کے سرمایہ دارانہ اور استحصالی  نظام کی جڑ کاٹ کے رکھ دے گا۔ اس کا نقشہ علامہ اقبال نے یوں کھینچا ہے کہ ابو جہل غلافِ کعبہ کو پکڑ بتوں سے فریاد کر رہا ہے کہ اس سے  بڑا اور کیا انقلاب ہو گا کہ محمدۖ یہ کہ رہا ہے کہ آقا اور غلام انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ یہ دین کا مختصر تعارف تھا ۔خدا کے دین اور نظام کے مقابل کسی اور کی پیروی کو وہ شرک قرار دیتا ہے اس کی قرآنِ پاک میں بہت سے مقامات پر وضاحت کر دی گیٔ ہے لیکن شرک کے گناہِ عظیم ہونے کے باوجود رب العالمین ہر انسان کو مذہبی آزادی اور اُس کے مذہب کے احترام کا حکم دیتا ہے۔ کتاب اللہ میں متعدد جگہوں پر مذہبی آزادی کی ضمانت دی گیٔ ہے خصوصاَ قرآنِ حکیم نے ان مقامات پر 2/256, 9/6, 10/99, 61/9 اور 18/29  اس کی وضاحت کر دی ہے۔اسلام نے دین یا مذہب اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مذاہب کے احترام کا بھی حکم دیا ہے چناچہ سورہ الانعام کی آیت108میں حکم ہے کہ دوسروں کے جھوٹے معبودوں کو گالی نہ دو۔ اِن و اضح تعلیمات  کے باوجود بعض اوقات کچھ جذباتی عناصر کی طرف سے ایسے اقدامات سر زد ہو جاتے ہیں جو دینِ اسلام کے پیغام کے سرا سر منافی ہوتے  ہیں۔ ایسے عناصر جبر اور طاقت کے ذریعہ اپنی بات منوانا اور اپنا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کسی کو یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ خود رسول پاکۖ کے بارے میں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کہہ دیا ہے کہ آپۖ فرما دیجیے کہ اے لوگو بے شک تمھارے رب کی طرف سے حق آگیا ہے اب جس نے ہدایت اختیار کی اس نے اپنا فائدہ کیا اور جو گمراہ ہوا اس نے اپنا نقصان کیا اور آپ کو ان پر داروغہ مقرر نہیں کیا گیا کہ آپ ۖ ان کو زبردستی اپنے راستے پر چلائیں(10/108)۔ جب حضورۖ کو یہ کہا گیا ہے تو جو لوگ مذہب کی آڑ میں دوسروں پر اپنا جبر مسلط کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنا احتساب خود کرلینا چاہیے۔ مذہبی تنگ نظری اور شدت پسندی نے عوام الناس کی زندگی اجیرن بنا کررکھ ہے ۔ رسول اعظمۖ کی سیرت مطہرہ سے علم ہوتا ہے کہ ایک غیر مسلم کا جنازہ جارہا ہوتا ہے اور آپۖ اس کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ساتھ صحابہ اکرام   بھی یہی عمل دہراتے ہیںجبکہ اسی رسول ۖ کے پیروکاروں کا حال یہ ہے کہ غیر مسلم تو ایک طرف خود مسلمانوں میں ایک دوسرے کے احترام کا یہ جذبہ موقوف ہے اور انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ کئی دفعہ میت کے جنازہ پڑھانے پر یہ نوبت آجاتی ہے کہ فلاں امام جنازہ پڑھائیں گے تو ہم نہیں پڑھیں گے اور ایسے فتوے موجود ہیں ہیں کہ اگر کسی نے فلاں کے پیچھے جنازہ پڑلیا تو اس کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ کبھی یہ بحث ہوتی ہے کہ مرنے والا فلاں مسلک کا تھا ، فلاں فقہ کا تھا، احادیث کا منکر تھا اس لیے اس کا جنازہ پڑھنا جائیز نہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یہ ساری بحث اس وقت ہورہی ہوتی ہے جب ایک شخص دنیا سے جا رہاہے اور اس کے گھر والے غم سے نڈھال ہوتے ہیں ۔ ایسے موقع پر بجائے انہیں ہمدردی اور تسلی دینے کے انہیں شدید ذہنی اذیت دی جاتی ہے جو سرا سر اسلامی تعلیمات منافی انسانیت سوز رویہ ہے۔انتہا پسندی کا طرزِ عمل اس وقت بھی سامنے آتا ہے جب سنی سنائی معلومات کی بنا پر ایک ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر دوسروں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے حالانکہ قرآن ِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی خبر تم تک پہنچے تو پہلے تحقیق کر لیا کرو یہ نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی کونقصان  پہنچا د و اور بعد میںپچھتاتے رہ جائو (  49/6)۔ قرآنِ حکیم تمام انسانوں کو واجب التکریم اور قابلِ عزت قرار دیتا ہے چناچہ سورہ بنی  اسرائیل کی آیت70میں ہے  لقد کرمنا  بنی  آدم  یعنی اللہ نے تمام اولادِ آدم کو محترم پیدا کیا ہے۔ پھر چار مختلف سورتوں  39/6,7/189,6/98,4/1)) میں یہ واضح طور پر کہا کہ تمام انسانوں کو خالقِ کائنات نے نفسِ واحدہ سے پیدا کیا ہے پرور دگارِ عالم تمام انسانوں کو اپنی تخلیق قراردیتے ہوئے انہیں قابلِ احترام ٹھہراتا ہے۔ وہ تمام انسانی جانوں کو یکساں عزت کا مقام دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی بغیر کسی رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کے ہر انسانی جان کو ایک جیسا اور برابر گردانتا ہے۔ سورہ  الما ئدہ کی آیت 32 میں ہے جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا گویا اس نے پوری نوعِ انسانی کو قتل کر دیا او ر جس نے کسی ایک انسان کی بھی جان بچائی تو گویااُس نے پوری انسانیت کو زندگی بخش دی۔ یعنی انسان ہونے کی جہت سے تمام انسان یکساں عزت اور احترام کے لائق ہیں۔ اور کسی ایک انسان کا نا حق قتل پوری نوعِ انساں کے قتل کے مترادف ہے۔ انسان ہونے کی عظمت دینے کے ساتھ وہ زندگی اپنی مرضی سے گذارنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ جہاں سورہ البقرہ (  2/256)  میں یہ اعلان فر ما دیا کہ لا اکراہ فی الدین یعنی  مذہب، دین اور نظامِ زندگی  اختیار کرنے میں کسی پر کو ئی دباؤ اور جبر نہی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہ جو بھی خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں اور وہ مذہب اور دین کے معاملہ میں زبردستی کریں قرآن اُن کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زبردستی کرنا چھوڑ دیں او ر دین کا معاملہ صرف اللہ کے لئے رہ جاے ٔ (22/40, 8/39, 2/193) ۔ جو کوئی اسلام لانے بعد اسے چھوڑ بھی دے اس کے بارے صرف یہ کہا کہ جو دین سے پھِر جاے ٔ یعنی مرتد ہو جاے ٔ  ا ور حالتِ کُفر میںہی مر جاے ٔ تو اُس کے اعمال ضا  ئع ہو جا ئیں گے اور و ہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے(2/217) . یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی دین یا مذہب تبدیل کرے تو اُسے قتل کردو ۔ سورہ الحج کی آیت  40میں وہ  امتِ مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کریں کہ مسجدوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت گاہیں ، گرجے اور یہودیوں کے معبد محفوظ رہیں۔ قرآنِ حکیم کی اس قدر واضع تعلیمات کے باوجود جب اُس کے پیروکار جب مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کریں، عبادت گاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنیں، عوامی اجتماعات میں دھماکے ہوںجس سے بے گناہ موت کی وادی میں پہنچ جائیں اور بچ جانے والوں کو زندگی بھر کے لیے معذور بنہو جائیں توسب خدا اور رحمت اللعالمینۖ کی تعلیمات کے نہ صرف خلاف طرزِ عمل ہے بلکہ قہر خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔  مؤمن کا معنی ہی امن کی ضمانت دینے والا ہے یعنی وہ جو امنِ عالم کا ضامن ہو، جس پر بھروسہ کر کے سب بے فکر ہو جا ئیں اور سلامتی کا علمبردار ہو۔ مگر یہ کیسے مومٔن ہیں جو دوسروں کے لیۓ پیغامِ اجل بن رہے ہیں۔ جن سے دوسروں کی جان و مال اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ کیا یہ اُس خداے ٔ واحد کی تعلیمات کے منافی نہیں جو اپنے آپ کو المومٔن (23/59 ( کہتا ہے یعنی پوری کا ئنات کا محافظ اور جس نے پیغمبرِ آخر الزمانۖ کو پوری دنیا کے رحمت بنا کر مبعوث کیا۔ وہ خدا جو امن و سلامتی کا ضامن ہے اور اُس کے بندے اس زمین پر اسی تعلیم کے پیرو ہیں۔ لہذا مسلمان ہونے کے دعوٰی داروں کو انہی تعلیمات کا عملی پیکر بننا ہو گا۔ دوسری جانب یہ بھیایک حقیقت ہے کہ انتہا پسندی اور متشدد  رویہ صرف مذہبی لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کیفیت اُن میں بھی پائی جاتی ہے جو اپنے آپ کو لبرل اور ترقی پسند گردانتے ہیں اور وہ بھی جب دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو کھلے بندوں زبان کے نشتر چلاتے ہیں اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ یہ بھی درست ہے کہ بعض اوقات کسی فرد یا کچھ عناصر کی تحریروتقریر سے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ آزادی رائے کی آڑ  میں دوسروں کے مذہب و ملت پر بہت ہی غلط انداز میں تنقیدبھی کی جاتی ہے جس سے لا محالہ جذبات بپھرسکتے ہیں ایسے ہی مواقع کے لیے قرآن حکیم نے بہت ہی سلجھا  اور باوقار انداز اندز اپنانے کا درس دیا ہے کہ اگر کسی جگہ خدا کی آیات کا انکار کیا جارہا ہو اور مذاق اُڑایا جارہا ہو تو وہاں سے خاموشی سے اُٹھ کر چلے جائو ۔ جب وہ محفل کسی اور بات میں مشغول ہو جائے اور تمسخر اور مذاق کو موضوع چھوڑ دے تو پھر دوبارہ اسی مجلس میں شامل ہونے میں کوئی ہرج نہیں((4/140۔ اس سے بہتر امن اور سلامتی کی تعلیم اور کیا ہوسکتی ہے اور اس سے اچھا اور سلجھا انداز اور کیا ہوسکتا ہے ۔ یہی احتجاج کا سنجیدہ اور متین طریقہ ہے جسے ہمیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔اگر کسی جگہ کوئی جرم سر زد ہوتا ہے تو یہ ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کا کام ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کریں نہ کہ ہرکوئی  اُٹھ کر خود ہی پولیس اور جج بن جاے ٔ ۔ یہ نظامِ مملکت کی ذمہ داری ہے ، کسی فرد یا جماعت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ لٹھ لے کر ایک متوازی   نظام وضع کرے۔ دورِ رسالت ۖ اور خلفا  ٔ راشدین کے دور میں کسی نے بھی ذاتی طور پر سزا و جزا کا کام نہیں کیا تھا بلکہ نظامِ مملکت یہ  فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ لہذا یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی و مذہبی جماعتوں،  علمأ و دانشوروں ، ادیبوں و صحافیوں، کالم  نگاروں اور معاشرے کے دوسرے باشعور افراد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صداے ٔ حریت بلند کریں اور قوم کی درسُت سمت میں  رہنمائی کریں۔ جذباتی طرزِ عمل کی بجاے ٔ ہوش و خرد سے کام لینے کی تلقین کریں۔ اس طرح کے واقعات جہاں ایک طرف دینِ حق کی  تعلیمات کے منافی ہیں وہاں یہ دنیا بھر میں ہماری بد نامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں اُس وقت تک جدوجہد کرنی ہو گی جب تک ہر شخص  کو عزتِ نفس حاصل نہ ہو جائے، زندگی کسی کے لیۓ جُرم نہ ہو اور حیات کسی کے لیۓ بھی وبال نہ ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں