تارکین وطن کے لیے تشخص کا مسئلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تین تارکین وطن نوجوانوں نے مشیر برائے وزارت حقوق اطفال انگر میٹا سے ملاقات کی۔انہوں نے وزیر کو ایک فکر انگیز یاد داشت پیش کی جس کے مطابق ضرورتمند اداروں میں پلنے والے بچوں کا انفرادی تشخص بری طرح سے مجروح ہو رہا ہے۔شانی تھیگیگن اور محمّدجو کہ غیر ملکی پس منظر کے مالک ہیں نے بالترتیب تامل،ایتھوپیا اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کے بارے میں بات کی جو کہ بچوں کی دیکھ بھا ل کے ادارے کے زیر سایہ تربیت پا رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اس ادارے کو ان بچوں کے ثقافتی پس منظر کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔اس میٹنگ میں انگا میٹا کو کئی ایسے واقعات سے مطلع کیا گیا جن میں تارکین وطن بچے ان ادروں میں پرورش کے دوران جب اپنے حقیقی والدین سے ملے تو انہیں بات کے لیے مترجم کا استعمال کرنا پڑا۔میں ایسے کئی بچوں کو جانتی ہوں جو ان اداروں میں پرورش پانے کے بعد اپنی زبان اور ثقافت کھو بیٹھے۔ اس لیے کہ انہیں پالنے والے خاندان نارویجن تھے۔یہ بچے اپنی اصلیت کھو کر اپنوں کے لیے اجنبی بن گئے۔ یہ بات اٹھارہ سالہ تھیگن نے اپنی گفگتگو میں کہی۔محمد عابدی جنکی پرورش بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے میں ہوئی ہے انکا کہنا ہے کہ یہ معاشرہ اس دارے میں پر ورش پانے والے بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ایسے مواقع بھی دیکھنے میں آئے جب کہ صومالین اور دیگر تارکین وطن بچے اپنی زبان نہیں بول سکتے تھے۔یہ ادارہ تارکین وطن بچوں کا دشمن ہے۔وزیر برائے حقوق اطفال انگا میٹا نے کہا کہ وہ اس ادارے میں غیر ملکی پس منظر رکھنے والے ملازمین رکھ رہے ہیں تاکہ دونوں گروپوں میں اعتماد کی فضاء قائم کی جا سکے۔