کسان
…شاہنواز فاروقی…
کسان انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب کا ایک عظیم الشان کردار ہے۔ بلاشبہ رزاقِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے مگر کسان ہزاروں سال سے روئے زمین پر انسانوں کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ بلاشبہ زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ظہور پذیر ہوتی ہے مگر کسان اس روئے زمین پر مُردہ زمین سے زندگی برآمد کرنے والی مخلوق ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ روئے زمین کا ایک Un Sung Hero یا ایسا کردار ہے جس کی ویسی توصیف نہیں ہوئی جیسی کہ ہونی چاہیے تھی۔ اس کی ایک وجہ کسان کی فطری فروتنی اور دوسرے لوگوں کا یہ غلط خیال ہے کہ کھیتی باڑی بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشے کے سوا کیا ہے! لیکن کھیتی باڑی محض ایک پیشہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک طرزِ حیات ہے اور کسان اس طرزِ حیات کی علامت ہے۔ لیکن کسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟
زمین ایک مُردہ شے ہے، اور مُردہ شے سے زندگی برآمد نہیں ہوسکتی۔ لیکن کسان مُردہ زمین میں ہل چلاتا ہے اور اسے زندگی پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ وہ تیار شدہ زمین میں بیج بوتا ہے۔ یہ موجود کو ممکنات میں ڈھالنے کا عمل ہے۔ کسان ایک گندم ڈالتا ہے، اور ایک گندم سے درجنوں گندم برآمد ہوتے ہیں۔ بیج پودا بن کر کھیت میں ظاہر ہوتا ہے تو مُردہ زمین سے زندگی نمودار ہوتی ہے۔ کسان پودوں کی ٹھیک اسی طرح دیکھ بھال کرتا ہے جس طرح وہ اپنے بچوں کو پالتا پوستا ہے۔ وہ پودوں کو وقت پر کھاد دیتا ہے، وقت پر پانی دیتا ہے۔ کسان جس طرح اپنے بچوں کو برے لوگوں کی صحبت سے بچاتا ہے اسی طرح وہ پودوں کو گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔ پودے فصل بن کر لہلہاتے ہیں تو کسان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ لہلہاتی فصل کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اپنے بچوں کو خوشی سے اچھلتے کودتے دیکھتا ہے۔ کسان کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی محبت اور مشقت ’’زمین‘‘ کو ’’ماں‘‘ بنادیتی ہے۔
ایک مغربی دانش ور نے کہیں لکھا ہے کہ کسانوں میں لامذہبیت یا بے عقیدگی بہت کم پائی جاتی ہے۔ یہ بات درست ہے اور اس کی وجہ ہے۔ کسان کا کام ہی ایسا ہے کہ مذہب خودبخود اُس کے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ کسان بیج کو پودا بنتے دیکھتا ہے۔ وہ فصل اگاتا ہے اور بارش کی تمنا کرتا ہے، اور بارش کا برسنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ وہ اللہ سے بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ بارش بروقت ہوجاتی ہے تو وہ شکر گزار ہوتا ہے۔ نہیں ہوتی تو صبر کرتا ہے۔ فصل کھڑی ہوتی ہے اور پالا پڑ جاتا ہے۔ یعنی شدید سردی ہوجاتی ہے اور فصل خراب ہوجاتی ہے۔ فصل تیاری کے قریب ہوتی ہے اور ژالہ باری ہوجاتی ہے تو فصل برباد ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے واقعات یا ان کے امکانات کسان کو مسلسل خدا سے تعلق جوڑے رہنے پر مائل کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ کسان نماز روزے کے بڑے پابند ہوتے ہیں۔ کسانوں کی مذہبیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسان اس طرح فطرت کے مظاہر کے روبرو ہوتا ہے، خدا کی قوت اس کا مستقل مشاہدہ اور تجربہ بن جاتی ہے۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کو کسان کی موسموں کا جیسا تجربہ ہوتا ہے دنیا کے کسی اور شعبے کے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کڑاکے کی سردی پڑرہی ہوتی ہے اور کسان رات کو 2 بجے پانی میں کھڑا ہوا اپنے کھیتوں کو پانی دے رہا ہوتا ہے۔ جِلد کیا، دل کو جھلسا دینے والی لُو چل رہی ہوتی ہے اور کسان اپنے کھیتوں میں کام کررہا ہوتا ہے۔ موسلا دھار بارش برس رہی ہوتی ہے اور کسان جنگل میں کھڑا اس بارش میں بھیگ رہا ہوتا ہے۔ موسم گُل آتا ہے تو وہ پھولوں، پودوں، بھنوروں اور چہکتے ہوئے پرندوں کے درمیان وقت گزارتا ہے، یہاں تک کہ وہ موسموں کا حصہ بن جاتا ہے۔
مشقت زندگی کے ہر شعبے میں ہے، مگر روایتی کسان جیسی مشقت سے گزرتا ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ ہر شعبے میں کام کا ایک وقت ہوتا ہے مگر کسان کے کام کا کوئی وقت نہیں۔ کھیتی باڑی کے تقاضے اسے علی الصباح بیدار کردیتے ہیں۔ وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے گندم کی فصل کٹتی تھی تو کسان فصل کے ساتھ ایک ڈیڑھ ماہ تک جنگل میں پڑا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں گندم کو بھوسے سے الگ کرنا آسان نہ تھا۔ گندم کے سوکھے پودوں کو دائرے کی شکل میں بکھیر دیا جاتا اور ایک شخص گندم کو بھوسے سے الگ کرنے کے لیے گندم کے پودوں کو بیلوں سے کچلواتا۔ دو تین دن کی محنت کے بعد ڈیڑھ دو من گندم بھوسے سے الگ ہوپاتی۔ پھر گندم کے سوکھے پودوں کے ڈھیر کی صورت میں ایک نیا دائرہ بنایا جاتا اور یہ سلسلہ ہفتوں چلتا رہتا۔ کسان اس کام سے فارغ ہوتا تو گندم اور بھوسے کو گھر منتقل کرنے میں کئی دن لگ جاتے۔ روایتی کسانوں کے لیے جب فصل کا کام نہیں ہوتا تو ان کے حیوانات ہی انہیں مصروف رکھتے ہیں۔ انہیں گھاس پھوس ڈالنا، پانی پلانا، سردی گرمی سے بچانا… یہ ایک مستقل کام ہے۔
کسانوں کی زندگی میں حیوانات کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ روایتی کسان کا تصور حیوانات کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ شہر کے لوگوں کے نزدیک حیوانات کا تصور یہ ہے کہ حیوان ہمارا ایسا غیر ہیں کہ ہم میں اور ان میںکوئی قدرِ مشترک ہی نہیں۔ مگر کسان کے لیے حیوانات اس کے ’’گھر کے افراد‘‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ اُسے جتنی فکر گھر کے افراد کی ہوتی ہے اتنی ہی فکر حیوانات کی ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسان حیوانات سے قربت پیدا کرنے کے لیے ان کے نام رکھ دیتے ہیں اور انہیں ان کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ وہ حیوانات سے اتنے مانوس اور اُن کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ اُن سے انسانوں کی طرح باتیں کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک کسان اپنے بیل کو گھاس ڈالتے ہوئے اس سے کہتا ہے ’’یار تُو تو بہت ہی پیٹو ہوتا چلا جارہا ہے۔‘‘ یا ایک کسان ہل چلاتے ہوئے اپنے بیل سے کہتا ہے ’’چل بھائی بھورے ذرا تیز تیز چل۔‘‘ حیوانات کے ساتھ کسان کی یہ گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ کسان رفتہ رفتہ حیوانات کے ساتھ انسانوں کی طرح کا سلوک کرنے لگتے ہیں۔ حیوانوں کو انسان سمجھنے کا یہ رویہ بسا اوقات حیوانوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور وہ انسانوں کا سا طرزعمل اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ننھیال میں ایک بھینس ہمارے چھوٹے ماموں سے اتنی مانوس ہوگئی تھی کہ ماموں ایک دن کے لیے ہماری ممانی کو لینے اپنے سسرال گئے تو بھینس نے ان کی عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے چیخنا چلاّنا یہاں تک کہ آنسوئوں سے رونا شروع کردیا۔ اس نے کسی اور کو اپنا دودھ بھی نہ دوہنے دیا۔ جیسے ہی کوئی بھینس کے قریب جاتا وہ بدک جاتی۔ بھینس کا دودھ دو وقت نہ دوہا جاسکا تو اس کے تھنوں کے پھٹ جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا اور گھر والوں نے ماموں کو فوری طور پر واپس لانے کے لیے ایک آدمی دوڑایا۔ ماموں واپس آئے تو بھینس انہیں چاٹنے لگی۔ اس کے طرزعمل سے لگ رہا تھا جیسے وہ کہہ رہی ہو: تم مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟ دیکھو میں نے کسی کو اپنا دودھ بھی دوہنے نہیں دیا۔ میر تقی میرؔ نے کہا ہے ؎
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
کسانوں کی زندگی میں اس کارِ عجب کے بہت سے چھوٹے بڑے مظاہر موجود ہوتے ہیں۔ کسانوں کو اپنے حیوانات سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ ان کے بعض جانور مر جاتے ہیں تو وہ اس کا غم مناتے ہیں اور برسوں اس کا ذکر اِس طرح کرتے رہتے ہیں جیسے بچھڑنے والے انسانوں کا کیا جاتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے توکسان کی زندگی تعلق کی علامت ہے۔ ہوسکتا ہے خدا، فطرت، انسانوں اور حیوانوں سے کسان کا تعلق زیادہ گہرا نہ ہو، مگر یہ تعلق جیسا بھی ہو، ’’کھرا‘‘ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی کھوٹ اور کوئی بناوٹ نہیں ہوتی۔ اس تعلق کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسان کا تعلق کسی کتابی علم یا اسکول وکالج کی تعلیم کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ تعلق طویل مشاہدے، تجربے اور قربت کا حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس میں ایک برجستگی، سادگی اور ایک قسم کی معصومیت ہوتی ہے۔