نزول رحمت کی رات٭٭٭٭٭٭٭٭
شب برأت
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
پنجاب پاکستان
موبائل نمبر0300-649130
اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ستر مائووں سے زیادہ محبت فرماتا ہے ۔خالق کائنات کی رحمت کے خزانے اپنے بندے کے لئے دن رات کھلے رہتے ہیں ۔بلکہ وہ رب العالمین جل جلالہ انسانیت کی بخشش ،بندۂ مؤمن کی بلندی درجات اور اپنی بے پایاں رحمت کو لٹانے کیلئے بہانے تلاش فرماتا ہے ۔کبھی نماز کے ذریعے بخشش کے وعدے فرماتا ہے اور کبھی روزہ کے واسطے سے اجرِ عظیم و تقویٰ کی بشارتیں دیتا ہے ۔کبھی حج کو نجات کا ذریعہ فرماتا ہے اور کبھی خیرات وزکوٰة کی ادائیگی سے اپنے قرب کا اعلان کرتا ہے ۔ بلکہ اس خالق دوجہاں نے اپنے پیارے حبیب لبیب ،دلوں کے طبیب، مومنین کی جانوں کے قریب حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے امتیوں کے لئے تو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل سے بھی برکت و مغفرت کا اعلان فرمادیا ۔دنوں کی عبادت اپنی جگہ بجا ،مہینوں کی ریاضت اپنی جگہ مسلمہ، سالوں کے مجاہدے اپنی جگہ سببِ بلندی درجہ مگر اللہ تعالیٰ نے بعض راتوں کی تھوڑی عبادت میں بھی ایسی برکت اور خیر کثیر رکھی ہے کہ گناہ گار غلامانِ رسول ۖ کے لئے سامانِ نجات کافی و شافی بن جاتا ہے ۔ویسے تو فضیلت کی راتیں شبِ عیدالفطر ،شب قدر ،ماہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں اور انہی فضیلت والی راتوں میں سے ایک شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے جسے شب برأت کہا جاتا ہے ۔شب برأت کے نام:شعبان المعظم سارا مہینہ ہی برکت و فضیلت والا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ۖ نے اس ماہ کی نسبت اپنی طرف فرماکر اس مہینے کو اکثر روزوں میں بسر فرمایاہے مگر اس ماہ میں پندرھویں رات ”شبِ برأت ” کے نام سے موسوم ہے ۔اس رات کے کتابوں میں اور بھی نام آئے ہیں یعنی ۔(1)لیلة المبارکہ :۔ برکتوں والی رات(2)لیلة البراة :۔دوزخ سے بری و نجات پانے کی رات(3)لیلة الرحمة:۔ نزول رحمت کی رات(4)لیلة الصک:۔ تفویض امور کی رات ۔ مگر سب سے زیادہ معروف نام”شبِ برأت” ہے۔ شب برأت سے مراد ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے باعث لا تعداد گناہ گاروں کو دوزخ سے نجات یا فتہ قرار دیتا ہے ۔لیلة القدر کے بعد یہ رات سب سے زیادہ برکت و رحمت کی رات ہے ۔غنیة الطالبین میں ہے کہ شب برأت برکت والی چیزوں میں سے ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مبارک فرمایا کیونکہ اہل زمین کے لئے اس رات میں رحمت، برکت، خیر ،گناہوں کی معافی اور نزول مغفرت ہے ۔رحمت و عطا کی رات:حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات میں خدائے ذوالجلال اس آسما ن دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے ۔یعنی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کارکنان غیبی اللہ تعالیٰ کے سامنے سال بھر کے اعمال نامے پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد احکم الحاکمین اپنی شفقت سے بندوں کو پیارے خطاب سے فرماتا ہے :”خبردار ہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں،خبردار ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، خبردار ہے کوئی مصیبت میں گرفتار کہ میں اس کو معافی عطا کردوں ،خبردار ہے کوئی ایسا ایسا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔وہ لوگ کتنے سعادت مند ہیں جو اس رات کو عبادت کرتے ہیں اور توبہ کر کے اپنے رب کو راضی کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور رزق حلال مانگ کرخزانۂ غیب سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ بیماریوں اور مصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں ۔اس رات اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے چند لوگوں کے ۔ سیدنا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور رحمة اللعالمین ۖنے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات میں رحمت کی تجلی فرماتا ہے ۔پس تمام مخلوق سوائے مشرک اور کینہ پر ورکے بخشش فرماتا ہے ۔(رواہ ابن ماجہ ،مشکوٰة صفحہ 115) بعض روایتوں میں ہے کہ اس رات مشرک ۔جادو گر،کاہن ،زمانہ پر اصرار کرنے والا ،ہمیشہ شراب پینے والے، ان کی بخشش نہیں ہوتی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے غیر شرعی طور پر کینہ اور عداوت رکھتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوتی ۔اس لئے پہلے زنانہ کے لوگ شب برأت سے پہلے ہی ایک دوسرے سے معافی مانگتے اور ان کو راضی کرتے تھے تاکہ اس رات کی رحمت و مغفرت سے بہرہ ورہو سکیں۔شب برأت میں نُزول رحمت:اللہ کی رحمت دو طرح کی ہے ۔ایک عام اور دوسری خاص،اللہ کی عام رحمت ہر ایک کیلئے ہے یعنی بلا قیدِ مذہب ،خواہ مسلمان ہو یا کافر، یہودی ہو یا نصرانی ،خدا کا دوست ہو یا دشمن انسان ہویا حیوان ،درخت ہو یا پتھر، ہر ایک پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتاہے مثلاً جب بارش نازل ہوتی ہے تو وہ ہر امیر غریب ،نیک و بد کے کھیت پر پڑتی ہے یعنی وہ ہر ایک کے لئے یکساں ہوتی ہے ۔اللہ کی خاص رحمت یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی اپنے حالات کے مطابق مانگتا ہے اللہ اسے بھی عنایت فرماتا ہے لہٰذا اس رات اللہ تعالیٰ دونوں طرح کی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے جس کا ہرذی روح کو فائدہ پہنچتا ہے ۔نزول رحمت کے بارے میں چند احادیث حسبِ ذیل ہیں۔حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نبی کریم ۖسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو خدا وند عالم اپنی مخلوق پر نظر رحمت ڈال کر مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتے ہیںکافروں کو مہلت دیتے ہیں اور کینہ وروں کو ان کے کینہ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں تاوقتیکہ وہ کینہ وری چھوڑدیں۔(بیہقی فی شعب الایمان ) اللہ تعالیٰ چونکہ رحمان اور رحیم ہے اس لئے اپنی اس صفت کی بنا پر شعبان کی پندرھویں شب یعنی شب برأت کو اہل ایمان پر خاص طور پر اپنی شان رحمانیت کا اظہار فرماتا ہے اور اسی رحمت کی بنا پر ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ گناہوں کی معافی اسے ہی ملے گی جو اس رات معافی کی التجا کرے گا۔ اسی لئے اس رات میں یا د الہٰی کے بعد گناہوں کی مغفرت چاہنا ضروری ہے ۔یہی نفس مضمون ایک اور حدیث میں یوں بیان ہوا ہے ۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب اپنی مخلوق کی طرف نظر رحمت فرماکر تمام مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے بخشش فرمادیتا ہے ۔(بیہقی ۔طبرانی) بعض صوفیاء کا کہنا ہے کہ اللہ سے ہمیشہ رحمت کے طالب رہنا چاہئیے کیونکہ جب کوئی ہمیشہ نظر رحمت کا طالب رہے گا تو کبھی نہ کبھی نظر رحمت ہو ہی جائے گی اور جس پر نظر رحمت ہو گئی تو وہ دونوں جہانوں میں فلاح پا جائے گا اور یہی انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔تقسیم امور کی رات:اس رات میں سال بھر میں ہونے والے تمام امور کائنات ،عروج وزوال ،ادبار و اقبال، فتح و شکست ،فراخی و تنگی ،موت و حیات اور کارخانۂ قدرت کے دوسرے شعبہ جات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے اور انتظام کار فرشتوں کو الگ الگ ان کے کاموں کی تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں روزی رزق کا پروگرام حضرت میکائیل علیہ السلام کے سپرد فرمادیتے ہیں اور اعمال و افعال کا پروگرام آسمان اول کے فرشتے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حوالے کر دیا جاتا ہے مصائب و آلام کا پروگرام حضرت عزرائیل کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں تحقیق رسول للہ ۖ نے فرمایا ،تم جانتی ہو کہ یہ رات کونسی ہے یعنی نصف شعبان کی رات میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ اس میں کیا خاص بات ہے ؟ تو آپ ۖ نے فرمایا اس میں سال بھر میں پیدا ہونے والے مرنے والے لوگوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے اس شب بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں ۔اس رات لوگوں کے رزق اتارے جاتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ! کیا ہر کوئی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داخل ہو گا؟ تو سرکار ۖ نے فرمایا ہاں! کوئی شخص ایسا نہیں جو جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل ہو ۔اور یہ کلمات آپ نے تین مرتبہ فرمائے ۔میں نے عرض کیا اور آپ بھی یا رسول اللہۖ ؟ تو آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھ کر فرمایا اور میں بھی جب تک اللہ کی رحمت میرے شامل حال نہ ہو ۔یہ کلمہ بھی آپ نے تین بار فرمایا۔(بیہقی ) اس حدیث میں اس امر کی وضاحت کر دی گئی کہ سال بھر میں جو کام ہونا ہوتا ہے اسے متعلقہ سر انجام دینے والے فرشتوں کے ذمے لگادیا جاتا ہے ۔یہی بات ایک اور حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے حضرت عثمان بن محمد فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا کہ زمین والوں کی عمر یں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لکھ دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں ۔حالانکہ اس کا نام مردوں میں داخل ہو چکا ہوتا ہے ۔(ابن کثیر) اس حدیث کا نفس مضمون ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مدت حیات کا ختم ہونا لکھ دیا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ آدمی شادی کرتا ہے اس کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھ چکا ہوتا ہے ۔ (الدرالمنثورصفحہ26جلد6) حضرت راشد بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا ،شعبان کی پندرھویں شب کو اللہ تعالیٰ سال بھر میں قبض کی جانے والی روحوں کی فہرست ملک الموت کے حوالے کر دیتا ہے ۔(روح المعانی)اس حدیث سے عیاں ہوا کہ یہ رات نظامِ حیات و وفات کی تقسیم کے لئے منفرد ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ۖ کو فرماتے سنا کہ چارراتوں میں اللہ تعالیٰ خیر و برکت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔انہی میں سے ایک رات شعبان کی پندرھویں شب ہے ۔اس رات میں وفات کے اوقات ،روزیاں اور حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۔(الدرالمنثور جلد 6صفحہ26) حضرت عطاء بن یسار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو خدا کی طرف سے ایک فہرست ملک الموت کو دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی روحوں کو اس سال قبض کر لینا ہے جن کے نام اس فہرست میں شامل ہیں ۔خواہ ان میں سے کوئی باغ کے درخت لگارہا ہو یا کوئی شادی کر رہا ہو یا مکان تعمیر کر رہا ہو ۔غرضیکہ ان کا نام مردوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے نظامِ موت و حیات کے اصول بڑے احسن طریقے سے مقرر شدہ ہیں اور ان کی حکمت اللہ ہی کو معلوم ہے ۔دنیا داری میں ہر انسان ہر وقت کسی نہ کسی کام میں محو ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جب کسی کا اس دنیا سے مرنا لکھ دیتا ہے ۔تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ دنیا کے کسی بڑے اہم کام میں مصروف تھا ۔کیونکہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس کا اس وقت دنیا سے چلا جاناکیوں بہتر ہے ۔مغفرت و بخشش کی رات:اس رات کی فضیلت کی ایک اور وجہ بخشش اور مغفرت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات میں بے پناہ لوگوں کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور بے شمار لوگوں کی مغفرت کر دیتا ہے ۔ بخشش اور مغفرت کا تعلق اس کے فضل و کرم سے ہے جسے چاہے بخش دے ۔لہٰذا اس رات میں بخشش اور مغفرت طلب کرنی چاہئیے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی کے باعث مہربانی اور عنایت کے دروازے کھول دے ،بخشش اور مغفرت کے متعلق حضور ۖ کی چند احادیث حسب ذیل ہیں جن کا نفس مضمون ایک ہی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب آسمان دنیا کی طر ف نزول اجلال فرماتا ہے اور اس شب میں مشرک اور دل میں بغض رکھنے والوں کے سوا ہر کسی کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔(بیہقی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ۖکو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی جستجو میں نکلی ۔کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ۖ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں ۔آپ ۖ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تمہیں یہ خیال آیا کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارا خیال نہ رکھیں گے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ! مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ آپۖ نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔(ترمذی) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نصف شعبان کی شب آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور رب کریم اپنے تمام بندوں کی مغفرت فرماتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے ۔(ابن ماجہ)حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : شعبان کی پندرھویں شب اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف نظر رحمت فرماتے ہوئے سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں ۔(1)کینہ ور۔اور (2)کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔(مسند امام احمد جلد 2صفحہ 176)حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی اکرم ۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ اس کی مغفرت کردوں ۔کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو عطا کردوں اس وقت خدا سے جو شخص مانگتا ہے اسے مل جاتا ہے لیکن زانیہ اور مشرک کو کچھ بھی نہیں ملتا۔(بیہقی فی شعب الایمان)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ پرورکے باقی سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ (مجمع الزوائد۔جلد 8صفحہ65) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام شعبان کی پندرھویں رات تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا اے صاحب مدح کثیر ! اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائیے ۔میں نے پوچھا یہ کونسی رات ہے ؟ فرمایا یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور کافروں اور مشرکوں کے علاوہ باقی سب کو بخش دیتا ہے ۔مگر یہ کہ وہ جادوگر ہو یا کاہن (آئند ہ کی باتیں اٹکل پچو سے بتانے والا یا بتانے کا دعویدار) ہو ۔ یا شراب کا عادی ہو یا سود کا عادی ہو یا زنا کا عادی ہو کہ ان مجرموں کی اپنے اپنے گناہ سے توبہ کرنے سے پہلے بخشش نہیں ہوتی۔پھر جب رات کا چوتھائی حصہ ہوا تو جبرائیل علیہ السلام اترے اور عرض کیا اے صاحب مدح عظیم ! اپنا سر اٹھائیے۔ سرکار ۖ نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا کہ جنت کے سب دروازے کھلے ہیں ۔پہلے دروازے پر ایک فرشتہ ندا دے رہا ہے کہ اس رات میں رکوع کرنے والوں کو بشارت ہو۔ دوسرے دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اس رات میں سجدہ کرنے والوں کے لئے بشارت ہو ۔تیسرے دروازے پر ایک فرشتہ آوازدیتا ہے کہ اس رات میں دعا کرنیوالوں کے لئے بھلائی ہو ۔چوتھے دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اس رات میں ذکر کرنے والوں کو مبارک ہو ،پانچویں دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اس رات میں خدا سے ڈر کی وجہ سے رونے والوں کو مبارک ہو ۔چھٹے دروازے پر ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اس رات میں تمام مسلمانوں پر خدا کی رحمت ہو ۔ساتویں دروازے پر ایک فرشتہ پکارتا ہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والاکہ اسے بخش دیا جائے اور آٹھویں دروازے پر ایک فرشتہ پکارتا ہے کہ ہے کوئی کچھ مانگنے والا کہ اسے منہ مانگی مراد دی جائے ۔میں نے پوچھا اے جبرائیل علیہ السلام ! یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا شروع رات سے فجر کے نمودار ہونے تک پھرعرض کیااے حمد والے! اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال کی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے ۔(غنیة الطالبین) مندرجہ بالا احادیث کی رو سے جو حضرات اللہ کی رحمت اور بخشش سے محروم رہتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں 🙁 1)مشرک ۔جوخدائے وحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرے کو اس کا شریک ساجھی اور مستحق عبادت قرار دے اس کے بارے میں خدا ذوالجلال کا فیصلہ ہے کہ بیشک اللہ اسے نہیں بخشتا جو اس کے ساتھ شرک کرے اور شرک کے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے (قرآن) کافر اور مرتد بھی مشرک ہی کے حکم میں ہیں ۔(2)ماں کے نافرمان۔(3)باپ کے نافرمان ۔خدا اور رسول کے بعد حقوق العباد میں ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے تو ان کی نافرمانی کا وبال بھی اسی طرح ہو گا۔ حدیث میں ماں باپ کی خدمت نہ کرنے والے کے متعلق تین بار فرمایا گیا ۔وہ ذلیل ہو ۔وہ ذلیل ہو۔ وہ ذلیل ہو۔(4)کاہن جو آئندہ کی پوشیدہ باتیں اٹکل پچو سے بتا ئے ۔یا بتانے کا مدعی ہو۔(5)نجومی جو غیب کی خبر دے ۔عالم غیب ہونے کا دعویٰ کرے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ نجومی کاہن ہے اور کاہن جادو گر ہے اور جا دوگر کافر ہے ۔(مشکوٰة صفحہ394)(6)جادوگر ۔یہ لوگوں کو ایذا دیتا ہے اور زمین میں فساد مچاتا ہے ۔شرح فقہ اکبر میں ہے کہ جمہور علماء جادوگر کو قتل کردینا لازم قرار دیتے ہیں ۔یہی مسلک امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ ،امام مالک رحمة اللہ علیہ ، اور امام احمد رحمة اللہ علیہ کا ہے ۔قتل کا حکم حاکم وقت دے ۔(7) فال نکالنے والے۔ قرآن پاک میں فال نکالنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے ۔(8)سنت کے خلاف عمل کرنے والے۔(9) قاتل جو کسی محترم و معصوم جان کو ناحق مارڈالے ۔(10)جلاّد ۔(11)قرابت داروں سے رشتہ کاٹنے والے۔(12)کینہ ور ۔جس کا سینہ کسی مسلمان سے کینہ کی آلودگی میں ملوث ہو۔(13)عادی سود خود۔جس نے تین بار سود لیا ہو۔(14)سود دینے کے عادی ۔(15)ناچ گانے والے۔(16)زنا کے عادی۔ مردہوں یا عورت۔(17)شراب کے عادی۔ان بد نصیبوں کو چاہئے کہ اپنے گناہ سے باز آکر توبہ کریں اور خدائے پاک کے انعام و اکرام سے سرفراز ہوں۔قبولیت شفاعت کی رات:اس رات کی فضیلت کی ایک اور وجہ قبول شفاعت ہے یعنی جو مسلمان اس رات میں عبادت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گا تو اسے روز قیامت حضور ۖ کی شفاعت نصیب ہو گی ۔اس کے متعلق آپ ۖ کے ارشادات مندرجہ ذیل ہیں۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا:اور مجھے کچھ ایسے فضائل ملے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملے اور مجھے شفاعت دی گئی ۔(بخاری ،مسلم، نسائی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک ”دعا خاص” جناب باری سے ملتی ہے کہ جو چاہو مانگ لو بیشک دیا جائے گا ۔تمام انبیاء آدم سے عیسیٰ (علیہم السلام)تک سب اپنی اپنی دعا دنیا میں کر چکے ہیں اور میں نے دعا آخرت کے لئے اٹھا رکھی ہے ۔ وہ ”دعا خاص” قیامت کے دن میری امت کے لئے میری ”شفاعت ” ہے ۔میں نے اسے ساری امت کے لئے بچارکھا ہے جو دنیا سے ایمان پر اٹھے گی۔(احمد ،بخاری، مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ حضور شفیع المذنبین ۖ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو، یا یہ کہ تمہاری آدھی امت جنت میں جائے ۔میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ عام اور زیادہ کام آنے والی ہے کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ وہ ان گنہگاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور خطا کار ہیں ۔(احمد، ابن ماجہ)امت محمدیہ کے لئے یہ نعمت عظمیٰ خدائے کریم نے اسی عظیم رات شب برأت میں عطا فرمائی ہوئی ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے:اللہ کے رسول ۖ نے شعبان المعظم کی تیرھویں رات کو بارگاہ خدا وندی میں اپنی امت کے لئے شفاعت کی درخواست کی تو ایک تہائی امت کی شفاعت مقبول ہوئی ،پھر چودھویں رات میں دعا کی تو دو تہائی امت کی شفاعت عطا کی گئی : پھر پندرھویں رات”شب برأت ” میں دعا کی تو ساری امت کے حق میں شفاعت قبول ہو گئی سوائے ان نافرمان بندوں کے جو اللہ کی اطاعت سے اونٹ کی طرح بدک کے بھاگتے ہیں ۔(مکاشفة القلوب)عبادت کی رات:شب برأت کی مبارک رات میں حضور ۖ نے بذات خود عبادت میں کثرت کی ہے ،اس لئے حضور ۖ کی اتباع میں اس رات کو نوافل پڑھنا اور شب بیدار رہنا عین سنت ہے ۔اس رات کی عبادت کے اجرکے بارے حضور ۖ کے فرمان کثرت سے ہیں ۔ان کی روشنی میں اس شب کو کثرت سے نوافل پڑھنا اور شب بیداری کرنا مسنون ہے اس کے علاوہ ذکر و اذکار اور تلاوت کرنا بھی بہت عمدہ ہے ۔کثرت عبادت کی متعلق احادیث مبارکہ حسب ذیل ہیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں رسول اللہ ۖ میری چادر کے اندر سے خاموشی کے ساتھ باہر نکل گئے خدا کی قسم ! میری چادر نہ حریر کی تھی نہ قنر کی نہ کتان کی اور نہ خز کی ۔عروہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر کس کپڑے کی تھی ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ۔اس کا تانابالوں کا تھا اور بانا اونٹ کے بالوں کا ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس طرح حضورۖ کے نکل جانے سے مجھے گمان ہوا کہ حضور اکرم ۖ کسی اور بی بی کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔میں نے اٹھ کر آپ کو حجرے میں تلاش کیا تو میرے ہاتھ حضورۖ کے پائوں سے چھوگئے ۔آپ اس وقت سجدے میں تھے میں نے دعا کے الفاظ یاد کر لئے تھے آپ سجدہ میں فرما رہے تھے یا اللہ ! میرا جسم اور میرا دل تجھے سجدہ کرتا ہے ۔میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں ۔اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں ۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے ۔تیرے سوا کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیںہے۔ میں تیرے عذاب سے بچنے کے لئے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔تیرے غضب سے بچنے کے لئے تیری رضا کا طالب ہوں۔ تیرے عذاب سے امن میں رہنے کے لئے تجھ ہی سے درخواست کرتا ہوں۔تیری حمد و ثنا کوئی بیان نہیں کرسکتا تو نے آپ اپنی ثنا کی ہے تو ہی آپ اپنی ثنا کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا۔(غنیة الطالبین) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صبح تک رسول اللہ ۖ عبادت میں مصروف رہے ،کبھی آپ کھڑے ہو جاتے اور کبھی بیٹھ کر عبادت فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو گئے ۔میں آپ کے پائوں کو دباتے ہوئے کہنے لگی میرے ماں باپ آپ پر قربان !کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوںکے تمام گناہ معاف نہیں فرما دئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپۖ کے ساتھ ایسا (کرم) نہیں کیا اور آپ پر لطف و کرم نہیں کیا؟ رسو ل اللہ ۖ نے فرمایا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ تمہیں معلوم ہے یہ کیسی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ فرمائیں یہ رات کیسی ہے؟رسول اللہ ۖ نے فرمایا اس رات میں سال بھر میں پیدا ہونے والے ہر بچہ کا نام لکھا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہر مرنے والے کا نام بھی لکھا جاتا ہے۔ اسی رات مخلوق کا رزق تقسیم ہوتا ہے ۔اسی رات ان کے اعمال و افعال اٹھائے جاتے ہیں ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ! کیا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہو ؟ آپ ۖ نے فرمایا کوئی شخص بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔میں نے عرض کیا کیا آپ بھی ؟ آپ ۖ نے فرمایا ہاں میں بھی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا ہے اور اس کے بعد حضور ۖ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے اور سر پر پھیرا ۔(غنیة الطالبین) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضور ۖ نے اس رات میں کثرت سے عبادت کی اس لئے ہمیں بھی حضور ۖ کی اتباع میں اس رات خوب سجدہ ریزی کرنی چاہئیے ۔ غنیة الطالبین میں شیخ ابو نصر کی اسناد سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے مجھ سے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کونسی رات ہے؟ انہوں نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول ۖ ہی واقف ہیں ۔حضور ۖ نے فرمایا یہ نصف شعبان کی رات ہے ۔اس رات میں دنیا کے اعمال (بندوں کے اعمال) اوپر اُٹھائے ہیں۔ (ان کی پیشی بارگاہ ر ب العزت میں ہوتی ہے )اللہ تعالیٰ اس رات بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے ۔تو کیا تم آج کی رات مجھے عبادت کی آزادی دیتی ہو؟ میں نے کہا ضرور ۔پھر آپ ۖ نے نماز پڑھی اور قیام میں تخفیف کی ،سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورة پڑھی ۔پھر آدھی رات تک آپ سجدے میں رہے۔پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت پڑھی اور پہلی رکعت کی طرح اس میں قرأت فرمائی یعنی چھوٹی سورت پڑھی ۔پھر سجدے میں چلے گئے ۔یہ سجدہ فجر تک رہا ۔میں دیکھتی رہی۔ مجھے یہ اندیشہ ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ اپنے رسول ۖ کی روح مبارک قبض فرمالی ہے ۔پھر جب میرا انتظار طویل ہوا بہت دیر ہو گئی ،تو میں آپۖ کے قریب پہنچی اور میں نے حضور ۖ کے تلووں کو چھؤا تو حضور ۖ نے حرکت فرمائی ۔میں نے خود سنا کہ حضورۖ سجدے کی حالت میں یہ الفاظ ادا فرما رہے تھے۔اعوذ بعفوک من عقوبتک واعوذ برحمتک من نقمتک اعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جل ثنائک ، لا احصی ثنا ء علیک انت کما اثنیت علی نفسک، الہٰی!میں تیرے عذاب سے تیرے عفو اور بخشش کی پناہ میں آتا ہوں ،تیرے قہر سے تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہو اور تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں تجھ سے ہی پناہ چاہتا ہوں ۔تیری ذات بزرگ ہے ،میں تیری شایان شان ثناء بیان نہیں کر سکتا ۔تو ہی آپ اپنی ثناء کر سکتا ہے اور کوئی نہیں۔توبہ کی رات:کسی شخص نے سیدنا حضرت مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ سے توبہ کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ شراب پینے کا عادی تھااور میری چھوٹی سی بچی تھی ۔ جو میرے سامنے ہی شراب کی بوتلوں کو انڈیل دیتی تھی ۔جب وہ دو سال کی ہوئی تو وفات پاگئی ۔جس کی وجہ سے میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا ۔ جب شعبان کی پندرھویں رات آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہو گئی ہے اور ایک بڑا اژدھا اپنا منہ کھولے ہوے میرے پیچھے لگ گیا ہے ۔میں نے بھاگنا شروع کر دیا ۔مجھے ایک نیک بزرگ نظر آیا میں نے اسے کہا کہ مجھے اس سانپ سے بچائو خدا تمہیں بچالے۔ تو اس نے رو کر کہا کہ میں ضعیف و کمزور ہوں تمہیں نہیں بچا سکتا ۔لیکن تم آگے جائو شاید اللہ تعالیٰ تیری نجات کاکوئی ذریعہ بنا دے۔میں بھاگا اور ایک آگ کے پاس گیا تو آواز آئی ،واپس جائو میں پیچھے واپس ہوا ،مگر سانپ میرے پیچھے لگا ہوا تھا ۔میں پھر اس بزرگ کے پاس سے گزر ا اور اس سے پناہ مانگی ۔اس نے کہا کہ میں کمزور ہوں تیری مدد نہیں کر سکتا البتہ تو اس پہاڑ کی طرف چلا جا اس میں مسلمانوں کی امانتیں ہیں۔ اگر تیری بھی کوئی امانت ہوئی تو وہ تیری مدد کرے گی۔ جب میں پہاڑ کے قریب پہنچا تو ایک فرشتہ نے آواز دی کہ دروازہ کھول دو شاید اس کی تمہارے پاس کوئی امانت ہوتو وہ اس کو دشمن سے پناہ دے کی جب دروازہ کھل گیا تو اچانک مجھے بچی نظر آئی جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے مجھے پکڑا اور بائیں سے اژدھا کو دفع کیا تو وہ سانپ بھاگ گیا ۔پھر بچی نے کہا ابا جان!کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تو توبہ کرے۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو قرآن شریف جانتی ہے؟ اس نے کہا ہاں! میں نے اس سانپ کے متعلق پوچھا ۔تو بچی نے کہا کہ وہ تیرا عمل تھا اور وہ بزرگ تیرا نیک عمل تھا ۔ مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں گھبرا تے ہوئے بیدار ہوا تو میں نے مکمل طور پر توبہ کی۔(نزہة المجالس جلد اول صفحہ 132)شب برأت میں شب بیداری :رات بھر جاگتے رہنے کو شب بیداری کہا جاتا ہے ۔لہٰذا بہتر تو یہ ہے شب برأت میں تمام رات بیدار رہا جائے چونکہ جب کوئی بیدار رہے گا تو لامحالہ اللہ کی عبادت کرے گا ۔اگر ساری رات نہ جاگے گا تو رات کے پہلے پہر میں سولے پھر پچھلے پہر میں بیدار ہو کر اللہ کی عبادت کرے۔شب بیداری گھر میں یا مسجد میں دونوں طرح درست ہے یا کسی اور خلوت کے مقام پر بھی جائز ہے ۔حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ شب زندہ دار ہیں وہ اپنی رات میں اس سے کہیں زیادہ لذت پاتے ہیں جو لہو و لعب میں مشغول رہ کر لذت پاتے ہیں ۔کسی بزرگ کا ارشاد ہے کہ ”دنیا میں کوئی چیز بھی جنتیوں کی نعمتوں کے مثل و مانند نہیں ہے ۔البتہ وہ حلاوت نعیم جنت کے مشابہ ہے جو رات کے وقت نیاز مندانہ عبادت کرنے والے اپنی عبادات اور مناجات سے حاصل کرتے ہیں ۔ذکر شب کی حلاوت نعیم جنت کے مشابہ ہے ۔یہ حلاوت ایک ایسا ثواب عاجل ہے جو ان شب زندہ داروں کو فوراً حاصل ہو جاتا ہے ۔” ایک اور عارف باللہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ صبح کے وقت شب زندہ دار حضرات کے دلوں کو دیکھتا ہے تو وہ ان کو اپنے نور سے بھر دیتا ہے جس کے فوائد سے مستفیض ہو کر ان کے دل نورانی بن جاتے ہیں اور ان کے قلوب سے یہ فوائد منتشر ہو کر غافلوں تک پہنچتے ہیں اور وہ ہدایت یاب ہوتے ہیں ۔حدیث شریف میں وارد ہے ۔علیکم بقیام اللیل فانہ مرضاة لربکم الخ ۔رات کو اُٹھ کر عبادت کرو کیونکہ اس میں تمہارے رب کی رضا مندی ہے ۔(اور تم سے پہلے نیک بندوں کا یہی طریقہ رہا ہے ۔یہ نماز گناہوں سے روکتی ہے اور اس کے بوجھ کو دور کرتی ہے ۔شیطان کے مکرو فریب کو دور کرتی ہے اور بیماری کو جسم سے نکالتی ہے ۔ بزرگان سلف کی ایک جماعت تمام رات عبادت کیا کرتی تھی یہاں تک کہ چالیس تابعی حضرات رضی اللہ عنہم کے سلسلہ میں یہ منقول ہے کہ وہ عشا ء کی نماز کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا کر تے تھے۔شب بھر عبادت میں بسر کرتے تھے ۔ان حضرات میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ ،حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ ،حضرت وہیب بن الورد ،حضرت ابو سلیمان دارانی ،حضرت شیخ علی بن بکار، حضرت حبیب عجمی، حضرت کہمس رضی اللہ عنہ بن المنہال، حضرت محمد بن المنکدر ،حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت شیخ ابو حازم رضی اللہ عنہم وغیرہم شامل تھے۔بہر حال اگر کوئی شخص تمام رات عبادت نہ کر سکے تو دو تہائی ،ایک تہائی یا رات کے کم از کم ٦/١ حصہ میں عبادت کرنا مستحب ہے اور اس کی آسان صورت یہ ہے کہ یا تو رات کے پہلے ثلث میں سوئے اور اس کے بعد اُٹھ کر عبادت کرے اور اس کے بقیہ ٦/١ حصہ میں سو جائے ،یا نصف شب تک سوئے اور اس کے بعد نصف کے نصف میں عبادت کرے اور پھر ٤/١ حصہ میں سو جائے۔ روایت ہے کہ ایک بار حضرت دائود علیہ السلام نے پروردگار عالم کے حضور عرض کیا کہ یا الہٰی ! میں چاہتا ہوں کہ شب میں تیری عبادت کروں تو میں کس وقت اٹھوں ؟ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اے دائود ! نہ تم اول شب میں اٹھو اور نہ آخر شب میں ۔کیونکہ جو رات کے اول وقت میں اُٹھ کر عبادت کرتا ہے وہ آخر شب میں سوتا ہے اور جو آخر شب میں اٹھتا ہے وہ اول وقت (شب) میں سوتا ہے لیکن تم وسط شب میں اٹھو اور عبادت کرو، تاکہ تم کو میرے ساتھ خلوت میسر ہو اور میں بھی تمہارے ساتھ تنہار ہوں ،اس وقت اپنی حاجتیں میرے حضور میں پیش کرو۔ پس شب بیداری ،خواب استراحت کے دونوں حصوں اول و آخر کے مابین ہونی چاہئے ۔ورنہ اول شب ہی سے نفس غالب آ جاتا (اور سلادیتاہے) اس عرصہ میںنفلی نمازوں میں مشغول رہنا چاہیے اور جب نیند کا غلبہ ہو تواول شب میں سوجاے ۔ بیدارہونے پروضو کرے اس طرح دودفعہ اٹھناہوگا اور دودفعہ سونا۔ (اول شب اور آخر شب میں) جو بہتر ین صورت ہے ۔اس وقت نمازشروع نہ کرے جب نیند کی حالت ہو ،نماز اس وقت پڑھے جب اچھی طرح بیدار ہو جائے اور اپنی کہی ہوئی بات کو اچھی طرح سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ۔کیونکہ منقول ہے کہ ”رات میںاپنی ذات پر سختی برداشت نہ کرو” (عوارف المعارف)شب برأت کے نوافل:شب برأت میں بعض صالحین نے جو نوافل پڑھے ہیں ان کا طریقہ کا ر حسب ذیل ہے:ترقیٔ رزق کے نوافل:۔ شعبان کی پندرھویں شب دورکعت نماز پڑھنی ہے ۔ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیة الکرسی ایک بار، سورۂ اخلاص پندرہ پندرہ مرتبہ بعد سلام کے درود شریف ایک سو دفعہ پڑھ کر ترقی رزق کی دعا کرے ۔انشا ء اللہ تعالیٰ اس نماز کے باعث رزق میں ترقی ہو جائے گی۔عذاب قبر سے نجات کے نوافل:شب برأت میں چار رکعت نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کے بعد ایک ایک بار سورة ملک پڑھیں ۔دوسری دو رکعتوں میں سورة فاتحہ کے بعد سورة مزمل ایک ایک بار پڑھیں ۔یہ نوافل عذاب قبر سے نجات کے لئے بہت مؤثر ہیں کیونکہ سورة ملک اور سورة مزمل پڑھنے والے کے لئے قبر میں مغفرت اور نجات کا ذریعہ بنیں گی۔آٹھ رکعت نوافل:پندرھویں شب کو آٹھ رکعت نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص دس دس مرتبہ پڑھنی ہے ۔اللہ پاک اس نماز کے پڑھنے والے کے لئے بے شمار فرشتے مقرر کرے گا ۔جو اسے عذاب قبر سے نجات کی اور بہشت میں داخل ہونے کی خوشخبری دیں گے۔بارہ رکعت نوافل:شب برأت میں 12رکعت نوافل پڑھنا بھی بہت مفید ہے ۔یہ نوافل دو دو کر کے پڑھیں ۔ہر پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ کوثر اکتالیس مرتبہ پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص اکتالیس بار پڑھیں ۔نوافل مکمل ہونے کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر گیارہ سو مرتبہ یہ وظائف پڑھئیں ۔اس کے بعد اللہ کے حضور بڑی عاجزی سے اپنی حاجت کے لئے دعا کریں ۔اگر اللہ کو منظور ہوا تو حاجت پوری ہو جائے گی ۔یہ نوافل بخشش اور مغفرت کے لئے بھی بہت اکسیر ہیں ۔وَاُفَوّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْر”م بِالْعِبَاد۔ اس کے بعد گیارہ سو مرتبہ یہ پڑھیں۔وَاللّٰہُ لَطِیْف”مبِعِبَادِہِ یَرْزُقُ مَنْ یَشَآئُ وَھُوَ الْقَوِیُّ الَعَزِیْزْ۔بیس رکعت نوافل:شب برأت میں بیس رکعت نوافل دو دو کر کے یوں پڑھیں کہ ہر پہلی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة القدر گیارہ مرتبہ اور ہر دو سری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھیں ۔اس کے بعد 128مرتبہ وظیفہ پڑھیں ۔یہ نوافل دینی و دنیوی فیوض و برکات کے لئے بہت مفید ہیں ۔قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدْ یَاحَنَّانُ اللّٰہُ الْصَّمَدْ یَا مَتَّانُ لَمْ یَلِدْ یَا کَرِیْمُ وَلَمْ یُوْلَدْ یَا رَحِیْمُ وَلَمْ یَکُنّ لَّہ کُفُوًا اَحَدْ یَا عَزِیْزُ۔پچاس رکعت نوافل:اس رات میں 50رکعت نوافل یوں پڑھنا کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سات مرتبہ پڑھیں ۔نوافل مکمل کرنے کے بعد 11مرتبہ آیة الکرسی کا ورد کریں۔ یہ نوافل بے شمار برکات کے حامل ہیں ۔پڑھنے والے پر کشادگی اور رحمت کے ذرائع کھل جانے کا امکان ہے۔صلوٰة الخیر:شب برأت میں جو نماز سلف سے منقول اور وارد ہے اس میں سو رکعتیں ہیں ۔ایک ہزار مرتبہ سورۂ اخلاص کے ساتھ یعنی ہر رکعت میں دس مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھی جائے ۔اس کا نام صلوٰة الخیر ہے اس کے پڑھنے سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔سلف صالحین یہ نماز با جماعت پڑھتے تھے ۔اس نماز کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اس کا ثواب کثیر ہے ۔حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھ سے سرور کائنات ۖ کے تیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیان کیا کہ اس رات میں جو شخص یہ نماز پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر بار دیکھتا ہے اور ہر بار کے دیکھنے میں ستر حاجتیں اس کی پوری کرتا ہے جن میں سے سب سے ادنیٰ حاجت اس کے گناہوں کی مغفرت ہے۔ مستحب ہے کہ اس نماز یعنی صلوٰة الخیر کو ان چودہ راتوں میں بھی پڑھے جن میں عبادت کرنا اور شب بیداری کرنا مستحب ہے ۔(غنیة الطالبین)وظائف شب برأ ت :وظیفہ سورۂ یٰسین :سورۂ یٰسین کو قرآن کا دل کہا جاتا ہے جس طرح انسانی جسم میں دل بڑا عظیم اور عالی مقام رکھتا ہے اسی طرح سورۂ یٰسین کے اثرات کی شان بڑی باعظمت ہے لہٰذا بعض صالحین سے منقول ہے کہ اس رات میں سورہ یٰسین کا پڑھنا ترقی رزق اور درازیٔ عمر کا سبب بنتا ہے اس رات میں سورة یٰسین 21مرتبہ پڑھنا بڑا افضل ہے پڑھائی کے بعد جو کچھ اللہ سے مانگے گا تو اگر اس کے لئے بہتر ہو گا تو مل جائے گا ۔وظیفہ برائے روحانی فیوض:جو شخص راہ حقیقت کا متلاشی ہو تو اسے اس رات تہجد کے وقت کثرت سے یہ وظیفہ پڑھنا چاہئیے ۔اللہ اپنے ان اسماء کی بدولت اس کے لئے روحانی راہنمائی کے ذرائع پیدا کر دے گا ۔اگر کثرت سے نہ پڑھ سکیں تو کم از کم 300مرتبہ ضرور پڑھیں ۔اس کے فوائد بے پناہ ہیں ۔٭اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُ رَحِیْمْ ٭اِنَّ اللّٰہَ وَکِیْلُ الْکَفِیْل ٭اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزُ الْحَکِیْم ٭اِنَّ اللّٰہَ شَکُوْرُ الْعَلِیْم٭اِنَّ اللّٰہَ قَوِیُ الْعَزِیْز ٭اِنَّ اللّٰہَ حَیُ الْقَیُّوْم ٭اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزُ الْغَفَّاروظیفہ برائے استغفار:اس شب میں وظیفہ استغفار بھی بہت عمدہ ہے لہٰذا استغفار کے لئے گیارہ سو مرتبہ یہ وظیفہ پڑھیں : اَسْتَغْفِرُ اللّٰہِ الَذِیْ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْم وَاٰتُوْبُ الَیْہِ۔وظیفہ ٔ توحید:جو شخص یہ خواہش رکھتا ہو کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا عقیدہ بہت پختہ ہو جائے تو اسے کثرت سے اس شب میں کلمہ طیبہ کا ورد اس طرح کرنا چاہئیے ۔لا الہ الا اللّٰہ ۔پھر یوں پڑھے :٭لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہ ٭لَامَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہ ٭لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہ ٭لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ اللہ تعالیٰ ہمیں شب برأت کی قدر و منزلت جانتے ہوئے اسے توبہ و استغفار ،عبادت و ریاضت اور شب بیداری میں بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین!شائع فرماکر شکریہ کا موقع دیں علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان 0300-6491308/0333-6491308