قائد کی زیارت گاہ


قائد کی زیارت گاہ
تحریر زیب مسہود
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے بہت شرمندہ ہیں
جس قوم کی آزادی کی خاطر تو نے اپنا تن من دھان کیا
آج ہم نے اس خرمن کو ہاتھوں میں دشمن کے سلگتے دیکھا
اس تیرے نشیمن میں جہاں تیری ٹوٹتی سانسوں کا سرگم تھا
وہ سرگم کی جو آزادی کا گیت سناتا تھا
آج قوم کی غفلت میں وہ گیت کھو گیا
اے قائد آج کے دن ہم تجھ سے بہت شرمندہ ہیں۔قائدا عظم کی زیارت ریزیڈنسی قوم کے ہر فرد کے لیے آزادی وقار اور ایثار کی یادگار تھی۔لیکن اس کو کسی اور نے نہیں بلکہ ہم نے خود ہی جلا کر راکھ کر دیا ہے۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ اے درخت تو کبھی نہ کٹتا اگر کلہاڑی کو تو خود لکڑی فراہم نہ کرتا۔ یعنی کلہاڑا بغیر لکڑی کی ہتھی کے خود بخود تو لکڑی نہیں کاٹ سکتا۔
اسے طرح ہمارے ملک کو خوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر ہم خود اس میں شامل نہ ہوں۔اور قائد کی ریزیڈنسی کسی اور نے نہیں پاکستان کے غداروں نے جلایاہے۔تو ہم دوسروں کو کیوں الزام دیں بلکہ جو لوگ اس کی حفاظت پر مامور تھے وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہمارے وہ میرجعفر اور میر صادق جو اپنا ڈیڑھ انچ کا الگ ملک بنانا چاہتے ہیںان کو بھی ہم لوگوں کی غفلت نے ہی اس راستے پر ڈالا ہے۔مگر کیا کیجیے کہ کھوٹے سکے کھوٹے ہی رہتے ہیں خواہ انہیں کتنا ہی کھرا بنانے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ہم نے مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا جبھی تو بلوچستان کا مسئلہ پیدا ہوا ۔اب ہمیں قائد کی زیارت گاہ سے سبق سیکھنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ قائد کا سفید گمبد علامہ اقبال کی آرام گاہ اور نہ جانے کتنی ہی عظیم ہستیوں کے ٹھکانے جو ہماری قوم کے لیے اور ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ہمت اور عظمت کا نشان را ہ ہیں۔ہمارے ارباب اختیار کو ان یادگاروں کی حفاظت کے لیے ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔آج ارباب اختیار کہتے ہیں کہ وہ قائد کی ریزیڈنسی پھر سے تعمیر کر دیں گے۔ان سے پوچھیں کہ وہ فرنیچر جو قائد نے استعمال کیا تھا ۔وہ لباس جو ان کے زیر استعمال تھے۔وہ برتن جن میں وہ کھاتے پیتے تھے اور وہ درو دیوار جو ہر آنے جانے والے کو سرگوشیوں میں وفا کے وطن کے روداریوں کے درس دیتے تھے وہ کس بازر اسے خریدو گے۔وہ لمس وہ قائد کے سانسوں کی مہک جو ریزیڈنسی کی فضائوں میں رچ بس گئی تھی وہ کہاں سے لائو گے؟مجھے محسوس ہوتا ہے قائد ایک بار پھر ہم سے بچھڑگئے ہیں اور وہ بھی ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں