صرف اس کے ہونٹ کاغذ


آج جی میں آیا کہ کچھ مختلف عنوان پے انتخاب کو سپردِ قرطاس کیا جاۓ ۔ سوچا تو کام مشکل لگا، مگر یک لخت اک لفظ نے مشکل آسان کر دی ، اور وہ لفظ ہے ” کا غذ”

کتاب کھول رہا تھا وہ اپنے ماضی کی

ورق ورق پہ بکھرتا گیا میرا چہرہ

امیرِ شہر نے کا ٖغذ کی کشتیاں دے کر

سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں

( محسن نقوی)

صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا لیتا ہوں میں

خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

(انور شعور)

وہ بھی شاید رو پٹرے ویران کاغذ دیکھ کر

میں اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

( ظہور نظر)

کاغذ گراں ہوا تو بڑا ہی غضب ہوا

اعمال ناموں والا فرشتہ طلب ہوا

اور بارگاہِ غیب سے ارشاد ِ رب ہوا

کاغذ کی اس کمی کا بتا کیا سبب ہوا

اس وقت زمیں پہ اک قتل ِ عام ہے

اعمال لکھے جانے کا کیا اہتمام ہے

وہ بولا ہاتھ جوڑ کے اے صاحبِ کرم

کاغذ کے کارخانوں میں اب بن رہے ہیں بم

کاتب سے کہ دیا ہے کہ باریک ہو قلم

مضون مختصر کرے’ بین السطور کم

پی لے جو بھول چوک کے توُ مثلِ جعفری

اس لیے یہ سمجھو کہ یہ جرم سے بری

اے واقفِ مصالحِ پیکارِ خیر و شر

کاٖغذ ہے تیر ی نعمتِ عظمیٰ زمین پر

لاتا ہے اس کو مصرفِ بے جا میں یوں بسر

نالی میں پھینک دیتا ہے کاغذ کو پونچھ کر

زر کھینچنے کے واسطے نوٹ ایک جال ہے

“عالم تمام حلقہ ء دامِ خیال ہے”

( سیّد محمد جعفری)

امید ہے خاکسار کی طبعِ جدّت طرازی احباب کو پسند آیئ ہو گی، اگر نہ آیئ ہو تب بھی سچ لکھیے، تعریف ِ سوُ سے کڑوا سچ مجھے بے حد پسند ہے اور ہمیشہ اس بات کا احسان مند رہتا ہوں

انیس

__._,_.___

اپنا تبصرہ لکھیں