سنو یہ فخر سے اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں
کبھی ہم منہ بھی دھوتے تھے، مگر اب واش کرتے ہیں
تھا بچوں کے لیے بوسہ مگر اب کِس ہی کرتے ہیں
ستاتی تھیں کبھی یادیں مگر اب مِس ہی کرتے ہیں
چہل قدمی کبھی کرتے تھے اور اب واک کرتے ہیں
کبھی کرتے تھے ہم باتیں مگر اب ٹاک کرتے ہیں
کبھی جو امی ابو تھے ، وہی اب مما پاپا ہیں
دعائیں جو کبھی دیتے تھے وہ بڈھے سیاپا ہیں
کبھی جو تھا غسل خانہ ، بنا وہ باتھ روم آخر
بڑھا جو اور اک درجہ ، بنا وہ واش روم آخر
کبھی ہم بھی تھے کرتے غسل، شاور اب تو لیتے ہیں
کبھی پھول چنتے تھے، فلاور اب تو لیتے ہیں
کبھی تو درد ہوتا تھا، مگر اب پین ہوتا ہے
پڑھائی کی جگہ پر اب تو نالج گین ہوتا ہے
ڈنر اور لنچ ہوتا ہے، کبھی کھانا بھی کھاتے تھے
بریڈ پر ہے گزارا اب، کبھی کھابے اڑاتے تھے
کبھی ناراض ہوتے تھے، مگر اب مائنڈ کرتے ہیں
جو مسئلہ کچھ الجھ جائے ، سلوشن فائنڈ کرتے ہیں
جگہ صدمے کی یارو اب تو ٹیشن ، شاک لیتے ہیں
کہ “بوہا” شٹ جو کرتے ہیں تو اس کو لاک دیتے ہیں
ہوئے آزاد”جب ہم تو ترقی کرگئے آخر
جو پینڈو ذہن والے تھے، وہ سارے مر گئے آخر
شاعر نامعلوم
Mohammed Shahid Rizwan