قربِ عباس
ہماری گلیوں میں جب رات اترتی ہے اور ہم گہری نیند سو جاتے ہیں تو تب اس رات کے سناٹے میں نجانے کتنی کہانیاں سسکیاں بھرتی ہیں. ہم بیچارے تھکن سے چور نیند کے مارے ، انجان، بیخبر اور بہرے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، کچھ بھی نہیں…
میں اپنے اندھیرے کمرے میں لیٹا ہوا تھا لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے، ایک موٹی سی گالی حکومت کو نکال کر اٹھا اور گلی میں نکل آیا . رات کے سوا دو بج رہے تھے، ٹہلتا ٹہلتا اپنے ٹان کی مین اینٹرس پر پہنچ گیا، جہاں ایک چوکیدار سگریٹ سلگہائے کرسی پر بیٹھا تھا.
میں عموما دفتر سیرات دیر سے ہی گھر واپس آتا ہوں ، اور ہر بار مین اینٹرس پر یہی چوکیدار با آواز بلند کہتا ہے “سلام لیکم صاب جی” میں بس جھوٹی سی مسکان ہونٹوں پر لا کر سر ہلا کر گزر جاتا ہوں.
خیر میں نے چوکیدار کے سگریٹ کو دیکھ کر اپنی جیب میں سے پیکٹ نکالا ماچس کے لئے جیب ٹٹولی تو معلوم پڑا کہ ماچس گھر ہی چھوڑ آیا ہوں، “چوکیدار سے لیتا ہوں” اسی خیال کے ساتھ میں اسکی طرف بڑھا چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا کہ اس نے کہا “سلام لیکم صاب جی”، خلاف معمول میں نے اپنے منہ پر اخلاق کا “لیپا” کیا اور اس سے زیادہ اچھے انداز میں جواب دیا “وا….. علیکم اسلام….” کیوں کہ ماچس جو چاہیئے تھی.
“ماچس ہوگی آپ کے پاس؟”
“جی جی… ماچسیں دو دو ہیں صاب جی، لیں” اس نے ماچس میری طرف بڑھائی.
میں نے منہ میں سگریٹ لیا اور دیا سلائی لگائی ، سگریٹ الٹا منہ میں رکھا تھا ، فلٹر کو آگ لگی اور میرا اکلوتا سگریٹ بیکار ہوگیا . میں نے خالی پیکٹ ایک طرف پھینک دیا. یہ دیکھتے ہی چوکیدار بولا “صاب جی، یہ کیا ہوگیا؟”
“الٹا لگا لیا تھا ، فلٹر جلا ہے” میں نے سگریٹ بھی ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا
“صاب جی، میرے پاس غریبوں والی سگریٹ ہے، گولڈ فلیک! سوٹا لگانا ہے تو اسکا لگا لیں” چوکیدار نے بہت ہی سادہ مگر مخلص انداز میں اپنے سگریٹ آگے کیے .
میں ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا “گولڈ فلیک… اچھا چلیں دے دیں یہی”
“گولڈ لیف کے ڈنڈے میرا بھائی انگلنڈ سے لایا تھا، مجھ سے نہیں پیئے گئے، گلے کو پکڑ لیتی ہے.” میں نے اس بات کو چوکیدار کا سفید جھوٹ ہی جانا، جی میں سوچا “لوگ یہاں سے انگلینڈ لے کر جاتے ہیں اسکا بھائی وہاں سے پاکستان لایا تھا، ہونہہ”
پھر وہ اپنی کرسی کے ساتھ پڑی ایک اور کرسی کو سیدھا کرتے ہوئے بولا “صاب جی بیٹھ جائیں” میں بیٹھ گیا.
آپ کا واسطہ اس طبقے کے کسی بھی شخص سے پڑے تو آپ کو چند ایک باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں جیسے کہ ملکی بدحالی، غربت اور مہنگائی، لوڈشیڈنگ، حکومت کی بری کارکردگی وغیرہ. سو اس کی گفتگو بھی ان ہی میں سے ایک پر شروع ہوئی
“بجلی نے تو برا حال کر دیا ہے، تین تین گھنٹے نہیں ہوتی. رات کی ڈیوٹی کر کے گھر جاتا ہوں تو دن کو بجلی کی وجہ سے نیند نہیں آتی، اتنی گرمی میں لوگوں کا برا حال ہے” وہ کبھی میری طرف دیکھتا کبھی ادھر ادھر
یہ سب سن سن کر بہت پک چکا ہوں سو میں نے باتوں کا رخ بدلا “کتنے سال سے یہ کام کر رہے ہیں؟”
“او جی بس… پہلے فوج میں تھا تو بیمار ہوگیا نوکری چھوڑ دی جب ٹھیک ہوا تو یہاں گارڈ کی نوکری کر لی. پانچ سال ہوگئے ہیں… ساڈے پانچ پونے چھ سال”
“اچھا… بہت عرصہ ہوتا ہے، کبھی کوئی عجیب و غریب واقعہ ہوا ہو، حیران کر دینے والا؟”
“عجیب واقعہ … کون سا عجیب واقعہ؟ کوئی نہیں جی” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
“کوئی تو ہوا ہوگا. انسان کے ارد گرد بہت کچھ ہوتا ہے، کہیں پر ظلم ہے، زیادتی ہے، بھوک ہے، چوری ہے، حق تلفی ہے، جہالت ہے” میں نے بات کو طول دیا.
دراصل میرے سے بڑا احمق کوئی نہیں. یہ بھی نہیں سوچا کہ بھلا اسے ان باتوں سے کیا مطلب؟ مگر اس کے باوجود یہ مزدور طبقہ اتنا بہادر ہے کہ ہر قسم کی بات بغور سنتا ہے ، چاہے اسکی سمجھ آئے نہ آئے ، اثر ہو نہ ہو
میں دوبارہ بولا “کوئی واقعہ تو ایسا ہوگا… جس پر بڑی حیرت ہوئی ہو، حیرانگی ہوئی ہو؟”
وہ بولا “جی جی… ہوتی تو ہے، مگر ابھی یاد نہیں آ رہا” اس نے آخری کش لگا کر سگریٹ ایک طرف پھینکا اورسوچ میں پڑ گیا “کوئی… حیرت، حیرانگی… ہاں! ایک دفعہ!”
“ہاں کیا ایک دفعہ؟” میں تھوڑا سیدھا ہو کر بیٹھا
“میرے ناں صاب جی پانچ بچے تھے، تیسرے لمبر والے کو دیڑھ سال پہلے نمونیا ہوگیا تھا، وہ چار سال کا تھا ”
“اچھا؟ اوہو… بہت برا ہوا. مگر اس میں حیرانگی یا حیرت کی کیا بات ہے؟” میں نے پوچھا .
اس نے کچھ پل بہت ہی سنجیدگی سے میری طرف دیکھا، پھر بولا “پہلے تو میری گھر والی گھر میں ہی ٹوٹکے کرتی رہی، کوئی فرق نہیں پڑا تو میں دم درود کرواتا رہا، وہ اور بیمار ہوگیا تو سوچا ڈاکٹر کے پاس لے جاں. سرکاری ہسپتال میں رش اتنا تھا باری بڑی دیر کے بعد آئی، کمرے میں گیا تو ڈاکٹر صاب کو دیکھا. اسی ٹان کے ہیں روز یہاں سے گذرتے ہیں، آپ جانتے ہوں گے ڈاکٹر آفتاب کو؟”
میں نے نہ میں سر ہلا یا “نہیں میں نہیں جانتا، اچھا پھر؟”
اس نے اپنی بات جاری رکھی “اس دن ہسپتال میں ڈاکٹر صاب کے ساتھ میرے بیٹے جتنی انکی بیٹی بھی تھی. وہ کچھ کھا نہیں رہی تھی اور ڈاکٹر صاب اسے پیار سے کھلانے کے لئے منا رہے تھے. بہت دیر کے بعد وہ بسکٹ خانے لگی تو ڈاکٹر صاب بولے ہاں جی؟ کیاہوا تمھیں؟ میں نے کہا ڈاکٹر صاب میرا بیٹا ہے، میری بات پوری نہیں ہوئی تھی انکی بچی نے پھر انہیں کھینچا اور بولی پاپا چاکلیٹ… زیادہ شور مچایا تو ڈاکٹر صاب اٹھ کر باہر چلے گئے. تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے تو تب بھی بچی شور ہی کر رہی تھی … پاپا چاکلیٹ… پاپا چاکلیٹ… ڈاکٹر صاب بولے بیٹا ابھی تھوڑی دیر تک آجاتی ہیں. پھر میری طرف ہو کر بولے اچھا تو کیا ہے؟ بیمار آپ ہیں یا بچہ؟ میں نے کہا میرا بچہ ہے جی. ڈاکٹر صاب نے پوچھا کیا ہوا ہے اسے میں بتانے لگا تو انکی بچی پھر بولی پاپا چاکلیٹ، ڈاکٹر صاب بولے بیٹا ابھی آتی ہے، بس ٹین منٹ. بس ٹین منٹ” چوکیدار کی نظریں سامنے آہنی کھمبے پر جمی ہوئی تھیں ، وہ خاموش ہوگیا
میں کچھ دیر کے بعد بولا “اچھا… پھر چیک کروایا تو؟”
ایک جھٹکے سے چوکیدار کی نظریں کھنبے سے اتر کر میرے چہرے پر آئی “ہیں…؟ جی جی. ڈاکٹر صاب کی بچی بہت ضدی تھی، جب تک چاکلیٹ آئی نہیں وہ مانگتی ہی رہی، اور ڈاکٹر صاب بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے. اس کو مناتے مناتے انہوں نے مجھ سے بیماری کا پوچھا، کچھ بچی نے سننے دیا کچھ نہیں سننے دیا، میں نے کہا ڈاکٹر صاب اسے کھانسی ہے، بخار ہے اور سینے میں درد بھی ہوتا ہے. ڈاکٹر صاب کی بچی بہت شور مچا رہی تھی. انہوں نے پوچھا بخار کب سے ہے؟ اور مجھے تھوڑا سا ڈانٹ بھی دیا ،مجھے کہتے تم لوگ بچوں کا خیال نہیں رکھتے ، سردی میں چھوڑ دیا ہوگا . پھر انہوں نے منہ میں جلدی سے بخار دیکھنے والا آلہ سا ڈالا. تھوڑی دیر کے بعد اسے دیکھا ، جلدی جلدی پرچی پر دوائی لکھی اور کہا صبح دوپہر شام دے دینا. کوئی باہر سے انکی بچی کی چاکلیٹ لے کر آگیا ، اور ڈاکٹر صاب اسے پیٹک کھول کر دینے لگ گئے . میں اٹھ کر آگیا.”
چوکیدار نے دوسرا سگریٹ سلگھایا، اور ڈبیا میری طرف بڑھا دی، میں نے بھی ایک سگریٹ نکال کر سلگھا لیا اور بولا “اچھا پھر؟”
“پھر کیا صاب جی… دوائی لی، اگلے دن رات کو اسکی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، ہسپتال لے کر بھاگے نہ کوئی رشکہ ، نہ کوئی سیکل… بچہ اوکھے اوکھے سانس لے رہا تھا، دو گڈی والوں کو ہاتھ دیا وہ بھی نہیں رکے. بس پھر اسی رات وہ مر گیا.” چوکیدار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور سگریٹ کا کش لگایا.
میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا “ڈاکٹر آفتاب کے گھر کا پتا تھا تو گھر لے جاتے،یا تمہارا گھر اس کے گھر سے دور تھا؟”
“اوہ نہ صاب جی کہاں دور ہے، ٹان کے پارلی طرف میرا گھر ہے، میں لے کر آیا تھا، ڈاکٹر صاب کی بیوی نے کہا تھا گھر کوئی نہیں ہے. پتا نہیں اللہ ہی جانے، گڈی تو انکی اندر کھڑی تھی”
میں اور چوکیدار کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر میں اٹھ کھڑا ہوا
“جاتے ہیں صاب جی؟” چوکیدار بولا
“ہاں، بس چلوں… سگریٹ کے لئے شکریہ”
“اوہ نہیں جی، کوئی بڑی بات نہیں. اور لے جایئں آگے رات ہے کہیں سے ملے گی نہیں”
“نہیں بس چلتا ہوں، شکریہ” میں ہاتھ ملا کر اپنے گھر کی طرف آگیا.
اگلے روز میں کچھ جلدی آفس سے لوٹ کر گھر آ رہا تھا ، مین اینٹرس پر میرے سے پہلے ایک گاڑی داخل ہو رہی تھی جس پر ڈاکٹر والا مونو گرام لگا ہوا تھا اور چوکیدار بہت ہی خوش اخلاقی سے، دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھ کر اور سر جھکا کر اونچی آواز میں اندر بیٹھے شخص کو کہہ رہا تھا “سلام لیکم صاب جی…”
~ قربِ عباس