خصوصی تحریر : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک
کل نو جولائی کو مسلمانوں کے مقدس ماہ ’’ رمضان‘‘ کا آغاز ہورہا ہے اور آج آٹھ جولائی کو انہیں ڈنمارک میں پیسنے کے لیے سیاسی چکّی میں ڈال دیا گیا ہے ۔ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ ہر سال رمضان کے مہینے میں مسلمانوں مخالف قوتیں سر اٹھاتی چلی آ رہی ہیں لیکن ، اس بار تو انتہا ہو گئی ہے اور، بڑی بےشرمی سے مسلمانوں کو ڈینش اقدار کا منحرف ہونے اور اُن کا احترام نہ کرنے کا الزام دیتے ہوئے اُن سے کھل کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ ڈینش اقدار کو نشانہ بنانا نہیں چھوڑتے تو پھر وہ ڈنمارک چھوڑ جائیں اور اپنی اقدار و روایات کو ساتھ لے جائیں ۔
مسلمانوں کو الزامات دینے اور اُن سے ڈنمارک چھوڑ جانے کا مطالبہ کرنے والی کوئی معمولی شخصیت نہیں ۔ وہ سابق حکمران، وینسٹرا پارٹی کے سیاسی و انٹگریشن کے امور کی ترجمان اور پارلیمانی رکن، انگر سٹؤبرگ ہیں ۔
ملک کے بڑے معتبر اخبار ’’ پولیٹیکن ‘‘ نے آج پیر، آٹھ جولائی کی اپنی اشاعت میں انگر سٹؤبرگ کا ایک ’’ کرونیکل ‘‘ شائع کیا ہے جس میں موصوفہ نے بڑی دیدہ دلیری سے انتہائی نفرت آمیز لہجے میں یہاں ڈنمارک میں رہنے والے مسلمانوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے دوسروں باتوں کے علاوہ لکھا ہے کہ ان کی اکثریت اور ان کے بیشتر دینی رہنما ڈینش اقدار کو ہرگز پسند نہیں کرتےاور دوسرے مسلمان ملکوں میں رونما ہونے والے، سنگساری، ہم جنس پرستوں کے خلاف اقدامات اور انہیں معاشرے میں مجرم قرار دینے جیسے اسلامی قوانین و ضوابط کی بھی کھل کر مذمت نہیں کرتے۔
انگر سٹؤبرگ نے یہاں ڈنمارک میں ’’ اسلامی دینی برادری ‘‘ نامی تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی ایک حالیہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے مقالے میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اسلامی دینی رہنما، مخلتف امور پر دین اسلام کے حوالے سے اُن کی تسلی نہیں کر سکے اور وہ سمجھتی ہیں کہ لڑکیوں کی جبری شادیوں ، عورتوں کے لیے سنگساری اور انسانی حقوق کی پامالیوں بارے کوئی ٹھوس مدلل جواب نہیں رکھتے اور وہی قرون وسطیٰ کا ڈھول پیٹ کر کانوں کو پھاڑنے پر آمادہ رہتے ہیں ۔ اسلامی دینی برادری کے رہنماؤں کے ساتھ اپنی مذکورہ ملاقات کو حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ ’’ میں بھیڑوں کا لباس پہنے ہوئے بھیڑیوں کے ایک گروپ سے ملی تھی‘‘ ۔
وینسٹرا پارٹی کی سیاسی و انٹگریشن کے امور کی ترجمان انگر سٹؤبرگ نے مسلمانوں کے بارے میں جو جو کچھ اپنے ’’ مقالے ‘‘ میں لکھا ہے ہم اسے دانستہ یہاں تحریر کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں ، لیکن ہم خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ موصوفہ نے ڈنمارک میں مسلمانوں مخالف نفرت و حقارت اور تعصب و منافرت کی فضا کو مزید غبار آلود کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی ۔ اور مزید یہ کہ اب تارکین وطن اور خاص کر مسلمانوں مخالف انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور قومیت پرست سیاسی دھڑوں اور گروہوں کے ہاتھ ایک ایسا سیاسی ہتھیار آ گیا ہے جس کا سہارا لے کر وہ مسلمانوں کو مزید ذہنی و روحانی اور سماجی گزند پہنچانے اور انہیں معاشرے میں نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔
ڈنمارک جسے اپنی اقدار پر فخر ہے ( اور یہ ہونا بھی چاہیئے) اور جنہیں وہ زبردستی دوسروں پر تھونپنا بھی چاہتا ہے وہاں یہ امید رکھنا مشکل ہے کہ وینسٹرا پارٹی کی سیاسی ترجمان اور ان جیسے دوسرے سیاستدان، مسلمانوں مخالف اپنی یاوہ گوئی سے باز آئیں گے البتہ اب یہ ضرور ہو گا کہ انگر سٹؤبرگ کے ’’ مقالے ‘‘ کو بنیاد بنا کر پہلے ہی سے مسلمانوں کے خلاف متحرک ڈینش پیپلز پارٹی اور اس کے حمایتی قومیت پرست گروہ مسلمانوں کے خلاف الفاظی جنگ شروع کردیں ۔ اور ہوا دینے کے لیے، یہ بھی ممکن ہے کہ ڈنمارک ریڈیو، ڈی آر ٹو کے پروگرام ڈیڈ لائن وغیرہ کے ساتھ انٹرنیٹ اور دیگر سوشل میڈیا میں، ڈنمارک میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف بالخصوص اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف بالعموم بحث مباحثوں کے منہ کھول دیئے جائیں اور پھر کہیں ڈینش اقدار کے نام پر اور کہیں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کو لغویات سنانی شروع کردی جائیں ۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی پارٹیاں بھی اس راگنی میں شامل ہو جائیں ۔ ایس ایف کے متعلق ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا ’’ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ‘‘ ۔
ممکن ہے کہ وینسٹرا پارٹی کے سیاسی و انٹگریشن کے امور کی ترجمان انگر سٹؤبرگ کی مسلمانوں اور ان کے دین و مذہب پر تنقید اور اُن کی جانب سے ڈینش اقدار پر تنقید کرنے والوں سے ڈنمارک کو چھوڑ جانے کا مطالبہ ، کئی ایک حلقوں میں کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا ہو اور اسے ڈینش پیپلز پارٹی کی سیاست کی بازگشت ہی سمجھا جائے لیکن ہماری نظر میں یہ ’’ معمولی بات نہیں کہ وینسٹرا پارٹی کی سیاسی ترجمان، اسلامی دینی برادری نامی تنظیم کے ذمہ دار عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے بعد اس طرح کی ’’بکواس‘‘ کریں جو انہوں نے روزنامہ پولیٹیکن میں شائع ہوئے اپنے مقالے میں کی ہے ‘‘۔ اور نہ ہی انہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ڈینش اقدار کا سہارا لے کر اسلامی دینی برادری کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات کو ’’ بھیڑوں کے لباس میں بھیڑیوں کے گروپ سے ملاقات‘‘ کہہ کر مسلمان رہنماؤں کے دینی و سماجی تشخص و حیثیت کا مذاق اڑائیں۔
ہماری نظر میں اس موقع پر جب وینسٹرا پارٹی چاروں طرف سے سیاسی پستی کا شکار ہے اور بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں، انگر سٹؤ برگ کا مقالہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وینسٹرا پارٹی اپنا آپ ظاہر کرنے اور سماج کے ایک کمزور طبقے کو ڈینش اقدار کے تحفظ کے بھینٹ چڑھا کر ڈینش پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت کے مقابلے میں خود اوپر ابھرنے کی کوشش میں ہر مکروہ دھندہ اپنا سکتی ہے اور یہ مذکورہ مقالہ اسی تحریک کا ایک حصہ ہے ۔
اگلے پارلیمانی انتخابات میں وینسٹرا پارٹی ایوان اقتدار تک پہنچے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن آثار دکھائی دیتے ہیں کہ اگر یہ پارٹی اقتدار کی گدی پر براجمان ہو گئی تو پھر ڈینش سماج میں ایسی تبدیلیوں سے ہرگز نہیں بچا جا سکے گا جو نہ صرف خود ڈینشوں بلکہ غیر ملکیوں اور خاص کر مسلمانوں کے لیے زندگی مشکل بنا دیں گی ۔ ان تبدیلیوں کی ابتدا کے لیے وینسٹرا نے اب نچلی سطح یعنی بلدیاتی سطح پر کام شروع کردیا ہے اور پارٹی کے سیاسی و انٹگریشن کے امور کی ترجمان انگر سٹؤبرگ نے اس سلسلے میں نشانہ باندھ کر پہلا تیر پھینک بھی دیا ہے ۔
وینسٹرا کی سیاسی پالیسیوں نے جس طرح اس کے دور حکومت میں سماج، صنعتوں اور ڈینش رفاعی نظام کو تہس نہس کر دیا تھا اس سے کون واقف نہیں۔ مستقبل میں اپنے نظام اقتدار کے حوالے سے بھی وینسٹرا کی سیاسی پالیسیاں اُس کی پچھلی پالیسیوں ہی کی بازگشت سنائی دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وینسٹرا ان پالیسیوں سے رائے دھندگان کی توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں مخالف ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے ۔
ہم رائے دھندگان اور خاص کر پاکستانیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے حلقے کے بلدیاتی امیدواروں سے انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں کریں اور انہیں آنے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے باور کرائیں کہ ’’ وینسٹرا پارٹی کے رہمناؤں کے اس طرح کے بیانات کو مسلمان کبھی قبول نہیں کر سکتے اور ان بیانات کی کھل کر مذمت کی جانی چاہیئے ‘‘۔
ہماری نظر میں یہ بھی لازم ہے کہ مسلمانان ڈنمارک رمضان کے مہینے میں خود کو صرف ’’ افطار پارٹیوں ‘‘ تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان پارٹیوں میں مقامی سیاستدانوں ، اصحاب الرائے ، میڈیا اور سکولوں کے اساتذہ بدیگر الفاظ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے با اثر افراد کو مدعو کریں اور انہیں اپنے احساسات و خیالات سے آگاہ کریں ۔ اور ان پر زور دیں کہ ڈنمارک کو ایک خوشحال اور رفاعی مملکت بنانے کے لیے ’’ نئے ڈینشوں بشمول مسلمانوں ‘‘ کو ساتھ ملایا جائے اور ان پر الزام تراشیوں اور ان کے دین و مذہب کا مذاق اڑانا بند کیا جائے ۔
( تحریر : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک )