افسانہ
افطار پارٹی
از:رُخسانہ نازنین ، مکان نمبر4-2-22، نورخان تعلیم ، بیدر(کرناٹک ) Mob:09886325770
ماہ صیام اپنی تمام تر رحمتیں ، برکتیں ، فضیلتیں اپنے دامن میں سمیٹے جلوہ افروز ہوچکاتھا۔ شب وروز بڑے پرنور ہوگئے تھے۔ مساجد اپنی تنگ دامنی کا شکویٰ کررہی تھیں ۔ پاکیزہ ماحول، عبادت، ذکرواذکار میں مصروف روزے داروں کے نور کے ہالے میں جگمگاتے چہرے ، روحانی سکون سے سرشار۔ کہیں سماعت قرآن ک ااہتمام تھا تو کہیں خواتین کی تراویح کا نظم ، تلاوت قرآن پاک کی محفلیں سجائی جارہی تھیں ۔ سحرو افطار کی فکر میں خواتین کی اپنی ہی مصروفیات تھیں ۔ افطار پارٹیوں کے دور چل رہے تھے۔ تقریباًہرروز کہیں نہ کہیں افطار پارٹی کا مساجد میں اعلان کردیاجاتایاپھر خصوصی دعوت نامے تقسیم کئے جاتے۔ شہر کے متمول اشخاص ، سیاسی و سماجی شخصیتیں بنا تقریق مذہب مختلف فنکشن ہالس ، مدارس ، مساجد یا وسیع میدانوں یاپھر گھروں میں ہزار ہا روزہ داروں کے افطار و طعام کا اہتما م کرتی ہیں ۔ اور اس قدر اعلیٰ پیمانے پر کرتی ہیں کہ سال بھر لوگ انہیں یاد کرتے رہتے ہیں ۔ ہر شخص کا انداز جداگانہ ہوتاہے۔منفرد وممتاز ایک دوسرے پر سبقت لئے جانے کی دھن ان پر کچھ ایسے سوار رہتی ہے کہ اپنے سارے انتظامات انہیں پھیکے پھیکے سے لگتے ہیں ۔ وہ مطمئن ہی نہیں ہوتے۔
انور خان صاحب کی افطار پارٹی کا بہت چرچا ہواکرتاہے ۔ انور خان صاحب شہر کے دولت مند اشخاص میں شمار کئے جاتے ہیں۔ یوں تو انکا ٹرانسپورٹ کا بزنس ہے لیکن اس کی آڑ میں وہ افیون گانجہ بھی امپورٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔ اُڑی اُڑی سی خبر یہ بھی ہے کہ موصوف کابڑے پیمانے پر سودی کاروبار بھی ہے۔ اور خفیہ طورپر شراب کی فیکٹریوں میں بھی حصہ داری ہے۔ سیاست میں بھی عمل دخل ہے۔ زمینات کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے۔ فطرتاًبڑے خوش مزاج ہیں ۔ مہمان نوازی میں تو انکا کوئی ثانی نہیں ۔ سخی دل کے مالک ہیں اسلئے حلقہ احباب کافی وسیع ہے ۔ سبھی طبقات کے لوگوں سے روابطہ ہیں ۔ دوست احباب پر تو نظرعنایت رہتی ہی ہے کاروباری وسیاسی حریفوں کو بھی اپنے حسن اخلاق سے زیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ ان کی افطار پارٹی میں شریک ہونے کے خواہشمندوں کی فہرست کافی طویل ہوتی ہے۔
اس سال بھی افطار پارٹی کا ان کی افطار پارٹی کا اعلان ہوچکاتھا۔ دعوت نامے تقسیم کئے جاچکے تھے۔ دعوتِ عام تو تھی ہی لیکن دعوتِ خاص کا بھی علیحدہ انتظام تھا۔ ایک ہفتہ قبل ہی تیاریوں کا آغاز ہوچکاتھا۔ ہزاروں افراد کے لیے افطار وطعام کا بندوبست کرنا کوئی کھیل نہیں تھا ۔ شہر کا سب سے وسیع وعریض ہال بک کیاجاچکاتھا۔ دوسرے شہروں سے ماہر باورچیوں کی خدمات حاصل کی جارہی تھیں ۔ پھلوں کے ٹوکرے اور کھجوروں کے تھیلے منگوائے گئے تھے۔ شہرکے سبھی مٹن وچکن فروشوں کو آرڈ ر دے دیاگیاتھا۔ عمدہ کوالٹی کے چاول کے تھیلوں کے انبار لگادئے گئے تھے۔ تیل ، گھی ، اور مصالحوں کااسٹاک کرلیاگیاتھا۔ افطار کے لئے کئی اقسام کی نمکین اشیاء بنائی جارہی تھیں ۔ بالخصوص ابلی ہوئی دال اور دہی بڑے ۔
رمضان المبارک کے تیسرے عشرہ میں بروز جمعہ یہ یادگار افطار پارٹی منعقد کی گئی۔ بعدنماز عصر اجتماع ہوا، شہر کے علماء و حفاظ و مشائخین کے خطابات ہوئے۔ رمضان المبارک کی فضیلتیں بیان کی گئیں ۔ سیاسی شخصیتوں کے علاوہ شہر کے تمام سرکاری افسران بھی مدعو تھے۔ اُمرا کی محفل علیحدہ سجائی گئی تھیء اور غرباء کی قطاریں الگ سے تھیں ۔ وقت ہونے پر روزہ کھولنے کی دعا پڑھائی گئی۔ اور سارے روزہ دار افطار کرنے لگے۔ انواع واقسام کے میوے ، کھجور اور نمکین کے خوان سجائے گئے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد میں ساری اشیاء تھیں کہ ان ہی سے سب شکم سیر ہوگئے۔
مغرب کی نماز وہیں جماعت بناکر اداکی گئی۔ اورپھر کھانے کے لیے پلیٹیں لگائی گئیں ۔ بیک وقت ہزاروں افراد کو سارے لوازمات پہنچانے کے لئے مستعد بیرے خوش اسلوبی سے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔ ہر ڈش اتنی لذیذ کہ جس کی لذت زبان سے مٹائے نہ مٹے۔ سبھی لوگوں نے سیر ہونے سے زائد کھایا۔ اور انورخان صاحب کی کامیاب پارٹی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔سارے شہر میں ، ہر گھر میں اس افطار پارٹی کی دھوم مچی ہوئی تھی ۔ میری سہیلی کو شاید یہ سب پسند نہیں تھا۔ اس نے میرے خوش ہونے اور انور خان صاحب کے سخی ہونے پریہ شعر پڑھ کر پانی پھیر دیا
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
***
—
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پائوں سے آگے نکل گئیں صدیاں
فریاد آزرؔ