ایک کہانی
عابدہ رحمانی
سرخ بتی پر گاڑی رکی تو بنی سنوری انتہائی شوخ میک اپ کئے ہوئے زرق برق لباس
میں ملبوس ایک خاتون پرس سنبھالتی ہوئی تیزی سے گاڑی کی طرف لپکتی جھپکتی ہوئی
آئی -اسکی چال ڈھال سے مجھے پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی ایک ادا سے اسنے
کہا -” باجی اللہ کے نام پر کچھ دیدو”
اچھی بھلی ہو محنت مزدوری کر سکتی ہو یہ مانگنے کا کیا شوق ہے ” میں نے اسے
سمجھانے کی کوشش کی – باجی کام کون دیتا ہے ؟ ناچتے گاتے تھے اس پر بھی پابندی
لگ گئی-وہ مجھ سے مایوس ہو کر اگلی گاڑی کی طرف لپکی اتنے میں بتی سبز ہو چکی
تھی – آج کل یہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ہر طرف نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ؟
میری ساتھی بھی میری طرح متفکر تھی-” واقعی انکی تعداد میں انتہائی حیرت انگیز
اضافہ ہے اور تمام معاشرے اور باآثر و مقتدر افراد نے انکی طرف سے بلکل بے
اعتنائی اختیار کر رکھی ہے – اور یہ تمام دینی اور مذہبی جماعتیں ان کا نام
بھی نہیں لیتیں – پھر یہ سارے این جی اوز جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑائے پھرتے
ہیں کیا انہیں یہ معاشرے کا دھتکارا ہوا طبقہ نظر نہیں آتا – اور یہ اصلاح
معاشرہ کے علم بردار ؟ میں نے ایک تقریر کر ڈالی ر
بچپن سے یہی سنتے اور دیکھتے آئے تھے ہیجڑا،زنخا، کھسرایا مخنث آیا، بچے کی پیدایش
ہو ، شادی بیاہ یا خوشی کا کوئی اور موقع انکو بھنک لگ جائے اور تالیاں پیٹتے
ہوئے ، مبارکبادییاں دیتے ہوئے آن حاضر ہوتے ناچتے گاتے اپنا حصہ سمیٹ کر جاتے
– لیکن اتنی بڑی تعداد کیا یہ واقعی اسی صنف سے تعلق رکھتے ہیں؟ پھر یہ کپڑے ،
بناؤ سنگھار میرے ذہن میں ہزاروں سوالات کھلبلا رہے تھے-
اگلے روز پھر اسی چوک پر میں نے اسی اپنی گاڑی کی جانب آتے دیکھا ، اشارے سے
اسے اپنی طرف بلایا اور ڈرایئور سے کہا کہ وہ ایک طرف کو گاڑی روک دے –
وہ بڑی ادا سے مٹکتی ہوئی آئی – ” جی باجی جی ” تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے
پوچھا ” جی باجی جی ہمارے ناموں کا کیا ہے ویسے مجھے چنبیلی کہتے ہیں – ” میں
نے پچاس کا نوٹ اسکے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا – جنبیلی میں تم سے بیٹھ کر کچھ
باتیں کرنا چاہتی ہوں – مجھے ٹائم دو” اوئے باجی میرا انٹروو پسیے کتنے ملینگے ؟
پانچ سو اور یہ صرف ایک بات چیت ہے – انٹرویو نہیں ہے” ایک ہی بات ہے باجی
جی اپنا نمبر دے دو اماں سے پوچھ کر بتاؤنگی اور پیسے ایک ہزار سے کم نہیں
لونگی – ٹی وی والوں سے تو ہم دس دس ہزار لیتے ہیں ” اسنے اپنے پرس سے موبائیل
نکالا ، مجھ سے بہتر فون تھا اسکے پاس ،ہم نےایک دوسرے کے نمبر لے لئے – “ہائے
باجی میں واری صدقے جاؤں” اسنے ایک ادا سے میری بلائیں لیں
دو چار دن کی خاموشی کے بعد اسکا فون آیا – ” باجی کل بارہ بجے اسی چوک پر
آپکا انتظار کرونگی” کل تو چنبیلی بارہ بجے میں کافی مصروف ہوں – پانچ کے بعد
کا ٹائم دے دو ”
اچھا ٹھیک ہے باجی جی آپ میرے دل کو بھا گئی ہو ورنہ چنبیلی کا دل کسی پر نہیں
ریجھتا” بہت شکریہ” ٹھیک پانچ بجے میں وہاں پہنچی تو وہ منتظر تھی آج وہ کچھ
زیادہ ہی بنی ٹھنی تھی
اسے لیکر میں اپنے پسندیدہ کافی، جوس ہاؤس لے گئی – کیا کھاؤگی اور پیوگی ؟
باجی جوس یا لسی پلادو گرمی بہت ہے ” میں نے آم کی لسی اور چند کھانے کی چیزوں
کا آرڈر دیا-“باجی سموسے قیمے والے منگانا آلو والے تو کھاتے رہتے ہیں ” اس سے
تیز خوشبو کی لپٹیں آرہی تھیں – مردانہ چہرے پر میک اپ کی انتہاتھی -مین اسے لیکر ایک کونے میں بیٹھی یہ خیال رکھتے ہوئے کہ اسکی پیٹھ دروازے کی طرف ہو-” یہ کافی آرام دہ ریسٹورنٹ ہے آج گرمی بہت زیادہ ہے اسکا اے سی اچھا ہے ، ذرا سکون سے بیٹھیںگے ، میں نے بات کا آغاز کیا یہ بتاؤ چنبیلی تم رہتی کہاں ہو ؟
باجی وہ گولڑے کے پیچھے کی طرف جو سڑک جاتی ہے ادھر اپنا محلہ ہے – پھر اسنے
مجھے بتایا کہ تقریبا 20 کوارٹر ہیں جنمیں انکی برادری کی رہایش ہے – ایک
کوارٹر میں تقریبا دس افراد رہتے ہیں- باجی ہمارا کیا ہے جن سے پیدا ہوئے تھے
انہوں نے جان چھڑائی گلا تو نہیں گھونٹا اماں کی جولی میں ڈالدیا – اماں بتاتی
ہیں میںایک ماہ کی تھی جب میرا باپ دے گیا – بہت بڑا زمیندار ہے چار بیٹیوں پر
میں پیدا ہوئی ” ہوئی کہ ہوا؟” باجی اسکو تو بیٹے کا ارمان تھا – بڑی خوشیاں
منائیں کہ بیٹا ہوا ہے پھر ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن کرنا ہوگا کچھ گڑ بڑ ہے –
آپریشن بھی ہوا لیکن میں پورا لڑکا نہ بن سکی -کسی نے اماں کو خبر کردی اور
اماں کی جولی میں مجھے ڈالدیا گیا کچھ خرچے کے پیسے بھی دئے -جب شناختی کارڈ میں
باپ کا خانہ بھر رہی تھی تو اماں نے نام پتہ بتایا – اماں کے پاس سارے کاغذ
ہیں -بتاتے بتاتے اسکے آنسو بہنا شروع ہوئے جو اسکے میک اپ زدہ چہرے پر ندیاں
بہانے لگے – ماحول سوگوار ہوگیا- میں نے ٹشو پیپر کا ڈبہ بڑہایا- باجی میں اسکے پوتے کی مبارکی کے لئے گئی تھی – میرے سگے بھائی کا بیٹا، کیا ٹھاٹ بھاٹ تھے اماں نے قسم لی تھی
کہ کچھ اور نہیں بولنا – میں اپنی اس سنگدل ماں کو دیکھنا چاہ رہی تھی -نوکر
بولا کہ وہ تو بہت سال پہلے مر چکی ہے- اور جائداد میں تمہارا حصہ ؟ وہ تو
اماں کو پیسے دیتے وقت اسٹامپ پیپر پر دستخط کروالئے تھے–ہم سب ایسے ہی ہیں
باجی ظاہر ہے کسی نے ہمیں جنا ہے کوئی ہمارا مائی باپ ہے ہم کوئی زمین سے تھوڑے ہی اگے ہیں لیکن انہوں نے ہمیں اولاد نہیں سمجھا کیا ایسے ماپ باپ بھی ہوتے ہیں کتنوں کی اولادیں ذہنی ،
دماغی ، جسمانی معذور ہوتی ہیں کیا وہ ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں؟ “اور یہ اتنے اپاہج فقیر ؟ باجی ہاں بہت گڑبڑ ہے ، گڑبڑ گٹالا ہے یہ دنیا-
تم مرد کیوں نہیں بننا چاہتی تھیں چنبیلی تم صحتمند ہو ، لمبی چوڑی ہو ہاتھ پاؤں سے ٹھیک ہو – مرد بن کر تم دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتی تھی کوئی اچھا پیشہ سیکھ لیتی ، کوئی ہنر ، کوئی کاریگری–؟
بس باجی جی ہمارا ماحول ہی کچھ ایسا ہے ہمار ی ساری تیاری عورت بننے کی ہوتی ہے ہم دنیا کا میک اپ ، جوتے ، کپڑے ، پرس ، زنانی چیزیں جمع کرتے ہیں صبح اٹھتے ہی مصنوعی چیزیں لگا لگا کر ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں ، جلاتے ہیں اور پھر دھندے پر نکل جاتی ہیں– ان سب چیزوں کے پیسے کہاں سے آتے ہیں ؟ باجی بہت دھندہ چلتا ہے کچھ باجیاں اپنا پرانا مال ہمارے محلے میں بیچتی ہیں -زیادہ پرانی چیزیں ہوتی ہیں –بیوٹی پارلروں سے پرانا سامان خریدتے ہیں یہ میں نے وگ پہنی ہوئی ہے اسنے اپنی لہراتی ہوئی لٹٰیں دکھائیں- جب ہم شام کو گھر جاتے ہیں تو سب کچھ اتار کر مرد بن جاتے ہیں – پھر اماں مجھے” فیکا” کہتی ہے جی رفیق نام تھا نا -” ان دو جنسوں کے درمیان زندگی کچھ عجیب نہیں لگتی ” ؟ باجی ہمیں اللہ نے پیدا بھی تو اسی طرح کیا ہے-” کوئی تعلیم وغیرہ” ہاں جی ایک مولوی ہمیں پڑھانے کو آتا تھا – بھلا آدمی تھا ، پیسے بھی نہیں لیتا تھا ساتھ میں نماز ،روزہ، دینی باتیں اور اردو بھی سکھاتا تھا –یہ بدمعاش آئے تو اسے بھگا دیا-“-بدمعاش کون؟ ” باجی یہ سب اپنی برادری کے تھوڑے ہیں ، کچھ تو بھلے چنگے ہیں ، کچھ جاسوس ہیں لیکن میں یہ سب آپکو کیوں بتا رہی ہوں ؟ں جب شناختی کارڈ بن رہے تھے تو نادراکے ریکارڈ میں مرد ہجڑے کو خواجہ سرا اور خاتون کو زنخا لکھا گیا کارڈ پر جنس مخنث لکھی گئی ہے – اسنے اپنا کارڈ مجھے دکھایا تصویر سجی سنوری چنبیلی کی تھی جبکہ نام رفیق کا تھا، عمر 38 سال” باجی میرے پاس یہی تصویر تھی ڈاکٹری معائنہ کرکے ساٹیفیکیٹ بھی لیا تھا ” – “چنبیلی تم خواجہ سرا ہو ؟ جی باجی جی، کچھ علاج وغیرہ کرنیکی کوشش کی ؟ کچھ ڈاکٹر آئے تھے کہ تمہارا علاج کرتے ہیں – اماں کو پتہ چلا کہ یہ تجربے کرینگے جیسے جانوروں پر کرتے ہیں انہوں نے سختی سے منع کردیا مار کر بھگا دیا –یہ اماں کون ہیں؟ وہ بھی ہماری طرح ہیں لیکن وہ عورت ہی رہتی ہیں انہوں نے بڑی محنت اور پیار سے ہمیں پالا ہے اور ہم ہر کام انسے پوچھ کر کرتے ہیں اللہ نے انکے دل میں پیار ہی پیاردیاہے-ہم دس تو انکی اولاد ہیں وہ دوسروں کی بھی اماں ہین وہ ہمارا گرو ہیں ہماری پیر ہیں– باجی ہماری برادری میں اچھے برے دونوں ہیں -ایسی ایسی برایئاں ہیں کہ میں آپکو بتا نہیں سکتی -لیکن چنبیلی پاک ہے باجی اللہ کو منہ دکھانا ہے اماں جنتی کہتی ہیں، میری بیٹی سیدھی جنت میں جائیگی- بس دوسری زندگی میں وہ مجھے صحیح سالم اٹھادے اسکے آنسو پھر ٹپکنے لگے باجی ہم بھی تو انسان ہیں ہمارا بھی دل ہے خواہشات ہیں اللہ نے ہم کو ایسا کیوں پیدا کیا-؟
نرگس ، رخشی اور کتنوں کو تو وہ موذی بیماری ہوگئی ہے اڈز ( ایڈذ) ایڑیاں رگڑ رہی ہیں،سرکاری ہسپتال میں ہیں انکی حالت دیکھ کر کتنا دکھ ہوتا ہے باجی جی بڑا گند ہے آپکو کیا بتاؤں ے-
اور ہم کو سپریم کورٹ نے کام لگا دیا تھا – اللہ بھلا کرے انہوں نے کچھ عزت دی ورنہ ہمارا تو کوئی نام نہیں تھا کوئی پہچان نہیں تھی – کچھ لوگ زکوٰۃ خیرات دے دیتے ہیں
میں تو کہتی ہوں یہ بھیک مانگنا چھوڑ دو کوئی محنت کا کام کرو ہزاروں کام ہیں حلال کمائی کے” ہزاروں طریقے ہیں تمہیں خود بھی اچھا لگے گا ” باجی میرا جی چاہتا ہے دل کھول کر آپکے سامنے رکھدوں” اگر تم کہو تو میں تمہاری مدد کروں ؟ وہ بے یقینی سے مجھے دیکھنے لگی ” باجی مینو ڈریوری دا وڈا شوق سی ” ہونہہ” میں اسکا جائزہ لیتے ہوئے کہا ایک اچھا بھلا صحت انسان پورے عقل و شعور کے ساتھ میرے سامنے تھا-
باجی میرا جی چاہتا ہے آپکے گلے لگ جاؤں –ہاں ہاں کیوں نہیں نہ جانے میرے منہ سے کیسے نکلا
میں نے گھڑی دیکھی وقت کا پتہ ہی نہیں چلا -چنبیلی مجھے گھر پہنچنا ہے میرے گھر والے پریشان ہونگے میں نے فون تو کردیا ہے – پھر بھی شام ہوگئی – چلو میں تمہیں تمہارے ٹھکانے پر چھوڑ دوں
مجھے فون ضرور کرنا میں تم سے رابطہ رکھنا چاہتی ہوں-” باجی جی میں چلی جاؤنگی آپکے ساتھ یہ گزارا ہوا وقت مجھے ہمیشہ یاد رہے گا” میں نے دوہزار کے نوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھائے اور اسنے لینے سے انکار کر دیا – باجی ایک ہزار کی بات ہوئی تھی اور وہ بھی میں نہیں لونگی – یہ جو آپنے میرا اتنا خیال کیا اسکا کوئی مول نہیں بس آپ مجھے گلے ضرور لگانا اور میرے جی نے کہا اے میرے مولا یہ تیرے بے بس بندے اور انکی چھوٹی چھوٹی خواہشات- اور چنبیلی ، فیکا روتے ہوئے میرے گلے لگ گئی -باجی مجھے بھولنا نہیں ،
گاڑی نے بریک مارے اسکے ساتھ ہی ایک جھٹکے سےمیرے خیالات کا تانتا ٹوٹا ِ” رفیق کیا ہوا ؟ باجی کافی بڑا گڑھا ہے – آس پاس سے کافی سارےہجڑے اور فقیر گاڑی کی طرف لپکے–رفیق وہ انجمن کے کارڈ انکو پکڑا دینا، انسے کہنا دفتر آکر ملیں اور معذوروں کو دس دس روپے دے دینا ” جی باجی جی جو آپکا حکم” میرے نئے ڈرائیورنے مستعدی دکھائی– رفیق تم نے شناختی کارڈ میں اپنی تصویر بدل دی ؟ جی باجی جی” اسنے مجھے اپنا کارڈ بڑہایا ایک صاف ستھرا نوجوان مسکرا رہاتھا