ابن صفی آج بھی زندہ ہیں
عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
09911657591
85ڈیگ گیٹ گلپاڑہ،بھرت پور (راجستھان)
ظاہر ی موت اور زندگی سے ہٹ کر بھی ایک اور حقیقت ہے۔وہ ہے کسی انسان کا مر کر بھی اس طرح زندہ رہنا کہ لوگ اسے زندوں کی طرح یاد رکھیں اوراس کانام اس طرح لیں جیسے زندوں کانام لیاجاتا ہے ۔ہمارے ابن صفی (آمد 28اپریل1928۔رخصت26جولائی1980)کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔انھیں ہم سے جدا ہو ئے 33سال کا طویل عرصہ ہورہا ہے لیکن وہ ایسی حیرت انگیز شخصیت تھیں کہ آج تک ان کے قارئین انھیں بھلا نہ سکے ہیں۔انھیں جب ابن صفی کی یاد ستاتی ہے تو زمانۂ قدیم کی ”جاسوسی دنیا ”سیریز یا موجودہ وقت کی”جاسوسی ادب”سیریز ‘اسی طرح ابن صفی کی کوئی بھی تحریر اٹھالیتے ہیں ۔
ابن صفی کسی شخصیت کانام نہیں تھا بلکہ ایک عہد کا نام ہے جس نے تین نسلوں کو اپنے ناولوں سے فیض یاب کیا۔ان کے کرداروں نے ایسا سحر طاری کیا کہ قاری خود میں ان کے اثرات محسوس کر تا ہے ‘انھیں اپنا آئیڈیل اور رہنما مانتاہے ۔ان کے طرز پر اسے جرایم سے نفرت اور قانون سے محبت ہوتی ہے۔وہ جرایم پر قانون کی بالادستیچاہتا ہے اور سماج و معاشرے سے ایسے عناصر کی پاکی چاہتا ہے جو تخریب کار اورفسطائی ہوتے ہیں ‘دہشت گر داور موت کے سوداگر ہوتے ہیں ‘لاشوں کا باز٫ارسجاتے ہیں اورانسانی ہڈیوں پر اپنے محل تعمیر کر تے ہیں ۔عمران ‘فریدی ‘حمید ‘ فیاض ‘جولیا ‘انوثر ‘رشیدہ’یہ وہ کر دار ہیں جو حقیقت سے کم نہیں لگتے بلکہ کبھی کبھار توان کے عکس ہمیں ہمارے معاشرو ں میں نظر آتے ہیں۔
ابن صفی کے بارے میں نام نہاد ‘بد زبان و قلم نقاد کچھ بھی کہتے رہیں ‘حقیقت یہ ہے کہ جہاں ان کی سوچوں کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے ابن صفی کا مقام شروع ہوتا ہے ۔وہاں سے ابن صفی کی سوچ اور تخلیق کا آغاز ہوتا ہے ۔ابن صفی سرحدوں میں مقید مصنف نہیں ہے بلکہ بر صغیر ہندو پاک ‘برطانیہ ‘امریکہ’یورپ افریقہ ہر جگہ ان کا سکا چلتا ہے ۔ابن صفی کو وہ لوگ بھی پڑھتے ہیں جو نوعمرہیں اور ان کے سراہانے بھی ابن صفی ہوتے ہیں جو حیات مستعار کے چند سانس لے رہے ہیں ۔……بنگلہ کے شاہ کار ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ جب تک انھوں نے حافظ کے دیوان سے چند اشعارنہ پڑھ لیے ان کی موت نہیں ہوئی اگر وہ ابن صفی کے عہد میں ہوتے تو ابن صفی کے ناولوں کے بغیر بھی ان کی موت نہ ہوتی ۔
ابن صفی ایک مقصدی ادیب تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت سی باتوں اور سائنسی ایجادات کو اس وقت محسوس کر لیا تھا بلکہ اپنے ناولوں میں ان کاذکر کردیا تھا اس وقت پیدایش کے مر حلے میں بھی نہیں تھی ۔ایٹم بم ‘ہائڈروجن بم ‘نیز ماٹر راکٹس’ڈرون ‘جاسوس طیاروں ‘پرندوں ‘جانور وں روبورٹس اور کنٹرولرطوفانوںکا ادراک انھوں نے اس وقت کرلیا تھا جب دنیا کی بڑی طاقتیں ان کے خاکے ذہن میں بسائے ہو ئے تھیں ۔کسی مقصدی ادیب کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں ‘نقادوں کے ادیبوں نے اس طرح کے خیالات کا کہیںذکر نہیںکیا جو دنیا کو منڈلانے والی تباہی سے آگاہ کر یں ۔انھیں تو حسن و عشق ‘داستنوی محبتوںاور سطحی قسم کے ادب سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ہمارے ابن صفی ان سے بہت بلند او رمہذب ادیب تھے جنھوں نے ”جاسوسی ادب”جیسے مشکل ترین ادب کو جنسی ہوس سے پاک اور ذہنی مشکلات سے آسان کر کے دکھادیا۔
ایسے اعلا اور مقصدی ادیب بلکہ اردو ادب پر احسان عظیم کر نے والے ”شہنشاہ ادب”جناب اسرا راحمد اسرارناروی (ابن صفی)کی 33ویں بر سی میں تمام ابن صفی کے پرستاروں کی جانب سے انھیں خراج عقیدت پیش کر تا ہوں اوران کے لیے دعائے مغفرت کر تا ہوں ۔اللہ پاک انھیں اسی طرح ہمارے دلوں میں زندہ رکھے اور ا ن کے مخالفین کا منہ کالا رکھے۔
ایںدعا ازمن و جملہ جہاں آمین باد