ٹھنڈی موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔
افسانہ ۔ ۔ ۔
وقار احمد ملک
دینو کوچوان ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک بوڑھے بوڑھ کے درخت کے ساتھ تانگے کو باندھ کر چوک میں گھوم پھر کر سواریاں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صبح سے سواریوں کے انتظار کرتے کرتے سہ پہر ہو چکی ہے۔ شاید شدید گرمی نے لوگوں کو سفر کرنے اور گھر سے نکلنے سے روک رکھا ہے۔ چوک خلافِ معمول ویران ہے۔ سامنے شربت اور لسی کی دوکان میں دو تین افراد کوئی گھنٹہ بھر سے باہر کی لو سے بچنے کے لیئے پنکھے کے نیچے بیٹھے ہیں۔ دوکاندار اس انتظار میں ہے کہ وہ کب باہر نکلیں اور وہ پنکھا بند کرکے بجلی کی بچت کر سکے۔ دینو کی نگاہیں بھی ان لوگوں پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید ان کو بس اڈے یا شہر کے کسی علاقے میں جانا ہو۔ وہ اس دوکان میں نہ ہوتے تو شاید دینو کب کا تانگے کی پچھلی نشست پر سو چکا ہوتا۔ دینو کی آنکھیں گرمی کی شدت کے باوجود نیند سے بوجھل ہیں۔ دو راتوں سے وہ جی بھر کر سو نہیں سکا۔ دو دن قبل دینو کے ہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔ زچہ بچہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیئے وہ اب ڈبل شفٹ یعنی دِن رات کام کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کا بوڑھا گھوڑا اس مشقت کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ کبھی کبھار وہ اپنے گھر چکر لگا کر نو مولود کالے بلونگڑے سے بچے کو دیکھ آتا ہے۔دو بیٹیوں کی پیدائش سے اسے جو ذہنی صدمہ ہوا تھا اس کی اب کافی حد تک تلافی ہو چکی ہے۔ وہ جب حسرت بھری نگاہوں سے بلونگڑے کو دیکھتا ہے تو اس کی بیوی کو عجیب قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ دو بیٹیوں کی پیدائش سے وہ کتنا پریشان تھا۔ اس کی اِس پریشانی کو اضطراب کی شکل اس وقت ملی جب اس نے اپنے اڈے کے ساتھی کوچوانوں سے طرح طرح کی باتیں سنی۔دوسری بیٹی کی پیدائش کے بعد تو وہ دو دن تک شرم کے مارے اڈے پربھی نہ جا سکاتھا۔اس کو یاد ہے کہ وہ ان دنوں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو مولوی صاحب نے تقریر کے دوران بیٹیوں کی برکت کے بارے تقریر کی اوران کو والدین کے لیئے رحمت قرار دیا تو تھوڑی دیر کے لیئے دینو کا احساسِ ندامت ختم ہو گیا۔مولوی صاحب نے یہ بھی کہا تھاکہ بیٹیاں اپنا رزق لے کر آتی ہیں اور الٹا والدین کے رزق میں برکت کا باعث بنتی ہیں۔ انہی دنوں دینو نے نئی گھوڑی لی تھی۔ گھوڑی پستہ قد لیکن مستعد گھوڑوں کی نسل سے تھی۔ گھوڑی کے گھر آنے سے اس کا کاروبار چمک اٹھا۔گھوڑی کو وہ پیار سے گلابو کہتا تھا۔ گلابو کے آنے سے گھر کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ گلابو کو اگر دن رات بھی تانگے میں جوتا جاتاتو بھی اس کی طبیعیت پر ناگراں نہ گزرتا۔دینو تھک جاتا تھا باگیں ہلا ہلا کر لیکن گلابو دوڑتے دوڑتے نہ تھکتی۔ گلابو کو پورا گھر ناز کراتا۔ فاطمہ جو دینو کی بڑی بیٹی تھی کی تو گلابو سے گہری محبت ہو گئی تھی۔ بابا جب شام کو کام سے واپس آتا تو آمنہ اورفاطمہ کو تانگے پر قریبی گلیوں کا چکر ضرور لگواتا۔ فاطمہ گلابو کی ایک ایک حرکت حرکت کا بغور جائزہ لیتی۔گلابو دم ہلاتی توفاطمہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی۔ وہ ہنہناتی تو یہ کھلکھلانے لگتی۔ وہ سرپٹ بھاگتی تو فاطمہ کے جسم میں بھی تھرتھلی مچ جاتی۔ فاطمہ کی دلچسپیوں کا محور گلابو ہی تھی۔ جب دینو گھر آتا اور گلابو کو پیپل کے درخت کے نیچے باندھ دیتا تو فاطمہ گھر بار سے بے نیاز گھوڑی کی خدمت میں لگ جاتی۔ نلکے سے بالٹی بھر کر اس کو نہلواتی، پیپل کے نیچے اس کے آنے سے پہلے جھاڑو دیتی، اس کے آگے گھاس ڈالتی اور بالٹی میں صاف پانی ڈال کر اس کو پلاتی۔ گھوڑی بھی فاطمہ کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتی اور اپنی محبت کا اظہار اپنے بھورے بھورے کان ہلا کر کرتی۔جب دیر تک گلابو کے کان لہراتے رہتے توفاطمہ کے ساتھ ساتھ تمام گھر والے اس منظر سے محظوظ ہوتے۔ ایک مرتبہ سردیوں میں فاطمہ بیمار پڑ گئی اور گلابو کی طرف نہ جا سکی۔ گلابو نے بار بار ہنہنا کر اپنی دوست کی غیر موجودگی کا اظہار کیا۔جب کافی دیر تک فاطمہ پیپل کے درخت کے نیچے نہ آئی تو وہ بے زبان بھی مایوس ہو کر بیٹھ گئی۔ آج آمنہ پانی لے کر آئی اور گلابو کو پلانے کی کوشش کی۔گلابونے ایک نظر اٹھا کر دیکھا جیسے پانی پلانے والی کو پہچان رہی ہو۔پہچاننے میں دیر نہ لگی کیونکہ گلابو نے پانی پینے سے صاف انکار کر دیا۔ آمنہ نے بہت کوشش کی، چمکارا، سہلایا ،تھپتھپایا لیکن پانی پلانے میں ناکام رہی۔ معاملات اس وقت سنجیدہ ہو گئے جب دینو گھاس ڈالنے آیا تو گھوڑی نے گھاس کھانے سے بھی انکار کر دیا۔دینو کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ گھر میں موجود جانوروں کے لیئے مخصوص دو کیپسول اس نے گھوڑی کے منہ میں زبردستی ڈال دیئے۔ لیکن افاقہ نہ ہوا۔ دینو پریشان ہو گیا۔ اس کی پریشانی کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کا گزر بسر کسی جانور کے بل بوتے پر ہو اور وہ جانور بیمار پڑ جائے۔ فاطمہ اپنے کمرے میں بخار سے نڈھال پڑی تھی۔ جب اس کی طبیعت قدرے بحال ہوئی تو اس نے اپنے کمرے میں امی اور ابو کو گفتگو کو سننا شروع کیا۔موضوعِ گفتگو کوئی اور نہیں بلکہ اس کی عزیز ترین دوست گلابو تھی۔ گلابو کا نام سن کر بیمار چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ امی ابو گلابو کی بیماری اور اس کے کھانے پینے سے انکار کی باتیں کر رہے تھے۔ فاطمہ کو صورتِ حال سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ اس نے اچانک بھاری بستر کو اتارا اور جست لگا کر چارپائی سے نیچے اتری۔ دینو اور اس کی بیوی کو سمجھ نہ آئی کہ فاطمہ کو اچانک کیا ہو گیا ہے۔فاطمہ والدین کونظرانداز کرتے ہوئے باہربھاگی۔پل بھر میں وہ گلابو کی کچی کوٹھڑی میں تھی۔یہ کوٹھری کبھی ایک باڑہ تھی جب دینو نے بہت ساری بکریاں پالی ہوئی تھیں۔شام کے وقت موسمِ سرما کے باوجود اس ویران کوٹھڑی میں پرلطف بادِنسیم چلنا شروع ہو گئی جس سے دو بے چین بیمار روحوں کو قرار آ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گلابو پانی بھی پی رہی تھی اور گھاس بھی کھا رہی تھی۔ دینو اپنی بیوی کے ہمراہ اس جادوگری کو سراسیمگی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ اس ان پڑھ کوچوان کو کیا پتہ کہ محبت میں کیا کیا کرامات پنہاں ہوتی ہیں۔
گلابو کی مشقت اور بیٹیوں کی برکت سے دینو کا کچا گھر چند سالوں میں پختہ ہو گیا۔دینو کا تانگہ تیز رفتاری کی علامت تھا۔ سواریاں اس کو دوسرے تانگوں پر ترجیح دیتی
تھیں۔دوسرے کوچوان دینو کی گھوڑی کی وجہ سے دینو سے رشک اور حسد کرنے لگے تھے۔ دینو بھی گلابو کو خوب لاڈ کراتا۔ اس کی دھوپ چھائوں کا خیال رکھتا۔ اس کو پیاسا اور بھوکا نہ رہنے دیتا۔ دینو نے اب اس کی خوراک میںچنوں کی خاصی مقدار بڑھا دی تھی۔جس سے گلابو کی صحت اور استعداد میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ گلابو کی کھرلی ہمیشہ دانوں یا گھاس سے بھری رہتی۔ گلابو کی کھرلی بھی فاطمہ کے لیئے بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ وہ روزانہ اس کو پائپ لگا کر دھوتی۔ دن کو پیپل کے درخت کے نیچے اور رات کو باڑے میں لے جاتی۔ بابا نے جب کھرلی کے نیچے پہیے لگائے تو فاطمہ کا کام آسان ہو گیا۔
اس مرتبہ عید آئی تو دینوسارے خاندان کو تانگے میں بٹھا کر بازار لے گیا۔ پہلی مرتبہ دینو نے بیوی اور بیٹیوں کو جوتے، کپڑے اور چوڑیوں کے ساتھ مٹھائیاں وغیرہ لے کر دیں۔ دینو کی بیوی اس پر مسرت موقع پر بہت خوش تھی۔لیکن فاطمہ کچھ سنجیدہ اور قدرے خاموش تھی۔ ماں نے اس بات کو محسوس تو کیا لیکن اس کا تزکرہ نہ کیا کہ شاید میرا وہم ہو۔ شام کو سواریوں سے بھر اتانگہ واپس گھر آ گیا۔ فاطمہ بدستور چپ چپ تھی۔ اس نے عید کا سامان خاموشی سے اپنے چھوٹے سے ٹرنک میں رکھا اور لیٹ گئی۔ کچھ دیر کے بعد اچانک اٹھی اور بھاگ کر کمرے میں جا کر اپنا ٹرنک کھول لیا۔ اس نے اپنا سرخ دوپٹہ نکالا اور بھاگ کر گلابو کی کوٹھڑی میں داخل ہوئی اور دوپٹہ اس کے گلے میں ڈال دیا۔گلابو اگلے دونوں پائوں زور زور سے زمین پر پٹخ کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگی۔ فاطمہ کا مرجھایا ہوا چہرہ اچانک کھل اٹھا۔
فاطمہ کا کمرہ گلابو کی کوٹھڑی کے ساتھ ہی تھا۔ فاطمہ کی فرمائش پر اس کے کمرے میں ایک چھوٹا سا سوراخ بنا دیا گیا تھاجو فاطمہ اورگلابو کے درمیان رابطے کاایک ذریعہ بن گیا تھا۔فاطمہ راتوںکو اٹھ اٹھ کر اس کے درشن کرتی رہتی۔ جب تک گلابو جاگتی رہتی فاطمہ کو بھی نیند نہ آ تی۔ گلا بو سو جاتی توفاطمہ کا کمرہ بھی سو جاتا۔
عید آئی توہر فرد پر مسرت دکھائی دے رہا تھا۔ فاطمہ اورآمنہ نے رنگین لباس زیب تن کئے، پائوڈر اور لپ سٹک سے اپنے معصوم حسن میں نمایاں اضافہ کیا۔ نیلے پیلے ننھے منے دوپٹے دونوں کے سروں پر خوب سج رہے تھے۔ آمنہ کی پونیوں میں مقید زلفیں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔فاطمہ نے پونیاں خود نہ پہنیں بلکہ گلابو کی گردن کے بالوں میں اڑس دیں۔لمبے لمبے بھورے اور کالے بالوں میں رنگین پونیوں نے گلابو کو بارات والی گھوڑی بنا دیا تھا۔ گھوڑی بھی پوری طرح عید کی خوشیوں میں شامل ہو چکی تھی۔ عید کی شام پورا خاندان تانگے پر شہر کے واحد پارک میں گیا۔ گھر سے پارک کا فی دور تھا۔ فاطمہ حسبِ معمول فرنٹ سیٹ پر براجمان تھی ۔ اس کی نگاہوں کا مرکز عید کی خوشیوں اور رنگینیوں میں نہائے ہوئے شہر کی بجائے اس کی محبوب گھوڑی تھی۔وہ گلابو کے تھرکتے ہوئے اعضاء ، ہاتھی کی طرح کے بڑے بڑے کان، گردن میں موجود دوپٹہ اور پونیوں کو مسرت انگیز انداز میں تکے جا رہی تھی۔دینو کوچوان اپنی بیٹی کے جزبات کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ آخر اس کو ایک بے زبان جانور سے کیوں عشق ہو گیا ہے۔کیا اس دنیا میں محبت کے قابل اور کچھ نہیں بچا؟
عید کو گزرے چند ہی دن ہوئے تھے۔ دینو حسبِ معمول اپنا تانگہ سواریوں سے لادے ریلوے اسٹیشن کے طرف بھاگا چلا جا رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوراہے کو تانگے نے ابھی عبور کیا ہی تھا کہ اچانک گھوڑی کا پائوں کیلے کے چھلکے سے پھسلا اور وہ انتہائی زوردار انداز میں دھڑام سے کالی سڑک پر گر گئی۔ تانگے کے دونوں بمب ٹوٹ گئے۔ سواریاں محفوظ رہیں لیکن گلابو شدید زخمی ہو گئی۔اس کی دائیں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بڑی مشکل سے دینو تانگے اور گھوڑی کو گھر تک لایا۔ کمائو جانور کا علاج شروع ہو گیا۔ لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ تھوڑی بہت جمی پونجی چند دنوں میں ہی ختم ہو گئی۔ خرچ جاری تھا لیکن آمدن رک چکی تھی۔حالات دن بند سنجیدہ ہوتے گئے۔ دینو نے پیٹ کاٹ کر دو ہفتوں تک گلابو کا علاج کرایا۔ لیکن جانوروں کے ڈاکٹروں کے مطابق اسے کم از کم چار ماہ مکمل علاج اور آرام کی ضرورت تھی۔ جب انسانوں کا رزق تنگ ہو جائے تو جانوروں کو کون پوچھتا ہے۔ دینو نے اب گلابو پر توجہ دینا کم کر دی۔ دوسرے معنوں میں اب وہ گھوڑی کی ٹانگ جڑنے سے ناامید ہو چکا تھا۔ گلابو کا نہ صرف علاج بند ہوا بلکہ اس کا کھانا پینا بھی کم کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اس کی خوراک کا لازمی جزو چنے بند کر دیئے گئے۔ پھر آہستہ آہستہ گھاس بھی کم ہوتا گیا۔ایک ہڈی تو ٹوٹ چکی تھی اب دوسری ہڈیاں بھی نظر آنا شروع ہو چکی تھیں۔
حادثے والے دن جب گلابو کو گھر لایا گیا تو فاطمہ کے حالت دیدنی تھی۔ وہ بار بار گلابو کی زخمی ٹانگ کو دیکھ رہی تھی۔اس نے سب سے چھپ کر ایک مرتبہ تو ہڈی کو ٹٹولا بھی تھا اور ٹوٹی ہوئی جگہ کو اپنی نازک انگلیوںسے محسوس کیا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی جگہ کو یک جا کرنے کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہی تھی۔ گلابو کی نم آنکھیں اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہی تھیں۔وہ جانور جو چوبیس گھنٹے خوشی خوشی کام کرنے پر تیار تھا اب بے بس ہو کرایک قدم بھی نہ چل سکتا تھا۔ ہر صبح جب سات بجے اس کے جوتنے کا وقت ہوتاتو وہ مقدور بھر کوشش کر کے اٹھنے کی کوشش کرتی۔ لیکن جب ناکام ہو جاتی تو اپنی ناکامی پر غصے کا اظہار زور زور سے ہنہنا کر کرتی۔ اس کا بس چلتا تو ہوائی جہاز بن ہوائوں میں اڑنے لگتی لیکن افسوس کہ کیلے کے ایک چھوٹے سے چھلکے نے اس کی پرواز اس سے چھین لی تھی۔
آخر وہ وقت آ گیا جس کا ڈر تھا۔ آج دینو گلابو کے کھانے کو کچھ نہ لایا۔ چنے تو کب کے بند ہوچکے تھے آج گھاس بھی ختم ہو گئی۔ گلابو جو پورا دن کبھی اپنی کوٹھڑی میں اور کبھی پیپل کے درخت کے نیچے فضول بندھی رہتی پورا دن یا تو فاطمہ کے ساتھ وقت گزاری کرتی یا پھر گھاس کا انتظار کرتی رہتی۔ شام تک وہ بھوک سے نڈھال ہو جاتی اور گھاس دیکھ کر وہ روزہ دار کی افطاری کی طرح بے چین ہو کر گھاس کھانا شروع کر دیتی۔ لیکن آج اسے کیلے سے پھسلنے کی سزا فاقے کی شکل میں مل رہی تھی۔ فاطمہ آج خاموش تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ایک طرف گھر کے حالات ناگفتہ بہ تھے تو دوسری طرف اس بے زبان سے اس کے خاندان کا غیر انسانی سلوک۔فاطمہ نے پیپل کے چند پتے گھوڑی کے آگے ڈالے جس کو اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ مایوس ہو کر وہ اپنے بستر میں آن گری ۔ نہ جانے کون سا وقت تھا جب اس کی روتے روتے آنکھ لگ گئی۔آدھی رات کے وقت جب سارا شہر خاموش ہو چکا تھا اور سردی اپنے زوروں پر تھی اچانک گھوڑی نے اپنے پائوں زمین پر پٹخنا شروع کر دیئے۔ اس نے عجیب انداز میں چیخنا بھی شروع کر دیا۔ دینو نے اس کی کوٹھڑی میں جا کر رسی پکڑی اور گلابو کو گھر سے باہر گلی میں لے جا کر چھوڑ دیا۔لنگڑی گلابو بے گھر ہو چکی تھی۔دینو نے دروازہ بند کیا اور بستر میں گھس کر سو گیا۔ دو گھنٹے تک گلابو اپنے ٹاپوں سے دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔ پھر آواز تھم گئی۔ادھر فاطمہ حسین خوابوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ گلابو کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی ہے اور وہ اپنے بابا کے ساتھ تانگے پر بیٹھے کسی ”لانگ ڈرائیو”پر جا رہے ہیں۔ گھوڑی کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ تیز ہے۔ سڑک پر اس کے آہنی کھر چنگاریاں پیدا کر رہے ہیں۔ اس کی دم یوں متحرک ہے جیسے اس کے ساتھ بجلی کے تار لگا کر اس کو برقا دیا گیا ہو۔فاطمہ کے ہنسنے کی آواز نے ساتھ چارپائی پر سوئی ہوئی آمنہ کو جگا دیا ہے۔ وہ حیران ہے کہ جانے اس کی بہنا کن سہانے سپنوں میں کھوئی ہوئی ہے۔
صبح جب فاطمہ کی آنکھ کھلی تو اس کو یہ سوچ کر بہت افسوس ہوا کہ گلابو کی صحت یابی محض ایک خواب تھا۔ وہ بھاگی بھاگی باڑے میں پہنچی ۔ لیکن باڑہ خالی تھی۔ وہ پیپل کے نیچے پہنچی وہاں بھی گھوڑی نظر نہ آئی۔ تھوڑی دیر بعد اس کو رات والی سب کہانی کا پتہ چل گیا۔ گلابو کی طرح فاطمہ بھی بے بس تھی اور سوائے چپکے چپکے رونے کے کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔فاطمہ بغیر کچھ کھائے پیئے چپکے سے بہن آمنہ کے ساتھ سکول روانہ ہو گئی۔ اس کی مٹھی میں پانچ روپے کا ایک نوٹ تھا جو اس کی ماں نے زبردستی اس کے ہتھیلی میںتھما دیا تھا۔ چند ٹیڑھی میڑھی گلیاں مڑنے کے بعد ایک بڑا سا میدان عبور کر کے وہ سکول کی طرف رواں دواں تھیں کہ اچانک بوڑھے بوڑھ کے درخت کے نیچے ان کو گلابو سوئی ہوئی نظر آئی۔ فاطمہ کے قدم چلتے چلتے رک گئے۔ آمنہ بھی تھوڑی دیر کے لیئے رکی لیکن سکول سے لیٹ ہونے کے خطرے کے باعث وہ آگے چل پڑی۔ فاطمہ کا جسم کانپنے لگ گیااور سر میں چکراہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ بستہ نیچے رکھ کر ایک اینٹ کے اوپر تھوڑی دیر کے لیئے بیٹھ گئی اور گلابو کو دیکھتی رہی۔ گلابو سکون کی نیند سو رہی تھی۔اس کی گردن میں رنگین پونیاں پھیکی پڑ چکی تھیں۔ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا خم واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ گلابو کے کمزور جسم کی ہڈیاں باہر کو نکل آئی تھیں۔ فاطمہ دیر تک ہاتھوں کے پیالے میں سر رکھے چکراتی ہوئی ہوئی نگاہوں سے تمام منظر دیکھتی رہی۔چشمِ تصور میںاس نے تھوڑی دیر کے لئے ماضی کی طرح فراٹے بھرتے ہوئے تانگے کی سواری کی بھی کوشش کی لیکن گھوڑی کی موجودہ حالت کو دیکھ کر وہ دیر تک سیر کا مزہ نہ لے سکی۔اچانک کسی خیال کے ذہن میں ابھرنے پرفاطمہ میں حرکت پیدا ہوئی۔ اس نے بستے میں سے دس روپے نکالے، بستے کو اینٹ پر رکھا اور سامنے گلی کی طرف بھاگ پڑی۔ میدان خالی تھا۔ تھوڑی دور گندے جوہڑ میں جہاں محلے بھر کا غلیظ پانی اکٹھا ہوتا تھاچند بطخیں تیر رہی تھیں۔ دور ایک کچے مکان کے باہر ایک بوڑھا بوسیدہ سی چارپائی پر گرم دھوپ کے مزے لے رہا تھا۔اس کے پاس ایک خارش زدہ کتا زمین پر لیٹا پڑا تھا۔ چن ہی منٹوں میں فاطمہ جواں گلابو کی طرح دوڑتی ہوئی گلی سے نمودار ہوئی۔ اس کے سر پر تازہ گھاس کا ایک گٹھا تھا۔ گلابو کے قریب آ کر اس نے دھپ کی آواز کے ساتھ گھاس اس کے سامنے گرا دیا۔ گھاس کے گرنے کی جانی پہچانی آواز کو سنتے ہی گلابو کی آنکھیں کھل گئیں۔ خوشبودار تازی گھاس کو غیر متوقع طور پر سامنے پا کر وہ اس پر پل پڑی۔ چند منٹوں میں ہی اس نے گھاس کا صفایہ کر دیا۔ تھوڑی دیر کے لیئے دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ آنکھوں میں نمکین پانی ابھرا اور جدائی عمل میں آ گئی۔ جب فاطمہ سکول میں پہنچی تو دوسر اپیریڈ شروع ہونے والا تھا۔ اچھا ہوا کہ آ ج پہلے پیریڈ والی ٹیچر چھٹی پر تھی جس سے فاطمہ کا دیر سے آنے کا کسی نے نوٹس نہ لیا۔ البتہ آمنہ کو سب پتہ تھا۔ اور وہ جان بوجھ کر خاموش رہی۔ بہنیں توویسے بھی بہنوں کے راز چھپانے میں شہرت رکھتی ہیں۔
دینو کا ایک بوڑھا چچا رحیم داد ساتھ والے گائوں میں رہتا تھا۔ رحیم داد بھی کوچوان تھا ۔اس نے تمام عمر مجرد گزار دی تھی۔چیت کے مہینے میں اسی برس کی عمر میں رحیم داد فوت ہو گیا۔ وہ گھر کا اکیلا فرد تھا جس کا واحد رشتہ دار دینو ہی تھا۔ اس کے گھر میں اور تو کوئی قابلِ ذکر چیز ورثہ میں دینو کو نہ ملی لیکن ایک ادھیڑ عمر گھوڑے کا مل جانا ہی دینوکے لئے غنیمت تھا۔ دینو کا تانگہ دوبارہ چل پڑا۔ اگرچہ یہ نیا گھوڑا کسی طرح بھی گلابو کے ہم پلہ نہیں تھا۔یہ ایک گھنٹہ چلتا تو دو گھنٹے آرام کرتا۔ پھر بھی اس کی موجودگی فاقہ زدہ گھرانے کے لئے ایک غنیمت تھی۔چند ماہ بعد مالک نے اس کو چاند سے بیٹے سے نوازا تو دینو اور اس کی بیوی کی خوشیوں کی کوئی حد نہ رہی۔ تھوڑی آمدن کے باوجود وہ مختصر سا گھرانہ صبر شکر کے ساتھ ایک پر مسرت زندگی گزار رہا تھا۔ نومولود سب کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔ لیکن اب تانگے گھوڑے سے دلچسپی کسی کو نہیں رہی تھی۔ خاص کر فاطمہ کو تو اب پرانے تانگے اور اس نئے بڈھے گھوڑے سے نفرت سی محسوس ہوتی تھی۔
شدید گرمیوں کے دن ختم ہوئے تو کمروں کی ٹھنڈک از سرِ نو بڑھنا شروع ہو گئی۔ ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھیں۔راتوں کو سرد جھکڑ چلا کرتے۔ دینو کے گھر میں موجود پیپل کے درخت کے پتے کبھی سرگوشیاں کرتے ہوئے معلوم ہوتے تو کبھی پیڑ سے ٹوٹ کر صحن میں ایک دوسرے کے پیچھے دوڑا کرتے۔تیز ہوا فاطمہ اور آمنہ کے کمرے کے کواڑوں پر پوری رات دستکیں دیتی رہتی۔پرانے دروازوں میں موجود درزوں اور سوراخوں کو دینو نے سریش اورلکڑی کے ٹکڑوں سے بھر دیا تھا تاکہ سرد ہواکی سوئیوں جیسی چبھن سے اس کا خاندان بچا رہے۔اسے خاص طور پر ننھے نصیرالدین کی فکر تھی جس کی عمر چند ماہ ہی تھی۔نصیر ہی دینو کی امیدوں کا محور اورخوشیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ کمروں میں دیر گئے تک کوئلے دہکتے رہتے۔ جب ان کی حرارت ختم ہو جاتی تو دینو احتیاط سے ان کوئلوں کی انگیٹھیوں کو کمروں سے باہر رکھ دیتا تاکہ ان کی مضر گیس سے سب محفوظ رہیں۔
فاطمہ کی ملاقات کبھی کبھی گلابو سے گلیوں یا سکو ل والے میدان میں ہو جاتی تھی۔ فاطمہ اس کو دیکھ کر فورا وہاں سے کھسکنے کی کوشش کرتی۔ وہ اس جانور سے آنکھ نہ ملا پاتی۔گلابو کا گزر بسر اب گلیوں اور میدانوں میں پڑے کوڑا کرکٹ پر تھا جس سے اس کی گرتی ہوئی صحت اور تیزی سے بگڑنا شروع ہو گئی تھی۔گلابو اب ہڈیوں کا پنجر بن چکی تھی اور اس کی ٹانگ کا خم اور زیادہ ہو گیا تھا۔ ایک دن فاطمہ نے گھر میں پڑی مولیوں کے چھلکے اور کچھ دوسری باسی سبزی لفافے میں ڈالی اور میدان میں سوئی گلابو کے سامنے پھینک دی۔ گلابو جو بھوک سے نڈھال پڑی تھی اس پرپل پڑی۔ کئی دنوں کی بھوک وہ چند ساعتوں میں مٹاناچاہتی تھی۔ابھی اس نے دو نوالے ہی لیئے تھے جب قریب کرکٹ کھیلتے ہوئے بچوں کی ایک گیند اچھلتی ہوئی آئی اور سیدھی گلابوکی آنکھ پر لگی۔بیٹنگ سائیڈ کے کھلاڑیوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ گلابو کی وجہ سے ان کا چوکا رک گیا۔ دو کھلاڑی بلے لے کرمشتعل انداز میں آئے اور اندھا دھند گلابو کی بوڑھی ہڈیوں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ گلابو کی دائیں آنکھ جہاں گیند لگی تھی میں سے خون بہہ رہا تھا۔ لیکن لڑکوں کا غصہ اس کی تکلیف سے زیادہ تھا۔ دو اور لڑکے بھی پہنچ گئے جنھوں نے بڑے بڑے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے۔ ہڈیوں پر بلوں اور ڈنڈوں کی ضربوں سے عجیب آوازیں آ رہی تھیں۔ چہرہ، گردن، سر، پشت، گردن، ٹانگیں غرض ہر عضو حملے کی زَد میں تھا۔ تڑاخ تڑاخ کی آواز سے ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں۔ لڑکوں نے جب جی بھر کی بھڑاس نکال لی اور گالیاں بکتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوئے توگلابو نیم بے ہوش ہو کر زمین پر گر چکی تھی۔ آنکھ سے نکلنے والا خون زمین پر گہر اہوتا جا رہا تھا۔ابھی بھی بڑے بڑے قطرے آہستہ آہستہ دائیں آنکھ سے ٹپک رہے تھے۔پورا جسم ساکن تھا۔ فاطمہ کی لائی ہوئی باسی سبزی جو تھوڑی دیر پہلے گلابو انتہائی شوق سے کھا رہی تھی ادھر ادھر بکھری پڑی تھی۔مولیوں کے چند پتے اس کے ادھ کھلے منہ میں سے واضح طور دکھائی دے رہے تھے جو اس کے پیٹ کے دوزخ کا حصہ بننے سے بچ گئے تھے۔اس کے قریب پڑی ہوئی ایک سوکھی ہوئی مولی کو خون کے چند دھبوں نے گندا کر دیا تھا۔سرخ و سبز رنگ اِدھر ادھر بکھرا ہوا تھا۔
فاطمہ گھر پہنچی تو اس کی طبیعیت ناساز تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کو تیز بخار ہوا اور وہ بستر میں جا پڑی۔موسم ابر آلود تھا۔سہ پہر سے ہی گھنے بادلوں نے آسماں کو گھیر رکھا تھا۔عصر کے وقت تیز ہوا چلنا شروع ہوئی۔دینو کے صحن میں کھڑا پیپل کا درخت جس کوخزاں نے برہنہ کر دیا تھا اپنی ٹنڈ منڈ شاخوں اور ٹہنیوں کے ساتھ دائیں بائیں دھیرے دھیرے رقص کناں تھا۔مغرب کے وقت بوندا باندی شروع ہوئی جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی۔ سردیوں کی بارش میں ایک تسلسل اور روانی ہوتی ہے۔ یہ بارش بڑی وضعدار قسم کی بارش ہوتی ہے۔اتنی وضعدار کہ بعض اوقات ہفتہ ہفتہ آپ کی مہمان بنی رہتی ہے۔ اس بارش میں شائستگی، نرمی ، نفاست اور پاکیزگی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس گھرانے پر برس رہا ہے۔ لیکن فاطمہ بخار میں تڑپ رہی ہے۔ جسم تو بخار میں تپ ہی رہا تھااس کے دل و دماغ سے بھی شعلے نکل رہے تھے۔عشاء کے وقت جانے کیا سوجھی کہ وہ حسبِ عادت جھٹکے سے اٹھی اور سہمے سہمے قدم اٹھاتی کمرے سے باہر آ گئی۔ بارش تھم چکی تھی لیکن آسمان ابھی بھی ابر آلود تھا۔ اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور گلی میں آ گئی۔ گلی ویران تھی۔ دور نکڑ پر ایک میلا سا بلب ہلکی سی مٹیالی روشنی دے رہا تھا۔ گلی کے دونوں طرف کی نالیاں بارش کے پانی سے لبا لب بھری بہہ رہی تھیں۔ بائیں طرف اس نے نگاہ ڈالی تو دور تک اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ کچھ فاصلے پر اس کو ایک ڈھیر سا دکھائی دیا۔ وہ حیران تھی کہ یہ ڈھیر کس چیز کا ہے اور اچانک کہاں سے آ گیا ہے۔وہ اس لیئے بھی حیران تھی کہ یہ ڈھیر دن کے وقت موجود نہیں تھا۔ غور کرنے پر ڈھیر آہستہ آہستہ ہلتا ہو امحسوس ہوا۔فاطمہ ڈر گئی اور مکان کے اندر بھاگ آئی۔ابھی وہ کنڈی چڑھا ہی رہی تھی کہ اس کو گھوڑی کے ہنہنانے کی پژ مردہ سی آواز سنائی دی۔کنڈی ایک سیکنڈ میں کھل چکی تھی۔ وہ ڈھیری گلابو کا زخموں سے چور جسم تھاجس کی واحد حرکت شدید سردی کی وجہ سے جسم کے اوپر طاری ہونے والی شدید کپکپاہٹ تھی۔ فاطمہ اور گلابو آمنے سامنے تھیں۔ دو پرانی سہیلیاںاز سرِنو دو بدو تھیں۔آنکھیں چار تھیں۔اندھیرے کے باوجود سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔جزبوں کو سمجھنے کے لیئے انرجی سیور یا ٹیب لائیٹس کی روشنیاں درکا رنہیں ہوتیں۔فاطمہ کو بابا کا ڈر بھی تھا کہ کہیں اس کو دیکھ نہ لے۔ وہ گھر گئی اور پالک کا بھر اہوا شاپر اٹھا کر لے آئی جو کل کے پکانے کے واسطے دینو ایک دن پہلے ہی لے آیا تھا۔ ابھی اس نے ساگ گلابو کے آگے ڈالا ہی تھا کہ بابا کے کھانسنے کی آوا ز سنائی دی۔ وہ بھاگ کر اندر چلی گئی۔ آہستگی سے کنڈی بند کی اور اپنے کمرے میںجا کربستر میں گھس گئی۔ بستر میں گھسنا ہی تھاکہ نیند کی مدہوش کیفیت اس کے اوپر طاری ہو گئی۔ آدھی رات کو بارش کا سلسلہ پھر شروع ہوا جو صبح تک جاری رہا۔ دینو شب بھر دروازے پر ہلکی ہلکی دستک کی آواز سنتا رہا۔ آدھی رات کے بعد اس آواز نے دینو کو سونے بھی نہ دیا۔صبح جب دودھ لانے کے لیئے دینو نے دروازہ کھولا تو حیران رہ گیا۔ دروازے کے ساتھ گلابو مردہ حالت میں لیٹی پڑی تھی۔ دینو بھاگ کر اندر آیااور بیوی کو سارا واقعہ سنا نے لگا۔ آمنہ اور فاطمہ بھی جاگ اٹھی تھیں۔ فاطمہ بھی تمام گھر والوں کے ساتھ باہر آ گئی۔ گلابو انتہائی بھونڈے انداز میں دروازے کے ایک طرف مری پڑی تھی۔ اس کی ٹانگیں ابھی بھی ان کے دروازے کے ساتھ ٹکیں تھیں۔ لگتا تھا کہ یہی زخمی ٹانگیںشب بھررین بسیرا کی بھیک مانگتی رہی تھیں۔ اس گھر کے اندر جہاںاس کی زندگی کے بیش قیمت برس بسر ہوئے تھے، اس گھر کے اندر جس گھرانے کی اس نے زندگی بھر اندھی وفا سے خدمت کی تھی، اس گھر کے اند ر ایک رات شدید سردی سے بچنے کے لئے دستک جس میں اس کی عاشق بھی رہتی تھی اور معشوق بھی، اس گھر کے اندرجہاں اس کا اپنا باڑہ تھا، اس کی اپنی کھرلی تھی جس کو اب پہیے بھی لگ چکے تھے، اپنا پیپل کا درخت تھا۔۔۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود گھر کا دروازہ نہ کھلا۔ گلابو نے بھی ہمت نہ ہاری اور مرتے دم تک دستکیں دیتی رہی۔ ڈھیٹ پن کی انتہاتھی یہ بھی۔
مطلع صاف ہو چکا تھا۔تھوڑی دیر میں سورج نکل آیا۔ سارا ماحول دھلا دھلاسادکھائی دے رہا تھا۔جب دینو تانگہ لے کر کام پر روانہ ہوا تو فاطمہ ابھی بھی گلابو کے پاس بیٹھی تھی۔ دینو نے چلتے تانگے سے فاطمہ کو آواز لگائی کہ جائو سکول کے لیئے تیار ہو جائو، میں راستے میں میونسپلٹی کے جمعداروں کو کہتا جائوں گا کہ مردہ گھوڑی کو گلی میں سے اٹھا لیں۔ فاطمہ نے الوداعی نگاہیں گلابو پر ڈالیں۔ گلے کی پونیاںبے رنگ ہو کر سیاہ ہو چکی تھیں۔ جسم کی کئی ہڈیاںٹوٹی ہوئی چمڑے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ گلابو کی ایک آنکھ ابھی بھی سرخ تھی جبکہ دوسری آنکھ سے پانی رواں تھا۔گلابو اور فاطمہ میں جدائی کا باعث بننے والی ٹانگ کی ٹوٹی ہوئی ہڈی ابھی بھی واضح طور پرشکستہ دکھائی دے رہی تھی۔ پالک لفافے سمیت گلابو کے منہ میں نظر آ رہی تھی۔گلابو نے شاید اس کو کھانے کی کوشش کی تھی لیکن جانور ہونے کے ناطے وہ لفافے میں پڑی گانٹھ نہ کھول سکی جس سے پالک کا ساگ لفافے سمیت اس کے منہ میں ہی رہ گیا۔ فاطمہ نے آہستگی سے اپنی آنکھوں کو موندا اور واپس گھر میں آ گئی۔