یہ پاکیزہ عبادت 20رمضان تا اختتام رمضان مسلمان مساجد میں بجا لاتے ہیں
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اعتکاف کی تعریف:اعتکاف ”عکف ”سے بنا ہے جس کا معنی ہے ٹھہرنا یا قائم رہنا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:فأتو علی قوم یعکفون علی اصنام لھم۔ترجمہ”یعنی بنی اسرائیل کا (راستے میں)ایک ایسی قوم پر گذر ہوا جو اپنے چندبتوں پر جمع ہوئے(گرویدہ)تھے۔” (پارہ9سورة الاعراف :آیت 138)
اورپھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وانتم عاکفون فی المساجد ۔ الایہ” تم مسجدوں میں اعتکاف کر رہے ہو یعنی بغرض اعتکاف ٹھہرے ہوئے ہو۔”یہ تو تھا لفظ اعتکاف کا لغوی معنی اور شرعاً اعتکاف یہ ہے کہ مسجد میں اللہ کے لئے بہ نیت عبادت ٹھہرے۔”اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے ،یہ تو دو جملوں میں اعتکاف کے مسائل کا خلاصہ پیش کیا گیاہے۔ مفصل مسائل انشاء اللہ تعالیٰ آگے آرہے ہیں۔
اعتکاف کی حقیقت:اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہو کر اللہ سے لو لگا کے اس کے درپہ (یعنی کسی مسجد کے کونہ میں)پڑ جائے ۔یہ خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے واضح ہو کہ نفلی اعتکاف کے لئے وقت کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے ۔بلکہ جتنا وقت بھی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہر جائے نفلی اعتکاف ہو جائے گا۔
البتہ رمضان المبارک میں جو اعتکاف مسنون ہے اس کے لئے دس روز کی مدت مقرر ہے (یعنی رمضان المبارک کا آخری عشرہ) اس سے کم میں سنت ادا نہیں ہو گی۔اسی طرح اعتکاف واجب یعنی جس کی نظر مانی ہو وہ ایک دن ایک رات سے کم نہیں ہو سکتاہے ۔
اعتکاف کی اقسام:اعتکاف تین قسم کا ہے:(1):۔فرض جیسے نذر مانا ہوا اعتکاف ۔اس میں روزہ شرط ہے۔(2):۔اعتکاف سنت۔یہ بیسویں رمضان المبارک کی عصر سے عید کا چاند دیکھے جانے تک۔(3):۔اعتکاف نفل:اس میں نہ روزہ شرط ہے اور نہ ہی اسکی مدت مقرر۔جس مسجد میں جائے تو کہہ دے :میں نے اعتکاف کی نیت کی جب تک مسجد میں رہوں۔
اعتکاف کے فوائد وخواص:فقہ حنفی کی کتاب ”مراقی الفلاح”شرح نور الایضاح”میں لکھا ہے کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال سے ہے ۔اسکی خصوصیتیں بے شمار ہیں کہ اس میں قلب کو دنیا و مافیھا سے دور کر لینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کر دینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑجانا ہے ۔ نیز اعتکاف میں اللہ کے گھر پر پڑجانا ہے اور کریم میزبان ہمیشہ گھر آنے والے کا اکرام کرتا ہے ۔نیز مسجد میں اعتکاف کر کے اللہ تعالیٰ عزوجل کے قلعہ میں محفوظ ہونا ہے کہ دشمن کی رسائی جہاں ممکن نہیں۔
اعتکاف کا ذکر قرآن پاک میں:رب تعالیٰ فرماتا ہے :ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد۔”یعنی جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔(البقرہ آیہ 187)
اعتکاف سے متعلق احادیث مبارکہ:حدیث نمبر1: نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے کہ ”معتکف گناہوں سے محفوظ رہتاہے اور اس کیلئے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کیلئے ۔” (سنن ابن ماجہ،مشکوٰة)
تشریح :اعتکاف کے دو مخصوص نفعے و فائدے اس حدیث میں ارشاد فرمائے گئے ہیں (1)ایک یہ کہ اعتکاف کی وجہ سے گناہوں سے حفاظت ہو جاتی ہے ورنہ بسا اوقات کو تاہی اور لغزش سے کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس میں آدمی گناہ میںمبتلا ہو ہی جاتا ہے اور ایسے متبرک وقت اور بابرکت مہینے میں معصیت کا ہو جانا کس قدر ظلم عظیم ہے ۔اعتکاف کی وجہ سے ان (گناہوں )سے امن اور حفاظت رہتی ہے۔(2)دوسرے یہ کہ جب بندہ اعتکاف کی نیت مسجد میں بیٹھ جاتا ہے تو اگر چہ عبادت اور ذکر و تلاوت وغیرہ کے راستہ سے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہو جاتا ہے ۔مثلاً بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کر سکتا جو بہت بڑے ثواب کا کام ہے ،کسی لاچار ،مسکین، یتیم اور بیوہ کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ نہیں کر سکتا ،کسی میت کو غسل نہیں دے سکتا جو اگر ثواب کے لئے اوراخلاص کے ساتھ ہو تو بہت بڑے اجر کا کام ہے اسی طرح نماز جنازہ کی شرکت کے لئے نہیں نکل سکتا ،میت کے ساتھ قبر ستان نہیں جا سکتا جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہو جاتے ہیںاور نیکیاں لکھی جاتی ہیں لیکن اس حدیث شریف میں اعتکاف والے کو بشارت سنائی گئی ہے کہ اسکے حساب اور اعمال میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہو جاتا ہے اور اس سے قبل وہ ان کا عادی تھا تو ان نیکیوں کا اجر معتکف کو بغیر کئے بھی ملتا رہے گا۔
حدیث نمبر2:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ۖ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور وصال شریف تک آپ کا یہ معمول رہا۔پھر آپ ۖ کے وصال کے بعدآپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔(صحیح بخاری ،صحیح مسلم )
تشریح:حضور ۖ کی عادت مبارکہ اعتکاف کی ہمیشہ رہی ہے اس ماہ مبارک میں تمام مہینہ کا اعتکاف بھی فرمایا ہے اور جس سال وصال شریف ہوا ہے اس سال بیس روز کا اعتکاف بھی فرمایا تھا لیکن اکثر عادت شریفہ چونکہ اخیر عشرہ ہی کے اعتکاف کی رہی ہے اس لئے علماء کے نزدیک سنت مؤکدہ وہی ہے۔
ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں مسجد میں نہیں اور خواتین کے لئے اعتکاف کی جگہ ان کے گھروہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کے لئے مقرر کر رکھی ہو۔اگر گھر میں نماز پڑھنے کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہوتو اعتکاف کرنے والی خواتین کو ایسی جگہ مقرر کر لینی چاہیے۔
حدیث نمبر3:۔امام شعرانی رحمة اللہ علیہ نے ”کشف الغمہ”میں حضور نبی کریم ۖ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ :”جو شخص عشرۂ رمضان کا اعتکاف کرے اسکو حج اور دو عمروں کا اجر ملتا ہے اور جو شخص مسجد میں مغرب کی نماز سے عشاء تک کا اعتکاف کرے کہ نماز ،تلاوت قرآن کے علاوہ کسی سے بات نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل بناتا ہے ۔(کشف الغمہ)
تشریح:رمضان المبارک کے عشرۂ اخیر کا اعتکاف تو سنت ہے اور مغرب سے عشاء یا کسی بھی اور وقت کا اعتکاف مستحب و باعث ثواب ہے ۔تو ہر آدمی کو چاہئیے کہ جب بھی کسی مسجد میں کسی بھی وقت داخل ہو تو قدم رکھتے ہی اعتکاف کی نیت کر لیا کرے کہ ایسا کرنے سے نماز اور کسی دوسری عبادت کے علاوہ جتنی دیر مسجد میں ٹھہرے گا ۔اتنی دیر ٹھہرنے میں اعتکاف کا ثواب حاصل ہو گا ۔ اس کا خاص اہتمام ہونا چاہییے۔”
حدیث نمبر4:” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضور اکرمۖ کے روضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میں نے اس قبر والے (ۖ)سے سنا ہے (چونکہ اس وقت زمانہ کچھ زیادہ نہیں گذرا تھا تو یہ لفظ کہتے ہوئے حضرت ابن عباس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔)کہ حضور ۖ فرما رہے تھے کہ جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اسکے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑے فرمادیتا ہے ۔جس کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیان مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہیں۔(،بہیقی،حاکم،کشف الغمہ)
حدیث نمبر5:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرمایا :معتکف کے لئے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت (بیمار پرسی)کو جائے ،نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے باہر نکلے ،نہ عورت (بیوی) سے صحبت کرے اور نہ بوس وکنار کرے اور اپنی ضرورتوں کے لئے بھی مسجد سے باہر نہ جائے ۔ سوائے ان حوائج کے جو بالکل ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب،پاخانہ وغیرہ)اور اعتکاف روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے سوا نہیں ۔” (ابو دائود شریف)
حدیث نمبر6:” حضرت نافع ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت ۖ اعتکاف فرماتے تو اسطوانۂ توبہ کے پیچھے یا تو آپ کا بستر بچھا دیا جاتا تھا یا چار پائی ڈال دی جاتی تھی۔”
تشریح:اسطوانۂ تو بہ مسجد نبوی کے اس ستون کا نام ہے جسے اسطوانۂ ابو لبابہ بھی کہتے ہیں اور اس ستون پر حضرت ابو لبابہ کی توبہ قبول ہوئی تھی۔اسکے پیچھے وہ جگہ ہے جہاں اعتکاف کے وقت آپ کا بستر بچھا دیا جاتا یا چار پائی ڈالی جاتی ۔آجکل اس جگہ پر ایک ستون ہے جس کو اسطوانہ العریر کہتے ہیں اور یہ نام اس ستون پر بھی لکھا ہوا ہے یہ ستون روضۂ اقدس کی مغربی جالی سے متصل ہے۔
بہر کیف! اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف کے لئے مسجد میں بستر بچھا نا بھی جائز ہے اور اگر کسی شخص کو فرش پر سونے سے نیند نہ آئے تو چار پائی بھی ڈال سکتا ہے ۔لیکن اچھا یہی ہے کہ چند روز کے لئے اتنا زیادہ اہتمام نہ کیا جائے ۔بلکہ سادگی کے ساتھ فرش پر سوئیں حضور ۖ چونکہ پیغمبر تھے اس لئے آپ نے بہت سے کام اس لئے فرمائے ہیں تاکہ میری امت کو انکاجائز ہونا معلوم ہو جائے ۔لہٰذا آپ نے چار پائی ڈلوا کر اسکا جائز ہونا بھی بتا دیا ۔لیکن عام مسلمانوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ فرش پر سونے کا انتظام کریں ۔
مسئلہ:اگر کسی شخص نے کسی مسجد کا کونہ ہر سال اپنے اعتکاف کے لئے مخصوص کر رکھا ہو لیکن کسی دفعہ اس کے وہاں پر بیٹھنے سے پہلے کوئی دوسرا شخص اس جگہ اعتکاف بیٹھ جائے تو اس شخص کو اس جگہ سے ہٹانا جائز نہیں ہے ۔اعتکاف چونکہ عظیم عبادت ہے اس لئے اس میں کسی خاص جگہ پر قبضہ کرنے سے لڑائی جھگڑا کرنا یا کسی مسلمان کو تکلیف پہنچانا یا اس کا دل دکھانا ہر گز جائز نہیں ہے ۔
حدیث نمبر7:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:” جب آپۖ قضائے حاجت کے لئے مسجد سے باہر تشریف لاتے ہیں اور آپ کا گذر کسی بیمار کے پاس سے ہوتا ہے تو آپ نہ تو اس کی عیادت کیلئے اپنے راستے سے ہٹتے اور نہ مریض کے پاس ٹھہرتے ،بلکہ چلتے چلتے اسکی مزاج پرسی فرمالیتے تھے۔”(مرقات شر ح مشکوٰة جلد4صفحہ329)
اس سے معلوم ہوا کہ معتکف جب کسی شرعی عذر سے مسجد سے باہر نکلے تو اسے ضرورت سے زائد ایک لمحہ بھی باہر نہ ٹھہرنا چاہیئے۔ہاں راستے میں چلتے چلتے کسی سے کوئی بات کر لے یا بیمار پرسی کر لے تو جائز ہے لیکن اس غرض کے لئے راستہ رکنا راستہ بدلنا جائز نہیں ۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اسی پر عمل فرماتی تھیں۔( مؤطا امام مالک)
مسائل خصوصی متعلقہ اعتکاف : مسئلہ نمبر1:معتکف کے لئے مسجد سے باہر کے حالات لوگوں سے معلوم کرنا جائز ہے ۔ کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آزادشدہ قیدیوں کا شورسن کر بحالت اعتکاف حضرت عبد اللہ بن عمر سے ماجرا پوچھا تھا ۔(صحیح بخاری ص445جلد 1)
مسئلہ نمبر2:رمضان شریف عشرۂ اخیر کا یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے ۔یعنی ایک بستی یا محلے میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو تمام اہل محلہ کی طرف سے سنت ادا ہوجائے گی ۔ لیکن اگر سارے محلے میں کسی ایک نے بھی اعتکاف نہ کیا تو سارے محلے والوں پرترک سنت کا گناہ ہو گا۔(شامی)
اعتکاف کارکن اعظم:رکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود میں رہے ۔اور حوائج ضرور یہ (ضروری حاجات) کے سوا ایک لمحے کے لئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلے۔ کیونکہ اگر معتکف ایک لمحے کے لئے شرعی ضرورت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔
حد ود مسجد:بہت سے لوگ حدود مسجد کامطلب نہیں سمجھتے اور اس بنا پر انکا اعتکاف ٹو ٹ جاتا ہے ۔اس لئے خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حدود مسجد کا کیا مطلب ہے ۔عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کومسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے اس پورے احاطے کامسجد ہونا ضروری نہیں ،بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے۔جسے بانیٔ مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ زمین کے کسی حصے کا مسجد ہونا اور چیز ہے اور مسجد کی ضروریات کے لئے وقف ہونا اور چیز ،شرعاً مسجد صرف اتنے حصے کو کہا جائیگا۔جسے بنانے والے نے مسجد قرار دیا ۔ہو یعنی نماز پڑھنے کے سوا اس سے کچھ اور مقصود نہ ہو ،لیکن تقریباً ہر مسجد میں کچھ ایسا حصہ ہوتا ہے ۔مثلاً وضو خانہ، غسل خانہ،استنجا کی جگہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام کا حجرہ ، گودام وغیرہ، اس حصے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے ،چنانچہ ان حصوں میں جنابت کی حالت میں جانا بھی جائز ہے ۔جبکہ اصل مسجد میں جنبی کا داخل ہونا جائز نہیں ہے بلکہ اگر معتکف اس حصے میں شرعی عذر کے بغیر ایک لمحے کے لئے بھی چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
شرعی ضرورت کے لئے نکلنا:شرعی ضرورت سے ہماری مراد یہاں وہ ضروریات ہیں جن کی بناپر مسجد سے نکلنا شریعت نے معتکف کے لئے جائز قرار دیا ہے اور اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا یہ ضروریات مندرجہ ذیل ہیں۔(1)پیشاب پاخانے کی ضرورت۔ (2)غسل جنابت جبکہ مسجد کے اندر غسل کرنا ممکن نہ ہو۔(3)وضو ،جبکہ مسجد میں رہتے ہوئے وضو کرنا ممکن نہ ہو۔(4)کھانے پینے کی اشیاء باہر سے لانا ،جب کہ کوئی اور شخص لانے والا موجودنہ ہو۔(5)مؤذن کیلئے اذان دینے کے مقصد سے باہر جانا۔(6)جس مسجد میں اعتکاف کیا ہے اگر اس میں جمعہ کی نما زنہ ہوتی ہو تو جمعہ کی نماز کے لئے دوسری مسجد میں جانا۔(7)مسجد کے گرنے کی صورت میں دوسری مسجد میں منتقل ہونا۔ان ضروریا ت کے علاوہ کسی اور مقصد سے باہر جانا معتکف کیلئے جائز نہیں ۔
اعتکاف کا ٹوٹ جانا:مندرجہ ذیل چیزوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔
(1)جن ضروریات کاپیچھے ذکر کیا گیا ہے ۔ان کے سوا کسی بھی مقصد سے اگر کوئی معتکف حدود مسجد سے باہر نکل جائے ۔ خواہ یہ باہر نکلنا ایک ہی لمحے کیلئے ہو تو اسکا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ (ھدایہ)
(2)اس طرح اگر معتکف شرعی ضرورت سے باہر نکلے ۔ لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی ٹھہرجائے تو اس سے اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔(شامی)
(3)بلا ضرورت شرعی مسجد سے باہر نکلناخواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر غلطی سے ،بہر صورت اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلا ہے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہو گا۔(شامی)
(4)کوئی شخص احاطہ مسجد کے کسی حصے کو مسجد سمجھ کر اس میں چلا گیا۔ حالانکہ درحقیقت وہ حصہ مسجد میں شامل نہیں تھا ۔تو اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ گیا اس لئے شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے حدود مسجد اچھی طرح معلوم کر لینی چاہئیں۔
(5)اعتکاف کیلئے چونکہ روزہ شرط ہے ۔اس لئے روزہ توڑدینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔خواہ یہ روزہ کسی عذر کی وجہ سے توڑاہو ،یا بلاعذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو،ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ،غلطی سے روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ تو یاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہو گیا جو روزے کے منافی تھا ۔مثلاً صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے ۔ یا غروب آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر روزہ افطار کر لیا کہ افطار کا وقت ہو چکا ہے یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا ہے ،تو ان تمام صورتوں میں روزہ بھی جاتا رہا اور اعتکاف بھی ٹوٹ گیا۔لیکن اگر روزہ ہی یاد نہ رہا اور بھول کر کچھ کھاپی لیا تو اس سے روزہ بھی نہیں ٹوٹتا اور اعتکاف بھی فاسد نہیں ہوا۔(درمختا و شامی ج2ص132)
(6)جماع کرنے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ جماع جان بوجھ کرہو یا سہواً ،دن میں کرے یا رات میں ،مسجد میں کرے یا مسجد سے باہر اس سے انزال ہو یا نہ ہو ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔(شامی)بوس وکنار اعتکاف کی حالت میں ناجائز ہے اور اگر اس سے انزال ہو جائے تو اس سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔لیکن اگر انزال نہ ہوتو ناجائز ہونے کے باوجود اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔(ھدایہ)
شرائط اعتکاف :(1)مسجد جامع کا ہونایعنی جس میں اذان اور اقامت و جماعت ہوتی ہو وہاں اعتکاف جائز ہے ۔ (2)عورت اپنے گھر میں جہاں نماز پڑھنے کی جگہ مقرر ہے وہیں اعتکاف کرے اور اس جگہ اس کا اعتکاف کرنا اس کے حق میں ایسا ہے جیسے مرد کے واسطے میں مسجد میں اعتکاف کرنا ہے اور اگر اس کے گھر میں کوئی نماز کی جگہ مقرر نہ ہوتو کسی جگہ نماز کے واسطے مقرر کرے اور وہیں اعتکاف کرے۔(3)روزہ رکھنا شرط ہے اور اعتکاف واجب میں بلا اختلاف بروایت واحد شرط ہے اور ظاہر الروایت امام ابو حنیفہ سے یہ ہے کہ اعتکاف نفل میں روزہ شرط نہیں ہے اور یہی قول صاحبین کا ہے ۔
آداب اعتکاف:اعتکاف کا مقصد چونکہ انسان دوست تمام مشاغل سے کنارہ کش ہو کر اللہ تعالیٰ کی ہی یاد کیلئے اپنے آپ کو لگائے،اس لئے اعتکاف کے دوران غیرضروری کاموں اور باتوںسے بچنا چاہئے اور جس قدر وقت ملے نوافل پڑھے ،تلاوت قرآن مجید اور دوسری عبادتوں اور اذکار و تسبیحات میں وقت گزارنا چاہئیے ۔ علم دین کے پڑھنے پڑھانے واعظ و نصیحت کرنے کی بھی اجازت ہے اور یہ بھی موجب ثواب ہے۔
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
E mail ….peerowaisi@gmail.com……..peerowaisi@yahoo.com
ell No…0300-6491308……….0333-6491308