تحریر شازیہ عندلیب
باجی گیٹ پر دو لڑکے آئے ہیں۔وہ آپکا پوچھ رہے ہیں۔ملازمہ نے معنی خیز انداز میں کہا تو دلربا پوری جان سے لرز گئی۔
مم مجھے اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔گھبراہٹ میں فرنچ ٹوسٹ کا ٹکڑا اس کے حنائی ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑا۔اس نے ناشتہ کی میز پر اپنے آس پاس بیٹھی دیورانی اور جیٹھانی کو کنکھیوں سے دیکھاتو انکو چہ مگوئیاں کرتے پایاوہ دونوں اسے دیکھ کر آپس میں طنزیہ مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہی تھیں اور ان کی آنکھوں اور ابروئوں کی جنبشیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔دلرباء نے جلدی سے ٹوسٹ کا ٹکرا میز پر سے اٹھا کر زہر مار کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں اسکا چوڑیوں بھرا بازو اس کے شوہر سائم کی چائے کی پیالی سے ٹکرایا اور چائے چھلک کر اس کے کپڑوں کو گیلا کر گئی۔وہ جلدی سے اٹھ کر واش روم چلا گیا۔یہ دیکھ کر اسکی بڑی جیٹھانی نے بڑی مشکل سے ہنسی دبائی۔اسے اپنے سسر کا لحاظ نہ ہوتا تو خوب کھلکھلا کر ہنستی تھوڑی دیر پہلے دلرباء کا جو چہرہ مسکرا رہا تھا اس پے در پے افتاد سے ماند سا پڑ گیا۔اسکی چمکتی ہوئی کاجل لگی بھوری آنکھوں میں کسی انجانے خوف کے سائے لہرانے لگے اور گلابی چہرے پہ ہوائیاں سی اڑنے لگیں۔وہ جلدی سے اٹھ کر صائم کے پیچھے جانے لگی کہ گیٹ پر دوبارہ ہونے والی دستک نے اس کے قدم روک لیے۔بڑی بھابھی نے چھوٹی بھابھی کے کان میں سرگوشی کی
لو وہ چلی لیلا اپنے مجنو کے پیچھے ۔
سب کی نگاہیں دلرباء پر ہی مرکوز تھیں جیسے ابھی کوئی بہت بڑا انکشاف ہونے والا ہو۔بظاہر تو دلرباء کا سسرال ایک کھاتا پیتا گھرانا تھا۔دونوں بھابھیاں بھی ہنس مکھ اور ماڈرن تھیں لیکن چند دنوں کی رفاقت کے بعد ہی انکی حقیقت کھلنا شروع ہو گئی کہ بظاہر روشن خیال اور ماڈرن بھابھیاں کس قدر تنگ نظر اور شکی مزاج ہیں۔شادی کے دوسرے روز ہی اس کے جیٹھ نے نہ جانے کیا کہہ کر صائم سے اسکی لڑائی کروانے کی کوشش کی جسے اس کے سسر نے بڑی تدبیر سے کنٹرول کر لیا اس کے بعد کسی بات پر سارا گھر اس سے ناراض ہو گیا۔وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پڑوسن کے ہاں چلی گئی تو اسکی چھوٹی بھابھی نے اس کے سسر سے شکائیت کی کہ یہ گھر سے اکیلی نہ جانے کہاں چلی گئی۔تب انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس کے شوہر کے آنے پہ ہو گا۔اس بات پر دلرباء نے تقریباًروتے ہوئے اپنے شوہر کو آفس فون کیا کہ کیا وہ اسے علیحدہ کر دے گا ۔اس نے بہت پیار سے اسے بتایا کہ وہ کسی کے کہنے پر ایسا نہیں کرے گا۔چھوٹی بھابھی کی اپنے شوہر سے نہیں بنتی اس لیے وہ ایسی باتیں کرتی ہیں تم ان کی باتوں پہ کان نہ دھرو۔یہ سن کر اسے تسلی ہوئی کہ اس کے شوہر کو اس پر پورا اعتماد تھا۔گو کہ وہ ایک پابند گھرانے کا فرد تھا مگر پھر بھی شخصی آزادی پہ یقین رکھتا تھا۔ابھی اس بات کو گزرے چنددن ہی گزرے تھے کہ یہ دو لڑکوں کی افتاد آن کھڑی ہوئی تھی۔گھر کی چھوٹی بہو ہونے کی وجہ سے اسکی ہر حرکت پہ نظر رکھی جاتی اور اپنے شوہر کی من پسند ہونے کی وجہ سے اس میں نقص نکالنے کی بھی کوشش کی جاتی۔
ٹھگنی ملازمہ نے دوبارہ ہاتھ ہلا کر مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا باجی کیا جواب دوں؟؟
دلربا ہڑ برا کر بولی کہہ دو انہیں کہ کوئی نہیں رہتی یہاں دلربا۔
اف یہ مصیبتیں صبح صبح کہاں سے آن ٹپکی۔وہ بھی ایک نہیں دو دو۔اس نے بڑی بے بسی سے سوچا۔
تب ملازمہ کہنے لگی باجی وہ آپ سے ملے بغیر نہیں جائیں گے اس لیے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی کاغذ ہے جس پہ آپکا نام لکھاہے۔کک کاغذ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔
میز پہ بیٹھے سب لوگ چونک کر اسکی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔اسے سہما ہوا دیکھ کر اسکے سسر نے اسکا حوصلہ بڑہاتے ہوئے کہا جائو بیٹا جا کر دیکھ لو کوئی ضروری کام ہو گا۔
وہ ڈرتے ڈرتے گیٹ تک آئی تو ان دونوں لڑکوں نے بڑے احترام سے اسے سلام کیا۔اسے ایک چھوٹا ساقیمتی چمڑے کا کالاپرس دکھا کر پوچھا کیا یہ آپکا ہے؟ْ جی ہاں یہ میرا ہے۔یہ ہمیں ڈاکٹر کی دوکان کے باہر پڑا ملا تھا۔اس میں سے یہ درائیونگ لائیسنس نکلا ہے جس پہ آپکا پتہ لکھا دیکھ کر ہم یہاں آئے ہیں۔ہمیں یہ پرس سڑک پہ سے ملا تھا۔
ارے ہاں یہ تو چوری ہو گیا تھا۔اس نے جلدی سے پرس کھلا تو اس میں سے پاکستانی نوٹ غا ئب تھے جبکہ غیر ملکی کرنسی کے سکے بدستور پڑے تھے۔کھویا ہوا پرس اور ڈرائیونگ لائسنس پا کر وہ کھل اٹھی۔جب ماحول ایسا ہو کہ ہر کوئی الزام تراشی کی تاک میں ہو ہر بات کہنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے ہر کام سے پہلے پھونک پھونک کر قدم اتھانا پڑے تو انسان قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی ایسی صورتحال میں چور سا بن جاتا ہے۔یہ حال دلربا کا بھی تھا۔اتنی دیر میں اسکا شوہر صائم بھی کپڑے بدل کر آ گیا۔اس کے ہاتھ میں اسکا کھویا ہوا پرس دیکھ کر وہ صورتحال بھانپ گیا۔اس نے بڑے رسان سے کہا اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔حوصلہ رکھا کرو میں ہوں نا تمہارے ساتھ اور دلرباء اسے تشکر بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی۔محبت اور اعتماد ایسی صفات ہیں جو انسان کو بڑی سے بڑی مصیبت سے ٹکرا دینے کا حوصلہ عطاء کرتے ہیں اب اسکا دل اس شکی مزاج ماحول میں بھی صائم کے ساتھ کی وجہ سے مضبوط ہو گیا تھا۔اس روز کے بعد اس نے ہر مشکل صورتحال میں بھی حوصلے او اعتماد کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔