شاہنواز فاروقی
ایمان مذہب کا سب سے اہم، سب سے بڑا اور سب سے بنیادی تصور ہے۔ اس لیے کہ مذہب اور انسان کی زندگی کی پوری عمارت ایمان اور اس کے درجے یا معیار سے تعمیر ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالی نے سب سے زیادہ ایمان پر کلام کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اللہ، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، آخرت، جنت اور دوزخ اور فرشتوں پر ایمان لائو۔ کہنے والوں نے کہا ہے کہ مذہب کی ساری عمارت ان دیکھے حقائق یا Unseen پر کھڑی ہوئی ہے، اور ان دیکھی چیزوں پر ایمان لانا خلافِ عقل ہے لیکن ان دیکھے حقائق پر ایمان لانا خلافِ عقل نہیں ماورائے عقل ہے، اور کسی چیز کے خلافِ عقل اور ماورائے عقل ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تاہم اللہ تعالی مذہب کے ان دیکھے حقائق یا Unseen Facts کو دیکھا ہوا یا Seen بنا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال انبیا و مرسلین ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اتنی قوی تھی کہ آپ چہرے سے ہی نبی معلوم ہوتے تھے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں یہودیوں کی روایات میں آیا ہے کہ وہ کوہِ طور پر اللہ تعالی سے ملاقات کرکے آئے تو ان کے ایک حواری نے ان کے چہرے کو دیکھ کر کہا کہ بلاشبہ یہ اس شخص کا چہرہ ہے جس نے اللہ تعالی سے کلام کیا ہے یا اس کو دیکھا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے مذہب کے ان دیکھے کو دیکھا یا Unseen کو Seen بنانے کی سب سے بڑی صورت یہ پیدا کی ہے کہ وہ انبیا و مرسلین کی زندگی کو ایسا بنادیتا ہے کہ اسے دیکھ کر انسان خدا کی موجودگی کی گواہی دینے پر مائل یا مجبور ہوجاتا ہے۔ انبیا اور مرسلین نے ہمیشہ کفر اور شرک کے اندھیروں میں توحید کا چراغ جلایا اور ساری دنیا کی دشمنی مول لی۔ ایسا بوجھ تو کوئی ان دیکھی چیزوں کے لیے کیا دیکھی ہوئی چیزوں کے لیے بھی نہیں اٹھاتا۔ انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ صاحبِ علم اور نیک ہے تو لوگ اس کو سراہیں بلکہ اس کی پوجا کریں۔ مگر انبیا ومرسلین نے کہا ہے کہ عبادت کے لائق تو صرف اللہ ہے، ہم تو محض اس کے بندے اور فرماں بردار ہیں۔ انسان معمولی سی کتاب بھی لکھ لیتا ہے تو اس کو اپنے نام کے ساتھ شائع کراتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے، مگر حضرت موسی پر توریت، حضرت عیسی پر انجیل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل ہوئی مگر انہوں نے اسے اپنی نہیں اللہ کی کتاب قرار دیا اور کہا کہ اس کا ایک ایک حرف اللہ کا ہے۔ اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت بہت سے انبیا کو حکومت اور سلطنت دی، مگر وہ حکومت اور سلطنت ملنے سے پہلے دنیا سے جتنے بے نیاز تھے، حکومت اور سلطنت ملنے کے بعد بھی اتنے ہی بے نیاز رہے۔ انبیا ومرسلین اور ان کے بعد اولیا کی زندگیوں کے ایسے ہی حقائق مذہب کے ان دیکھے کو دیکھا اور Unseen کو Seen بنا دیتے ہیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں اسلام کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں: اسلام، ایمان اور احسان۔ یہی ایمان کے درجے بھی ہیں۔ اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے اللہ تعالی کی موجودگی اور یکتائی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرلے۔ ایمان یہ ہے کہ جو کچھ اس نے زبان سے کہا وہ اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوگیا اور اس کے عمل میں ڈھل گیا۔ احسان یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں جمال پیدا ہوگیا اور اس کی طبیعت ہر لمحے حسن کاری کی طرف مائل رہنے لگی۔ یعنی وہ کلام کرتا ہے تو حسین طریقے سے، نماز پڑھتا ہے تو حسین اسلوب میں، صبر کرتا ہے تو حسین پیرائے میں، بحث کرتا ہے تو خوبصورتی کے ساتھ۔ ایمان چونکہ ایک ان دیکھی چیز ہے اس لیے بعض لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ایمان کا معیار ہی زندگی، انسان اور اس کے مرتبے کا معیار ہے۔ جس طرح غذا کے بارے میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے کہ جیسی انسان کی غذا ہوتی ہے ویسا ہی اس کا جسم اور اس کی صحت ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسا جس شخص کا ایمان ہوتا ہے ویسا ہی اسے اللہ تعالی کا قرب نصیب ہوتا ہے، ویسے ہی اس کے مقامات ہوتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ نمرود کی آگ کے گلزار بن جانے کا اصل سبب دراصل حضرت ابراہیم کا ایمان تھا ،اور اگر آج بھی دنیا میں ایسا ایمان پیدا ہوجائے تو آگ کے گلزار بن جانے کا معجزہ دنیا ایک بار پھر ملا خطہ کرسکتی ہے۔ حضرت ابراہیم کے ایمان کے معیار کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہیں جب آگ میں ڈالا جارہا تھا تو حضرت جبریل ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کروں۔ حضرت ابراہیم کو معلوم تھا کہ حضرت جبریل کچھ کہتے ہیں تو خود نہیں کہتے، اللہ کے حکم سے کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ مجھے کیا درکار ہے۔ صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ صحابہ کرام میں صدیقین تو بہت تھے مگر حضرت ابوبکر صدیقِ اکبر تھے اور اس کی وجہ حضرت ابوبکر کے ایمان کا معیار تھا، اس کی بلندی تھی۔ اس کی دو مثالیں اہم ترین ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے شام کے وقت حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لے جا کر انہیں وحی کے نزول کا واقعہ سنایا۔ حضرت ابوبکر نے واقعہ سنا اور کوئی سوال یا استفسار کیے بغیر آپ کے نبی ہونے کی گواہی دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے تشریف لائے تو حضرت ابوبکر کو معراج کے بارے میں بتایا۔ آپ نے سنتے ہی معراج کی تصدیق کی، اور بعض روایات میں آیا ہے کہ اسی تصدیق کے سبب آپ کو صدیق کا خطاب عطا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے والے اور آپ کی معراج کو تسلیم کرنے والے بہت تھے مگر حضرت ابوبکر کا اسلوب سب سے جدا تھا اور اس میں یقین کی کامل ترین صورت موجود تھی۔ صحابہ کرام میں بدری صحابہ کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ اس کی وجہ بھی ایمان ہے۔ مسلمانوں اور کفار کی عسکری قوت میں زمین آسمان کا فرق تھا اور صحابہ کرام ایمان کی قوت کے بغیر میدانِ بدر میں لڑنا تو دور کی بات ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ چونکہ اس معرکے میں اصل چیز اہلِ ایمان کے ایمان کا امتحان تھا اس لیے جنگ میں فتح کی بشارت میدانِ کارزار میں پہنچنے کے بعد آئی، ورنہ اللہ تعالی چاہتے تو یہ بشارت صحابہ کرام کو گھروں سے روانہ ہونے کے وقت بھی عطا کرسکتے تھے۔ معرکہ بدر کے اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک شاعر نے کہا ہے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مطلب یہ کہ حضرت ابراہیم اور بدر کا تجربہ کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں۔ مسلمان جب بھی ایمان میں کمال پیدا کریں گے معجزات ضرور رونما ہوں گے۔ ایمان کی اسی اہمیت کے پیش نظر اقبال نے کہا ہے
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکت ایماں کی تفسیریں
یعنی اللہ تعالی کسی انسان کو اپنا ولی یا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ کسی کو اقتدار عطا کرتا ہے تو ایمان کی بنیاد پر۔ اور کسی کو اشیا پہ تصرف عطا کرتا ہے تو ایمان کے حوالے سے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایمان سے متعلق معاملات بڑے لوگوں کے معاملات ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ ایمان ہے جو چھوٹے کو بڑا بناتا ہے۔ حضرت بلال ایک حبشی غلام تھے، لیکن ان کے ایمان نے انہیں مذنِ رسول بنادیا۔ حضرت عمر جیسی جلیل القدر ہستی جب حضرت بلال کو پکارتی تو انہیں صرف بلال کہہ کر نہیں بلکہ سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرتی تھی۔ حضرت بلال کے ایمان ہی کا معجزہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں حضرت بلال کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ قرآن مجید کے قصائص میں سے ایک قصہ اصحابِ کہف کا ہے۔ اصحابِ کہف میں سے کوئی نبی نہیں تھا، نہ ہی ان پر ان کی ولایت آشکار تھی، مگر ان کے ایمان نے ان کی زندگی کو ایک معجزے اور ہمیشہ زندہ رہنے والے قصے میں تبدیل کردیا، یہاں تک کہ ان کا کتا بھی ایک طرح کے شرف سے ہمکنار ہوگیا۔ ہماری روایت میں شہادت کا مرتبہ اس لیے بلند ہے کہ شہادت اپنی اصل میں ایک شعوری عمل ہے اور کوئی شخص ایمان کی ایک مخصوص سطح کو چھوئے بغیر اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذارنہ پیش نہیں کرسکتا۔
ایمان کوئی جامد چیز نہیں۔ یہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ بعض صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم تو منافق ہوگئے۔ آپ نے دریافت کیا: کیوں منافقت ہوگئے؟ کہنے لگے: ہم آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں تو ہمیں جنت اور دوزخ سامنے نظر آرہی ہوتی ہیں، مگر جب آپ کی مجلس میں نہیں ہوتے تو ہماری یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایمان کی علامت ہے۔ اگر میری مجلس سے اٹھ کر بھی تمہاری وہی کیفیت رہے جو مجلس میں ہوتی ہے تو تم فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھو یا یہ کہ فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔
لیکن ایمان کیسے بڑھتا اور کیسے کم ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی محبت اور نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے، اور اللہ اور اس کے دین کی محبت میں کمی اور گناہوں سے ایمان کمزور پڑتا ہے۔ ایمان کے اس فرق کو ظاہر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
لیکن ملا کی اذان مجاہد کی اذان سے کیوں مختلف ہے؟ اور ہم مجاہد کے ایمان کی بلندی اور ملا کے ایمان کی پستی کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ مجاہد کے لیے اذان کے الفاظ حال ہیں، اور ملا کے لیے اذان کے الفاظ صرف قال ہیں۔