تحریر فاطمہ فلک
ناروے میں اس وقت پینتیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی رہائش پذیر ہیں۔جب کہ دیگر مسلم ممالک جن میں صومالیہ عراق مراکش،مصر انڈو نیشیا ء اور بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں کے افرد بھی رہ رے ہیں۔تاہم ایشیائی تارکین وطن گروپوں میں سماجی اور سیاسی طور پر پاکستانی کمیونٹی کے لوگ یہاں ذیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔پچھلی دہائی سے پاکستانی مسلمانوں میں اسلامی شعور کے ساتھ ساتھ ناروے میں عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ہر برس یہاں سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد فریضہء حج ادا کرنے جاتی ہے۔یہاں قربانی کے جانور خود خرید کر ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے پہلے سے مذبح خانوں میں بکنگ کروانی پڑتی ہے۔خود جانور ذبح کرنا یہاں جرم ہے۔تاہم پھر بھی ہر سال اکّا دکّایسے واقعات ہو جاتے ہیں جس میں کوئی مسلمان غیر قانونی طور پر کسی فارم پر جانور ذبح کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔
قربانی کے لیے تمام شہروں میں مسلمان مسلم آرگنائیزیشن یا انفرادی طور پر قربانی کے جانور کی بکنگ کروائی جاتی ہے۔آرگنائیزیشن کا ایک نمائندہ مذبح خانے میں جا کر اپنے سامنے جانور ذبح کرواتا ہے اسلامی طریقے سے اور ہر شخص کے نام کا لفافہ لے کر اس میں قربانی کا صف شدہ گوشت پیک کروا دیتا ہے۔یہ گوشت عید کے تیسرے چوتھے روز تک متعلقہ افراد کے گھروں میں بھجوا دیا جاتا ہے۔گوشت پیک کرنے کے بعد سرد خانے میں رکھا جاتا ہے۔تاہم اس گوشت میں سری پائے دل کلیجی اور گردے شامل نہیں ہوتے۔ان اعضاء کو یا تو حکام تلف کر دیتے ہیں یا دوکاندار خرید کر بعد میں پیک کر کے بیچتے ہیں۔قربانی کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ گوشت عام گوشت سے لذت میں بہت ذیادہ ہوتا ہے۔
پہلے لوگ پاکستان میں قربانی کے گوشت کے لیے اپنے عزیز و اقارب کو رقم بھجوا دیا کرتے تھے اور یہاں قربانی نہیں کرتے تھے۔اب مساجد اور اسلام سے واقفیت کی وجہ سے لوگ یہاں بھی قربانی کرنے لگے یں۔تاہم اس میں اسلامی آرگنائیزیشنوں نے بھی اسلامی شعور بیدار کرنے میںاہم کردار ادا کیا ہے۔
اس بارے میں اگر قارئین کوئی رائے یا معلومات دینا چاہتے ہیں یا کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو نیچے دیے گئے اکائونٹ میں لکھیں یا اس ای میل پر لکھیں۔