انٹرویو نمائندہ اردو فلک ڈاٹ کام
urdufalak.com
ناروے
چوہدری محمد خالد کھٹانہ ناروے کے صنعتی شہر موس کی ایک کاروباری شخصیت کے طور سے پہچانے جاتے ہیں۔محمد خالد کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ وہ ایک علم دوست انسان ہیںاس بات کا ثبوت انہوں نے اردو کتاب تخلیق کر کے دیا ہے۔ انہوں نے اردو زبان کے قوائد پر کتاب لکھ کر پاکستانی کمیونٹی کی گرانقدر خدمت کی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی کمیونٹی اس سے کس طرح فائدہ اٹھاتی ہے۔کتاب تخلیق کرنے اور اسکی افادیت کے حوالے سے کئی سوالات سر ابھار رہے تھے۔ ان سوالات کے جوابات سے جو سیر حاصل معلومات حاصل ہوئیں وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
تعارف
میںڈگری کالج جہلم سے 1972 میں فارغ ہوکر1973 میں ناروے آگیا. ٹیکنیکل ٹرینگ کے بعد 16 سال تک مِلنگ کے شعبہ میں اچھے عہدہ پر کام کیا . 1990
کے بعد بزنس شروع کیا، جس میں پاکستان سے ٹیکسٹائل کو ناروے میں متعارف کروایا. پاکستان سے شالیمار برانڈ کا اعلیٰ باسمتی چاول متعارف کروایا. شالیمار کے نام سے
موس شہر میں پاکستانی فیملی ریستورنٹ بھی کر رہے ہیں.
کتاب لکھنا درحقیقت ایک حادثہ اور ایک معجزہ ہے. مجھے چند دنوں کے لیے وقتی طور پر چھوٹے بچوں کو اُردو پڑھانے کا موقع ملا، جس دوران مجھے احساس ہوا کہ اردو اور اس سے متعلقہ زبانوں جیسے پنجابی، سندھی،بلوچی، پشتو ، فارسی لکھائی کے لحاظ سے دنیا کی مشکل ترین زبانیں ہیں اور لاتعداد بنیادی اصول جو الفاظ کی بناوٹ میں استعمال ہوتے ہیں وہ تدریسی کتابوں میں مکمل طور پر ناپید ہیں. یہ اصول ان زبانوں کی تخلیق کے ارتقائی دور میں ہی سپرد خاک کردئیے گئے، میں نے اِن بنیادی اصولوں کو دوبارہ تلاش کر کے ان زبانوں کی لکھائی کو چند ہفتوں میں سیکھنے اور سکھانے کی سعی کی ہے.
یہ عام اردو گرائمر کی کتاب نہیں ہے. اردو گرائمر میں وقت کے لحاظ سے جملوں کی ترتیب اور اصول بیان کئے جاتے ہیں. میں نے ایک لفظ کی بناوٹ کے لیے جو اصول درکار ہیں وہ تحریرکیے ہیں. اسے آپ ایک لفظ کی گرائمر کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زبانوں کے الفاظ کن اصولوں کے تحت بنائے جاتے ہیں. ہر لفظ کی بناوٹ اور شکل کے لیے استعمال ہونے والے تمام اصول وضح کیے ہیں جن کی مدد سے اساتذہ اور والدین بچوں کو بہت کم وقت میں اردو اور اس سے متعلقہ حروفِ تہجی کی زبانوں کو پڑھنے اور لکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں. اِ س کی ضرورت اور اہمیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ناروے اور یورپ میں رہنے والے پاکستانی بچوں میں سے 5%سے کم بچے اردو زبان لکھ پڑھ سکتے ہیں اور اس وجہ سے ان کا رابطہ اپنی ثقافت سے کم ہوتا جا رہا ہے. آپ نے اردو ادب کی بات ہے تو گذارش کرنگا کہ جب اردو لکھ پڑھ ہی نہیں سکیں گے تو اردو ادب کی خدمت کیسے کریں گے؟ پاکستان میں بھی تعلیم اور مادری زبان کی لکھائی اور پڑھائی کا بہت بڑا مسئلہ ہے. پاکستان کے بے شمار اضلاع میں شرح خواندگی اس سال بھی 50%سے کم ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ مادری زبان کی لکھائی کا مشکل ہونا ہے . کمپیوٹر اور سیل فون پر رومن اردو کے استعمال نے اردو اور اس سے متعلقہ زبانوں کے حصول کو طلباء سے مزیددور کر دیا ہے.
ناروے میں اردو کتابت اور ڈیزائینگ کی سہولت موجود نہیں. مجھے اس سلسلہ میں 2010 میںپاکستان جانا پڑا اور وہاں کے ڈیزائینر اور پرنٹر سے کام مکمل کروایا.پاکستان میں عطاالحق قاسمی صاحب کی زیرِ نگرانی 8 ماہرِ تعلیم سے بھی اِ س کتاب پر ریسرچ کروائی جن میں محمد جمیل نجم تمغہِ امتیاز ، سابقہ ڈائریکٹر ایلیمنٹری ایجوکیشن پنجاب شامل ہیں. آخری بار کتاب کی ترتیب مارچ 2013میں مکمل ہوئی ہے اوراب شالیمار پبلیشر موس نے کاپی رائٹس خرید کر مارکیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.
کتاب کی ترتیب میں بے شمار ماہر تعلیم نے حصہ لیاہے. ابتدائی کلاسز، تعلیمِ بالغاں اور خاص کر یورپ اور سکنڈے نیویا میں رہنے والے بچوں کے لیے نہایت اہم اور مفید ثابت ہوگی. خاص کر جن بچوں نے کالج میں اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھا ہے.
ناروے میں اردو زبان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ناروے میںہمارے بچوں کی مادری زبان اردو اور پنجابی ہے۔ اکثریت بچے اپنی مادری زبان بول تو لیتے ہیں لیکن لکھ پڑھ نہیں سکتے. بہت تھوڑی سی محنت سے یہ بچے اپنی مادی زبانیں لکھنے پڑھنے کے قابل بن سکتے ہیں. یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بچوں کو جتنی زبانوں پر زیادہ عبور حاصل ہوگا ، ان کے پاس علم بھی اتنا ہی وسیع ہوگا.اس لیے ہمارے بچوں کا نارویجین زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو سیکھنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ ان کے علم کے اثاثے میں گراں قدر اضافہ ہوگا.
ناروے میں اردو زبان بولنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور اس لحاظ سے اردو زبان کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے. پاکستان بھی انشااللہ عنقریب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آنے والا ہے جہاں یورپ میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے ترقی کے راستے موجود ہیں. Telenor Pakistan کی مثال آپ کے سامنے ہے.
ناروے میں اردو زبان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے محمد خالد نے بتایا کہ اردو زبان کو اب ناروے کے کالجز میں اختیاری زبان کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے. ہمارے پاس ایک بیش بہا ادبی خزانہ موجود ہے ، نوجوان نسل کو اردو زبان سے محروم رکھنا ان کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی ہوگی.پاکستان کی ثقافت کے ساتھ رابطہ کا انحصار اردو زبان ترویج اور ترقی کے ساتھ وابسطہ ہے. اگر اردو زبان کو فروغ نہ دیا گیا تو مجھے ڈر ہے کہ ہماری آئیندہ نسلیں صرف ناریجین زبان اور یورپین زبانوں تک محدود رہ جائیں گی. اِس کی زندہ مثالیں برطانیہ میں موجود ہیں. ناروے میں بھی والدین کی لاپرواہی سے کئی گھرانے بچوں کے ساتھ صرف نارویجین زبان میں رابطہ اور بات چیت کر سکتے ہیں اور یہ با ت ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی اورسوچنے کا مقام ہے. سکولوں میں اردو زبان کے فقدان نے ایک بہت بڑا خلاء پیدا کر دیا ہے جسے ہم مِل جل دور کر سکتے ہیں. اس سال ستمبر سے اوسلو میں اردو زبان کے لیے Søndag Skole کا اہتمام کر رہا ہوں ، اردو زبان سیکھنے والوں کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کو شش کریں.
شاعری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھی کوئی شعر وقت کی مناسبت سے لکھ دیتا ہوں.
اردو ویب سائیٹس کی اہمیت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے خالد محمود نے بتایا کہ ویب سائیٹس کا عمل دخل آج کے کمپیوٹر دور میں انتہائی اہم ہے. اردو زبان کی بحالی، ترویج اور فروغ کے لیے تلقین کرنا اور اس کی اہمیت کو باور کروانا کوئی آسان کام نہیں. عام لوگوں کے دلوں میں اردو ادب سے لگاؤ پیدا کرنا ، ادب ، نثر ، شعرو شاعری غرض اردو لٹریچر کی خدمت یقینا قومی خدمت کے زمرہ میں شامل ہے.
اردوکی ترویج میں ٹی وی چینلز کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز بھی اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن صرف زبانی بولنے اور سننے کی حد تک. کاش ٹی وی چینلز کو بھی اردو زبان کی تعلیم اور تدریس کے بھی استعمال کیا جاتا. انتہائی سستا اور اہم تدریسی میڈیم ثابت ہو سکتا ہے. خا ص کر پاکستان کے اندر پاکستانی عوام کی تعلیم کے لیے بہترین سکول ثابت ہو سکتے ہیں لیکن کوئی اس طرف توجہ نہیں دے رہا.
.13 ناروے میں بچوں کو اردو زبان پڑھانے کے لیے مساجد اور پرائیوٹ سکول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں. مساجد میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تعلیم بھی ممکن ہے. والدین اور مساجد کی تنظیمیں آپس میں تعاون کریں. میں نے اِ س سلسلہ میں مساجد سے رجوع بھی کیا ہے اور کافی مثبت تعاون ملا ہے. Søndag Skole
اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے.
یورپمیں کتابیں پرھنے کے جحان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اِ سلامی تعلیمات اور اردو ادب کے بیش بہا خزانے کتابی شکل میں موجود ہیں اور ہم سب کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرنا چائیے. لائیبریوں میں اردو کتابوں کی تعداد میں اضافہ کروانا چاہیے. سستی اور معیاری کتابوں کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے. یورپ میں عام آدمی کی زندگی زیادہ مصروف ہوتی ہے لیکن فارغ اوقات میں اردو کی کتاب کو پڑھنا ایک اچھی ذہنی تفریح کا سبب بن سکتا ہے.
ایک اچھے مصنف کی خوبیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک اچھے مصنف کا اپنے موضوع پر ریسرچ کرکے مکمل عبور حاصل کرنا نہایت اہم ہے. اپنے موضوع کے ساتھ غیر جانبدارانہ انصاف یقینا اس کی تصنیف کو جلا بخشے گا. تخلیق کار ہونا ایک خداداد صلاحیت ہے ، مصنف اپنی تصنیف کو محنت اور کاوش سے چار چاند لگا سکتا ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ اردو ویب سائٹس کے مسقبل کا دارومدار پاکستانیوں کو اردو زبان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لگاؤ پر منحصر ہے. نیز یہ بھی کہ ویب سائٹس کیسی پردکٹس پیش کرتی ہیں. اردو ادب کی خدمت کے حوالے سے ان ویب سائٹس پر معیاری کتابوں کو پڑھنے کے لیے پیش کیا جائے. اب تو اچھی کتابیں ویب سائیٹس پر دستیاب ہیں. شعرو شاعری میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تمام بڑے شعرا کے مجموعے پیش کیے جائیں. نثر کی کتابیں بھی ان ویب سائٹس پر پیش کی جائیں.
اردو کے فروغ اور اردو پڑھنے والوں کے لیے اردو ویب سائٹس ایک اہم رول ادا کر سکتی ہیں. ناروے کے حوالے سے اردو فلک ڈاٹ کا م ایک اچھی ویب سائیٹس سامنے آئی ہے . ناروے اور یورپ میں رہنے والے قارئین کو چائیے کہ وہ اس ویب سائیٹس کا ساتھ دے کر اردو زبان کی خدمت کریں.
آسان اردو قائدہ کی فروخت کے لیے شالیمار پبلشرز نے مارکیٹنگ کا جامع لائحہ عمل تیار کیا ہے . ناروے اور یورپ کے حوالے سے بھی اور پاکستان کے حوالے سے پاکستان گورنمنٹ کے ساتھ مل کر تمام صوبوں کے لیے کوشش کر رہے ہیں. ناروے اور یورپ میں اگست سے کام شروع کردیا جائیگا.
موس میں کتاب کی نقاب کشائی سیّد نعمت علی شاہ صاحب ، امیرِ اعظم جماعت اہلِ سنت اور اوسلو میں سفیرِ پاکستان اشتیاق حسین انداربی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے فرمائی. سیّد نعمت علی شاہ صاحب نے کتاب پر مکمل ریسرچ کر تے ہوئے اسے اُمت ِمسلمہ کی تعلیم کے لیے ایک اہم پیش رفت اور نئی نوید کا نام دیا .
کاروباری مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شالیمار ریسٹورنٹ میرا اپنا ذاتی خرید ہوا ایک فیملی ریسٹورنٹ ہے اور کتاب کی خریداری کے لیے یہاں رابطہ کیا جا سکتا ہے.
آخر میں ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کے نام پیغام میں انہوں نے کہا کہ ناروے میں اردو زبان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستان کی ترقی اور امن میں بھی بھر پور حصہ لینا چاہیے. نارویجین معاشرہ سے فلاحی ریاست کی جو عمدہ خوبیاں ہم نے اپنے قیام کے دوران سیکھی ہیں انہیں پاکستانی قوم تک پہنچانا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے. جیسیملازمت پیشہ افراد کی کم از کم اجرت کا تعین اور ٹیکس کانظام جس کی مدد سے ناروے میں کرپشن اور رشوت ناپید ہیں اور نہ ہونے کے برابر ہیں. تعلیم عام ہے، ہر ایک کوعلاج معالجہ کی فری سہولت میسر ہے. ہر فرد اپنے حقوق سے با خبر ہے . یہ سب علم کی بدولت ممکن ہوا. زمانہ جہالت میں یہاں بھی بد امنی اور قتل و غارت عام تھی. دنیا میں صرف اور صرف علم سے ہی اچھے اور باعمل شہری ممکن ہیں.
علم سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
چوہدری محمد خالد کھٹانہ