احمد حاطب صدیقی
کل ہمارے ایک دوست کہیں سے ایک نیا نیا محاورہ پکڑکر آگئے اور آتے ہی اسے کبوتر کی طرح ہم پرچھوڑا:
پلے نہیں پائی امریکا سے لڑائی؟
ہم نے پھڑپھڑاکر انھیں تحسین بھری نظروں سے دیکھا اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
اے عزیز! تم تو کوئی بہت بڑے سیکولر امریکی دانشور ہوگئے ہو!
ایک حسرت بھری آہ کھینچ کر بولے:
ارے ے ے! اپنی ایسی قسمت کہاں؟اپنا شغل تو بس اتنا ہے کہ جو سنی وہ سنائی۔ کہیں لگائی۔ کہیں بجھائیاور اِس شغل کے نتیجہ میں کسی سے ہاتھا،کسی سے پائی!
ان کی یہ حالتِ زار دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اورعرض کیا:
عزیزم! تمھارے اِس محاورے میںبہت سے سقم یعنی اسقام ہیں!
ہاتھ جوڑ کر بولے: غریب آدمی ہوں۔ مال دار نہیں، عیال دار ہوں۔چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔مقتدرہ قومی زبان کی قومی اردو لغت خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ خدا کے واسطے آسان اردو میں بات کرو۔
آسان اردو میں بتایا:
انسان لڑائی کے لیے کسی پائی کا محتاج نہیں ہوتا۔بعض اوقات لڑائی پر اترتا اسی وقت ہے جب پائی پائی کا محتاج ہوچکا ہو۔ مشہور محاورہ ہے: تنگ آمد، بجنگ آمد۔گویا جنگ کے لیے تنگ آجانا کافی ہوتا ہے۔پس لڑائی ہمیشہ بے پائی کے ہوتی ہے۔ تم ہی کہو کہ کیا کسی سے ہاتھا پائی کے لیے کبھی تمھیں ایک پائی کی بھی ضرورت پڑی؟امریکی استعمار سے لڑنے کے لیے کیا ہمارے پاس چار پائیاں بھی نہیں؟ میاں! انسان کافیصلہ لڑتا ہے۔ اس کا غصہ لڑتا ہے۔ اس کی غیرت لڑتی ہے۔ اس کا جذبہ لڑتا ہے۔ اس کی پائی نہیں لڑتی۔ہاں ایک بار ایک تانبے کی پائی پر دو یہودیوں کی لڑائی ہوگئی تو تانبے کا تار ایجاد ہوگیا۔ گویا پائی پرلڑائی تو ہوسکتی ہے، مگر پائی خود لڑائی بھڑائی نہیں کرسکتی۔ اقبال تو یہاں تک کہتا ہے کہ بے پائی ہی نہیںمومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہیاوراقبال یہ بھی کہتا ہے کہ:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
ہماری یہ طویل تقریر آنکھیں پھاڑکر ٹکرٹکر دیکھتے ہوئے سنتے رہے۔پھرپلکیں پٹ پٹا کر بولے:
بھائی! دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے لڑائی لڑنے کے لییچلو مان لیا کہ پلے یا پلومیں پائی ہونا ضروری نہیں لیکن کم ازکم اس کے ہم پلہ ہونا تو ضروری ہے نا؟
یہ بھی ضروری نہیں۔امریکا کو ویت نامیوں نے شکست دی۔ امریکا کو عراقیوں نے شکست دی۔ امریکا کو افغانیوں نے شکست دی۔ فتح اسے نصیب کہاںہوئی؟وہ جہاں گیا شکست ہی نے اس کے قدم وغیرہ چومے۔اوربھلا ان میں سے کون امریکا کے ہم پلہ تھا؟
مگران کا نقصان توبہت ہوا
امیر سے جنگ میں غریب کا کیا نقصان ؟ نقصان تو ہوتا ہی مال دار کا ہے۔ امریکا نے افغانیوںاورپاکستانی قبائلیوں پر ڈرون یا میزائیل مارا تو ان کے مٹی کے گھر ٹوٹ گئے،ان کی چارپائی تباہ ہوگئی۔جواباافغانیوں نے حملہ کرکے ان کے کروڑوں ڈالر کے جدید ترین اور نفیس ترین خودکار قیمتی ہتھیارتباہ کرنے شروع کردیے۔پھرامریکیوں نے احتیاطا اپنے پیچھے پیمپر باندھ لیے۔
ویت نامیوں، عراقیوں، افغانیوں اور پاکستانی قبائلیوں بلکہ پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کا بھی شدیدجانی نقصان تو ہوا نا؟
جان تو ہوتی ہی نقصان کے لیے ہے۔چلو! ہم نہیں لڑتے امریکا سے لڑائی۔ توکیا ہمارا جانی نقصان نہیںہوگا؟ کیاسلالہ چیک پوسٹ پر حملہ نہیں ہوگا؟ کیا ہنگو پر ڈرون نہیں مارے جائیں گے؟ اور صرف اس وجہ سے نہیں مارے جائیں گے کہ ہم امریکا سے لڑائی نہیںلڑ رہے ہیں؟ کیا باقی ڈرون حملے بھی بندہوجائیں گے؟اور سرتاج عزیز صاحب کی یقین دہانی کے احترام میں نہ سہی، اس بات کے احترام میں بند ہوجائیں گے کہ ہم امریکا سے لڑائی نہیںلڑ رہے ہیں؟کیا ہمارے قبائلی دیہات اور شہری تنصیبات پر ڈرون نہیں مارے جائیں گے؟ اور صرف اس وجہ سے نہیں مارے جائیں گے کہ ہم امریکا سے لڑائی نہیںلڑ رہے ہیں؟عزیزمن! جانی نقصان سے صرف بزدل ڈرتے ہیں۔ہم تو مرتے ہیں اس لیے کہ رہے زندہ نامِ عشق اور ہمارا ایمان ہے کہ ہم گھڑی بھر کے لیے مرکر ابد تک جینے آئے ہیں ایک بات اور یاد رکھو! موت ان کو بھی آتی ہے جو مرنے سے ڈرتے ہیں،بلکہ انھیں تو ایک بار نہیں باربار آتی ہے۔فیض نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اِس جان کی کوئی بات نہیں
فرمایا: اگرتم جدید محاورے سے الرجک ہوگئے ہوتو چلو ہم تمھیں ایک قدیم محاورہ سنا دیتے ہیں۔۔ سوت نہ کپاس جولاہے سے لٹھم لٹھا۔
عرض کیا: تم نے امریکا کو جولاہا قرار دے کر دنیابھرکے جولاہوں کی ہتک عزت کردی ہے،وہ اب تمھیں چھوڑیں گے نہیں۔ جولاہے تو انسانوں کو کپاس سے بنے ہوئے لباس فراہم کرتے ہیں، جب کہ امریکا انسانوں کو بے لباس کیے دے رہا ہے اور خود بھی ننگا ناچ رہا ہے۔ پھریہ بات بھی غلط ہے کہ ہمارے پاس سوت یا کپاس نہیں۔ ہمارے پاس توپوری اپٹما ”APTMA” موجودہیآل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ایٹم بم اور ایٹمی میزائیل موجودہیں۔ہمارا ملک بھی قیمتی خزانوں سے مالامال ہے۔کسی دولت کی کمی نہیںپیڑ،پہاڑ، سمندر،صحرا، جنگل دریاسب موجودکمی ہے تو ہمارے ہر طرح کے قائدین میںبہادری اور جراتِ ایمانی کی کمی ہے۔دیانت، بے غرضی، بے لوثی اور حب الوطنی کی کمی ہے۔دور اندیشی، بصیرت بلکہ بصارت کی بھی کمی ہے، جس کے باعث وہ اِس پاک سرزمین کے مخفی خزانے دیکھ نہیں پارہے ہیں۔ بقول سبطِ علی صبا:
ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں
دھرتی تو ازل سے ہے گنجینہ زر کھولے
زچ ہوکر کہنے لگے:گویا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمیں امریکا سے لڑمرنا چاہیے؟
مسکراتے ہوئے عرض کیا: نہیں! ہمیں تو امریکا سے نہیں لڑمرنا چاہیے۔ مگرامریکا کو ہم سے لڑ مرنا چاہیے۔ اسے حق حاصل ہے کہ وہ سات سمندر پار کرکے آئے، ہمارے سرپر سوار ہوجائے ، ہمارے بوٹوں سے ہمیں ہی مار مار کر الو بنائے ۔ اورہمارا ہر دانشوراٹھ اٹھ کر ہمیں یہ سمجھا ئے کہ:پلے نہیں پائی امریکا سے لڑائی؟ ارے! امریکاخود ہم سے لڑنے چلا آیا ہے ۔ ہم تو اس سے لڑنے کو سات ملکوں کی فوج لے کرامریکا نہیں پہنچ گئے کہ آو امریکا!لڑیں۔
اِس مرحلے پر ہمارے دوست کواچانک کوئی بہت ضروری کام یاد آگیا۔ کہنے لگے:
تمھیں سمجھانا تو بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ تم کبھی سمجھوگے ہی نہیں۔ تمھارا تعلق تو غیرت بریگیڈ سے ہے۔ تم لوگ اِس ملک کے بے غیرتوں کو بھی مرواکے چھوڑو گے۔آج ہمیں کئی کام نمٹانے تھے۔ ناحق تم سے متھا لگالیا۔ہٹو اب ہمیں جانے دوارے چھوڑو بھئی ہمارا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کیوںکر رہے ہو؟
ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑکرآہستگی سے پوچھا:
زندگی سے ڈرتے ہو؟ شیر کی ایک دن کی زندگی سے؟اوراِس زندگی سے بھاگ کرگیدڑ کی موت کی طرف دوڑتے ہو؟ خود ہی نہیںبھاگ رہے ہو دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بھگانے کی کوشش کررہے ہو؟(انھوں نے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کی تو ہم نے کسی قدربلنداورگرج دار آوازمیں کہا)ارے بھاگتے کہاںہو؟ زندگی سے مت بھاگو!ورنہ بھاگتے بھاگتے بالکل ہی بھگت سنگھ ہوجاوگے اورساری عمر یہی کہلاو گے ہاں نہیں تو اور کیا
!حمد حاطب صدیقی