وہ دس روپے

مظہر سلیم مجوکہ
ten rupees

کالج میں ہمارے ادبی گروپ کی جانب سے کوئی تقریب تھی۔ تقریب سے کچھ روز پہلے گروپ کے انچارج پروفیسر صاحب نے تمام لڑکوں سے کہاکہ وہ اپنے اپنے حصے کی رقم جلد از جلد جمع کرا دیں جو کہ10 روپے فی کس تھی۔رقم وصول کرنے کے لیے ایک دن متعین کر لیا گیا تھا۔ سب لڑکوں نے اس دن 10،10 روپے جمع کرا دیے۔ میرے پاس اس دن اتفاق سے کوئی پیسہ نہیں تھا اس لیے میں نے ایک ہم جماعت آصف سے 10 روپے ادھار لے کر جمع کرا دیے۔تقریب منعقد ہوئی۔انہی گہما گہمیوں میں دن گزرتے رہے یہاں تک کہ کالج کی سہانی زندگی سے رابطہ ختم ہو گیا۔سب دوست بچھڑ گئے۔مجھے اس اثنا میں اس دوست کو رقم لوٹانی بالکل یاد نہ رہی اور نہ ہی کبھی بھولے سے اس نے بھی کوئی تقاضا کیا تھا۔ میں بالکل بھول چکا تھا کہ میں نے کسی سے10 روپے ادھار لیے ہیںجن کو واپس کرنے کا میں اخلاقی طور پر پابند ہوں۔ کالج چھوڑے ہوئے قریبا ایک برس ہو گیا تھا۔ ایک دن میں ریلوے اسٹیشن گیا جہاں ایک دوست کو الوداع کرنا تھا۔ وہاں اچانک ایک شناسا چہرہ نظر آ گیا۔ جی ہاں یہ آصف تھا۔ وہی ہم جماعت جس سے میں نے کالج میں10 روپے ادھار لیے تھے۔ مجھ سے بڑے خلوص سے ملا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس کے ایک رشتہ دار آ رہے ہیں جن کو لینے وہ وہاں آیا تھا۔ کالج کی سہانی یادوں کا ذکر چھڑ گیا۔گاڑی کے آنے میں کچھ تاخیر تھی اس لیے ہم کافی دیر گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں اسی تقریب کا ذکر چھڑ گیااوراس تقریب کے حوالے سے مجھے وہ10 روپے یاد آگئے جو میں نے اس سے ادھار لیے تھے۔میری جیب میںاس وقت صرف5 روپے تھے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ فی الحال ان 10 روپے کا ذکر مناسب نہیں۔ میرے خیال میں وہ ان کو بالکل ہی بھول چکا تھا یا شاید مروتا تقاضانہیں کر رہا تھا۔میں نے سوچا کہ مناسب یہ ہے کہ اس سے اس کے گھر کا پتا معلوم کر لوں تا کہ وہاں جا کر اس کو رقم واپس لوٹا دوں گا۔اس سے میں نے اس کے گھر کا پتہ معلوم کر لیا تھا پھر کافی دن گزر گئے اور میں پھر بھول گیا کہ مجھے کسی کا ادھار واپس کرنا ہے۔ ایک دن میں کسی کام سے بازار سے گزر رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔مڑ کر دیکھا تو آصف تھا۔اب پھر مجھے ان 10 روپوں کا خیال آیا۔سب سے دکھ کی بات یہ تھی کہ میری جیب میں جتنی رقم تھی اور جو میں گھر سے لے کر آیا تھا۔ وہ میں نے خریداری میں صرف کر دی تھی اور چند روپے جیب میں باقی تھے۔میں خود کو مجرم محسوس کر رہا تھااور دل ہی دل میںشرمندہ ہو رہا تھا۔گو اس سے میں ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ آصف نے مجھے یاد دلایا تھا کہ میں نے اس کے گھر آنے کا وعدہ کیا تھااور میں نے اس سے پکا وعدہ کر لیا کہ عنقریب اس کے گھر آئوں گا۔ مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس کو وہ 10 روپے بالکل یاد نہیں رہے مگر میں پھر بھی خودکو مجرم محسوس کررہا تھا۔ اب یہ بات نہیں کہ میں اسے یہ پیسے لوٹانا نہیں چاہتا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ جب بھی اس سے ملاقات ہوتی تھی شومئی قسمت میری جیب میں اس وقت10روپے بھی نہ ہوتے تھے۔ پھر ایک دن وہ مجھے بازار میں مل گیا۔ وہ جلدی میں تھا۔ اس نے مجھے صرف یہ بتایا کہ اسے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔ جاتے جاتے اس نے پھر مجھے یاد دلایاکہ میں نے اس کے گھر آنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔مجھے اب اس بات کا مکمل یقین ہو چکا تھا کہ ان 10روپوں کی یاد اس کے ذہن سے بالکل محو ہو چکی ہے۔ اس لیے تو کبھی بھی اس نے اس کا ذکر نہیں کیا۔اس ملاقات کے چند ہی روز بعد ایک شب میں گھرپر لیٹا ریڈیو سن رہا تھا۔یونیورسٹی میگزین پروگرام آرہا تھا طلبہ اپنی نگارشات سنا رہے تھے۔اب آصف علی اپنا افسانہ10 روپےآپ کے سامنے پیش کریں گے آواز میرے کانوں سے ٹکرائی اور پھر آصف کی آواز میں نے فورا پہچان لی۔ یہ وہی آصف تھا جس سے میں نے 10روپے ادھار لیے تھے۔وہ افسانہ سنا رہا تھا اور میں خود کو زمین میں گڑتا محسوس کر رہا تھا۔ا س نے افسانے میں انہی 10 روپوں کو موضوع بنایا تھا جو اس نے مجھے ادھار دیے تھے۔ اس نے ان تمام ملاقاتوں کا اس میں ذکر کیا جو میری اور اس کی کالج چھوڑنے کے بعد ہوئی تھیں۔ میں افسانہ سنتا جارہا تھا اور خود کو مجرم محسوس کر رہا تھا۔میں تو اپنے خیال میں یہ سمجھ رہا تھا کہ آصف ان روپوں کو بھول چکا ہو گا مگر آج حقیقت کا فسانہ بنتے دیکھ کر مجھے بڑی تلخی اورغلطی کا احساس ہورہا تھا۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ صبح جا کر سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ وہ

روپے جا کر آصف کو دے آئوں گا۔ ٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں