ذات،پہچان اور جبر تک رسائی
محمد مظہرنیازی
”کائنات مٹھی میں ”خوبصورت نام،فکر انگیز شاعری اور ترنم ریزلفظوں کا مجموعہ ہے۔ذات سے کائنات تک کاسفرآسان نہیں۔کاردشوار بھی ہے اور جوئے شیر لانے کے مترادف ۔تھکا دینے والی مسافت،آبلہ پائی،جستجواورآرزو کے چراغ ہی اس سفر کی تکمیل کاسبب بنتے ہیں۔ایم زیڈ کنول نے یہ سفر تخلیق اور تخیل کے امتزاج سے بخوبی طے کیا ہے۔
یہ خوبصورت شاعری ذات کے دائرے سے نکلتی ہے اورپہچان کے انجان دروازے پہ دستک دیتی ہے۔
آئینہ خانے مجھ پہ آ برسے
خود کو پہچاننے میں نکلی تھی
خود کو تسخیر کرنے کے بعد ہی کائنات کے اسرارو رموز کسی کی مٹھی میں آتے ہیں۔اسی لئے تو ذات اورکائنات کاایک فطری تعلق اور رابطہ ہمیں اس بات کو سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کہ ذات کائنات کا حصہ ہے یا کائنات ذات کے لئے بنی ہے۔کسی دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کوسمجھا اور جانا جائے۔ یہ کار عظیم تخلیق کار ہی کرسکتے ہیں جن کو خالق نے تخلیق کے جذبے اور صلاحیت سے نوازاہوتا ہے۔
میں تو خودکو تھی ڈھونڈنے نکلی
آگئی کائنات مٹھی میں
کنول جب ذات کے حراسے نکل کر دور تک پھیلی ہوئی روشنیوں کے رازوں تک پہنچتی ہے تواسے زمیں سے آسماں تک جانے کا راستہ مل جاتا ہے۔یہ کاملیت کا راستہ ،راستے میں ہی نہیں مل جاتا۔اسے تلاشنے کے لئے کئی منازل کی ورق گردانی کرنی ہوتی ہے جو شاعرہ نے تخیل کی پروازسے کی ہے۔جب شاعرہ کی دوربیں آنکھ کائنات کے تمام رنگوں کو دیکھتی ہے،خوبصورتی کے اوراق پڑھتی ہے۔خوشبو کا تعاقب کرتی ہے تو یہ ہواکے دوش پرسفر کرتی خوشبو اسے زمین کے دکھوں اور روح کی پیاس تک لے جاتی ہے۔ روح کی پیاس اور زمین کادکھ آپس میں یوں ملتے ہیں کہ شاعرہ کا وجدان وسیع تر امکان میں بدل جاتا ہے۔یہ وجدان اورامکان اسے مکاں اور لا مکاں کے درمیان کی فصیلوں کو پار کرنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ میراعشق ہے جو کر رہا تلاوت تھا
سحاب رات میں لکھ لکھ کے اسم نورانی
اسم اور جسم کی وحدت سے امکان اورایقان کے در کھلتے ہیں۔بصارت،بصیرت سے مل کر نورافشانی کرتی ہے۔فکر وشعورکا کنارادوسرے کنارے سے مل کر درمیانی فاصلوں کومٹادیتا ہے۔
شکستہ پائی میری روح کا بنی زیور
سسکتی ریت نے صحراکی خاک چھانی نئی
۔۔۔۔
یہ کون درد کے دریا کے پاراترا ہے
ہوئی ہے خاک بسر کس کی حکمرانی نئی
کنول نے اپنی شاعری کوزمیںاور زمین زادوں کے درمیان ہونے والے تضادات وفسادات کو موضوع سخن بنا کرلمحہ ء موجود میںاپناحصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔اسکی فکر بھری شاعری سوزوگداز اوردردوالم کی تصویر کشی کرتی ہے۔زمیںپر ہونے والے انسانی جبراور گھٹن کو جس اندازسے پیش کیا ہے۔مثالی ہے۔
دہکتی آگ میں کندن ہوئے تو بول اٹھے
یزیدوقت کے آگے یہ محنتوںکے بدن
۔۔۔
چشم مشکیزہ میںچھپا لائی
لے کے اذن فرات مٹھی میں
۔۔۔
صبر مجھ کو پکارتا ہی رہا
جبر کے سامنے میں نکلی تھی
۔۔۔
ہوا کاراستہ مسدود کردو حکم شاہی ہے
گھٹن کی تتلیاں من میں بسانے کی اجازت ہے
۔۔۔
ہم نے اپنی بے بسی بھی دیکھ لی
جبر کی دریا دلی بھی دیکھ لی
۔۔۔
جبر کی کرب و بلا نے دی صلائے عام ہے
عشق کی شام غریباں کی ہوئی پھر شام
۔۔۔
ظلم کی آنکھوں میں ڈھلتے ہوئے سورج کا کلام
سنتے ہیں کوہ سماعت میں اتر آیا ہے
۔۔۔
آج اتنی جو کربلائیں ہیں
زندگانی تیری عطائیں ہیں
۔۔۔
زمین رونے لگی آسمان کانپ اٹھا
لہو لہان ہوئے ہیںصداقتوں کے بدن
مذکورہ اشعار اس بات کی غماضی کرتے ہیںکہ آج کاشاعر صرف خیالی دنیاآباد نہیں کرتااور نہ ہی خود کو کسی دائرے میں محدود کرتا ہے۔بلکہ اس کے وسعتوں کے امکانات کی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔وہ معاشرے کو آنکھ میں بسا کر نہ صرف آنسو بہاتا ہے۔بلکہ حالات کی بدحالی اوربے ترتیبی پر بین بھی کرتا ہے۔دکھ اسکی نظر میں لافانی ہے۔یہی تو امکانی جذبہ ہے جوتخلیق کار کی تخلیقی صلاحیت کو چارچاند لگاتا ہے۔اور اسے معتبر بناتا ہے۔ایم زیڈ کنول کی شاعری میں ذات سے سفر آغاز ہونے والا یہ حسیں جذبہ اسے کائنات کے درودیوار سے آگے لے جاتا ہے۔اڑان معمولی نہیں غیر معمولی ہے۔یہ آغازہی خوش انجام کاوسیلہ ہے۔میںاس سفر کی تکمیل پر شاعرہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ اسی طرح شعرکہتی رہیں اور ہم سر دھنتے رہیں۔