ناروے کے ایک اخبار آفتن پوستن میں اس بات پر تشویش کااظہار کیا گیا ہے کہ ناروے کی مقامی آبادی کی شرح پیدائش میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔جسکا مستقبل میں نارویجن قوم کو نتیجہ بھگتنا ہو گا۔ان کے مقابلے میں تارکین وطن کی شرح پیدائش میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔یہ اعدادو شمار تحقیق کار منیا کماریا نے بتائے ہیں۔
یہ مغربی دنیا کا دلچسپ پہلو ہے کہ ناروے میں آبادی کی صحیح شرح قائم رکھنے کے لیے ہر نارویجن عورت کو اوسطاً 2.1 کی شرح سے بچے پیدا کرنے چاہیں جبکہ یہ شرح 1.85 ہے۔اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ آبادی کی شرح کم ہو رہی ہے۔پچھلے نو برسوں میں نارویجن آبادی کے گروپ میں جن کے والدین بھی خالص نارویجن تھے 44000 افراد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔بیشتر مغربی ممالک میں مقامی افراد کی شرح پیدائش اوسط سے کم ہے۔تاہم ان حالات میں برطانیہ کا ملک نمبر لے گیا ہے۔وہاں کی شرح پیدائش مقامی افراد میں دو فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اٹلی،پرتگال اور پولینڈ کی شرح پیدائش خطرناک حد تک کم ہے۔اس کے نتیجے میں سن 2020 سے لے کر 2050 کے درمیانی عرصہ میں یہ شرح گھٹ کر 8.2 ملین سے لے کر 7.5 ملین تک گر جائے گی۔
اٹھارویں صدی میں جب ناروے میں قوم پرستی کی بنیاد پڑی یہاں کی آبادی صرف 900,000 تھی جو کہ اس کے بعد ٹھیک ایک صدی میں بڑھ کر دو ملین تک جا پہنچی آبادی کا یہ اضافہ اس قدر ذیادہ تھا کہ لوگوں کو امریکہ منتقل ہونا پڑا کیونکہ مقامی وسائل کم پڑ گئے تھے۔اس لیے آبادی میں کمی یا ذیادتی کو کنٹرول کرنا بیحد مشکل کام ہے۔