(اپنے ایک دوست خیال نواز کی دشنام طرازیوں پہ لکھا ایک افسانچہ )
از
راجہ محمد عتیق افسر
ارے یہ خیال کی دنیا بھی کیا ہی عجیب دنیا ہے یا پھر خیال دنیا کی کوئی عجیب مخلوق ہے ۔ کل میری خیال سے تکرار نہیں ہوئی ایسا لگا جیسے آج پانی کے تالاب میں کسی نے کنکر نہیں پھینکا۔لہریں نہیں اٹھیں ارتعاش نہیں پیدا ہوا ۔ہر جانب سکتہ کی کیفیت تھی کیا مجال کہ کوئی چڑیا ہی پر مار کر اس سکوت کو توڑ دیتی ۔ ماحول میں شاید کسی عفریت کی آمد ہوئی تھی جس کی دہشت سے چہار جانب ہراسیمگی کا راج تھا ۔لیکن یہ خیال کی دنیا کیونکر بدلی ہوئی تھی ؟یہ آج بے حس و حرکت کیوں تھا ۔اس کے سکوت نے آج تکرار کی فضا کو ہی معدوم کر ڈالا تھا ۔ بظاہر یہ مقام سکون و اطمینان تھا مگر یہ سکون تو اجنبی تھا شاید ۔ جسم کے ہر انگ میں درد محسوس ہونے لگا طبیعت بوجھل ہو گئی ۔یوں لگا جیسے کسی اجنبی غذا نے طبیعت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے ۔ حکیم بدپرہیز نے بتایا کہ معاملہ ایسا نہیں ہے اصل میں درد میرے سر میں ہے اور تمام جسم اسے محسوس کر رہا ہے ۔ دردِ سر کی وجہ یہ سامنے آئی کہ جسم کی طرح ذہن بھی کچھ چیزوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور میرا ذہن خیال کے تیر و نشتر کا عادی ہو چلا تھا اب کہاں یہ سکوں کی فضا ۔ جب تیر و نشتر میسر نہ آئے توذہن نے درد کا اظہار کیا اور یہ تکلیف جان سارے بدن میں محسوس ہوئی ۔ سکون کی تلاش میں تو آج ہر نفس ہی ہے لیکن جب یہ سکوں مجھے ملا تو معلوم ہوا کہ یہ تو درد دل کی دوا نہیں بلکہ خود ایک درد سر ہے ۔ اس میں بھی ایک راز مضمر ہے ۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں