بقراط کا برقی پیام آیا کہ “اجتما عی عیادت پر چلنا ہے….. جلد آیئے گا” – پیام پڑھتے ہی پیر بریک کے بجا ئے ایکسیلیٹر پر پڑ گیا ، ا ور ہم نے اشارہ توڑ کر گاڑی آگے بڑھا دی, کچھ دیر کے لئے سانسیں روک کر خیالوں میں شہر مہرباں جدہ جا پہنچے- زندگی میں جس نے اچھے اچھے اشاروں کو سمجھا ہو وہ بھی شہر جدہ میں سڑک کے اشاروں کا شکار ہو کر ایک نہ ایک بار قید خانہ ضرور پہنچا ہوگا – بڑے بڑے شرفا، امرا، رسا، نیک اور متقی حضرات کو اس ناکردہ گناہ کی سزا میں قید کی ہوا کھاتے دیکھا گیا ، اور خوشی خوشی بلا حجت و تکرار کھاتے دیکھا گیا .. کسقدر قانون کا پاس ہوتا تھا – بہ حالت مجبوری ہی سہی – دس پندرہ سال قبل ایسے ہی کچھ ہوتا تھا، آج کل پتہ نہیں کیا ہوتا ہوگا- شہر دبئی کا حال اس سے بھی برا تھا ، وہاں تو قید خا نہ میں ڈھکیل کر بھول جایا کرتے تھے ، کو ئی اندراج ہوتا نہیں تھا – اور اس پر طرا یہ کہ مختلف کہانیاں اور افواہیں بھی گردش کرتی تھی
شہر جدہ میں ٹرافک کے قانون کو یاد کر کچھ ایسے گھبرائے کہ بقراط کے پیام کو بھول کر اگلے اشارہ پر سبز روشنی پر گاڑی روک دی، ہارن کے شور و غل میں اوسان خطا ہوگئے – ایک سپا ہی کو اپنی طرف آتا دیکھا تو یاد آیا کہ ایسے میں تعظیما سینے پر ہاتھ رکھنے کا نسخہ شیفتہ نے بتا یا تھا – ہم گھبراہٹ میں ہاتھ رکھنے کے بجا ئے سینہ پکڑ بیٹھے – سپا ہی نے قریب آکر غور سے دیکھا اور ہمارے پسینے چھوٹتے دیکھ بڑ بڑانے لگا …… اس الکشن نے سب کو مجنوں کردیا ہے، کو ئی سر پکڑ رہا اور کو ئی سینہ …. اور وائیرلیس پر یہ کہہ کر ایمبولینس بلوا لی کہ پھر ایک ہارٹ یا برین فیل ہوگیا ہے – ہم نے سوچا چلو ترکیب کار گر ہو ئی – جدہ میں کبھی سجھا ئی نہیں دی ورنہ قید خانے سے بہتر ہوتا شفا خانہ کی ہوا کھانا –
ایمبولینس کے آتے ہی ہم ترچھی آنکھ سے رضا کاروں کی کاروایاں دیکھتے رہے….آخر کسی سنسان علاقہ میں ایک اجاڑ اسپتال کے سامنے ایمبولینس رکی….. اور اسٹریچر پر جب ہمیں لٹایا گیا تو آنکھوں کا ترچھا پن غائب اور آنکھیں پھٹی رہ گئی – دیکھا اسپتال کے باہر لکھا تھا “ذہنی امراض کا یہاں مفت علاج ہوتا ہے ” – اس سے پہلے کہ اٹھ کر بھاگتے دو قوی ہیکل ہاتھوں نے ہتھکڑی پہنا کر اسٹریچر کے بازووں میں قید کردیا – اس ترکیب خام پر ہم نے شیفتہ کو صلواتیں سنا ئی- وہ تو اچھا ہوا تہذیب جدیدہ کی شناخت ہتھیلیوں میں لئے پھرتے ہیں …. جیسے تیسے اپنے موبا ئیل پر چپکے سے اپنی حالت زار سے مطلع کر دیا – ابھی ہمارے داخلہ کی کاروا ئی چل ہی رہی تھے کہ شیفتہ اور بقراط کو اپنے سامنے مسکراتے پایا – شیفتہ اپنے شا عرا نہ حلیے میں تھے ، اورہمیں انہیں دیکھ کر یک گونہ تسکین ہو ئی کہ اہل علم و ادب کی گواہی اس معاشرہ میں آج بھی معتبر ہے ، ورنہ ہر ایک گلی میں ایسے اسپتال ہوتے – بقراط نے حیرت سے کہا ….حضور ہم نے اپنے برقی پیام میں اجتماعی عیادت کا ذکر کیا تھا، لیکن مقام و پتہ نہیں لکھا تھا….پھر آپ کیسے بلکل صحیح مقام پر پہنچے؟ اس حال میں کیوں اور کیسے؟ – اس سے پہلے کہ ہم اپنی زبان کھولتے…. ایک جلاد صفت سفید پوش نے ہمارے منہ پر ٹیپ چپکا دیا – ہمارے افکار سے نکلے ہزاروں الفاظ کی طاقت بھی ہمارا منہ نہ کھلوا سکی ….اور بے بسی سے ہم شیفتہ کی طرف دیکھتے رہے انہوں نے صبر کرنے کا اشارہ کیا ، اور بقراط نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیے………… پتہ نہیں کمبخت کا کیا مطلب تھا –
کچھ دیر بعد ہمارے اسٹریچر کو ڈکھیل کر آگے راہدا ری میں بڑھا دیا گیا اور دو مختلف شعبوں کے درمیان روک دیا گیا.. ایک پر لکھا تھا…… “بے ضرر پاگل” ہم نے گردن گھما ئی تو اسکے مقابل دوسرے شعبہ کے باہر لکھا تھا ” خطرناک پاگل” – ابھی پرسوں ہی ہم ایسے حالات سے پولنگ بوتھ سے گزر کر ووٹ ڈال آئے تھے – شیفتہ کی طرف ہم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر خوف سے آنکھیں بند کر لی، یہ سوچ کر کہ شیفتہ ہمارے سوال کو غلط نہ سمجھ لیں- دونوں ہی ترجیحات ہمارے لئے ناقابل قبول تھیں ، لیکن کیا کرتے – اس سے پہلے کہ وہ غلط سمجھتے، بقراط کی آواز کانوں میں سنائی دی – بھا ئی صاحب یہ خطرناک نہیں ہیں – ہم نے فورا آنکھیں کھولی یہ کہنے کے لئے کہ ہم بے ضرر بھی نہیں ہیں، بلکہ بھا ئی ہم پاگل ہی نہیں ہیں لیکن یاد آیا یہاں تو دستور زباں بندی ہے ….. چلو اچھا ہوا …… ورنہ بے ضرر کہنے پر بھی پاگل ہونے کا اطلاق تو ہوتا ہی تھا – پھر جو نگاہ اٹھی تو ایک بینچ پر چند مہذب، خوش لباس ، آسودہ حال، بنے سنورے ، شگفتہ اور بے تکلف حضرات کو بیٹھے بیٹھے ہنستے ہوئے پایا – ان کے سروں کے اوپر سے جھانکتی ایک تختی پر مختلف شعبوں کی سمت بتا ئی گئی تھی اور یہ فہرست نمایاں تھی ، دائیں بازو والے، بائیں بازو والے، بر سر اقتدار ، محتاج اقتدار، محب اقتدار ، قابل تخت دار ، دلدار سرمایہ دار ، بیدست و پا ، بے بال و پر، سیکولر، متحد، غیر متحد، وغیرہ وغیرہ – پتہ نہیں وہ سب آپس میں مل کر خوشیاں منا رہے تھے یا ایک دوسرے کے درد و الم پر طنزیہ ہنس رہے تھے – بقراط نے سفید پوش کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر شوشہ چھوڑا اور کہا کہ ….میرے بھا ئی، میرے دوست … آپ نے اچھا کیا ان سب قابل احترام ہستیوں کو یہاں جمع کیا…. ویسے یہ ہیں کون لوگ ؟ – بقراط کی ترکیب کام کر گئی سفید پوش نے ہنستے ہویے … ویسی ہی ہنسی جیسی بینچ پر بیٹھے حضرا ت ہنس رہے تھے … کہا …… یہ سب سیاسی جماعتوں کے ” اسپوک پرسن ہیں”، اور وہ جو تین دامن دریدہ ، زلف پریشاں بیٹھے ہیں جن میں ایک خاتون ہیں، و ہ آرنب گو سوامی کے ٹی وی پروگرام سے لا یے گئے ہیں – ایک پورا وا رڈ بھرا ہے ایسے حضرات سے، جگہ کی کمی کے باعث یہ یہاں بیٹھے – بقراط نے پوچھا کہ کیا اکبر صاحب بھی لایے گئے ہیں – سفید پوش کے چہرے پر پاگلوں کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ کہنے لگا – آپ پاگل ہو کیا؟…. با بر و اکبر و عالمگیر ہوتے تو ہم کو پاگل خانے میں رہنے کی کیا ضرورت ہوتی ….. اور نہ ہی یہ پاگل خانہ ہوتا ….. ہمیں وہ سفید پوش کچھ پاگل سا لگا – بقراط نے کہا …معاف کرنا ہمارا مطلب مشہور ایم جے اکبر سے تھا … اس سفید پوش نے اپنے ایک ہمزاد کی طرف اشارہ کیا اور کہا …. اس سے پوچھیے ….نیم پاگلوں کا وارڈ یہ ہی سنبھالتا ہے – اس کی طرف دیکھ کر ہمیں اپنے مغربی دوست یاد آگیے – وہ اکثر ایسے ہی کرداروں کا تذکرہ کیا کرتے تھے – اچا نک ایک خاتون ڈاکٹر کو آتے دیکھا اور شیفتہ کو بڑے ادب سے فرماتے سنا – دیکھیے مادام کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، محترم عالیہ …..ہم سب کا تعلق علم و ادب سے ہے … ہم بزم قلم سے وابستہ ہیں … خیا لی،غیر مادی بلکہ غیر مر ئی دنیا سے پیوستہ ہیں – ہم لوگ تو سماجی خدمت گار ہیں- یہ سنتے ہی اس خاتون نے اس دیو ہیکل سفید پوش کے کان میں کچھ کہا اور آگے چل دی ، اس خاتون کے چہرے کے تاثرات اور با قی تمام عملہ کے تاثرات یکساں تھے…جیسے پولنگ بوتھ پر بیٹھے مختلف سیاسی کارکنوں کے تھے – وہ سب اپنے افکار و عمل میں مختلف سہی لیکن تاثرات میں یکساں تھے – … اچا نک سفید پوش نے اشارہ سے نزدیک کھڑے اپنے دو ہمزادوں کو اشارہ کیا …..اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم تینوں کو بے ضرر پاگلوں کے وارڈ میں ڈھکیل دیا گیا- شیفتہ اور بقراط کے منہ پر ٹیپ نہیں لگا تھا اس لئے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گیے – اور آواز حلق میں ہی اٹک کر رہ گئی – لیکن وارڈ میں داخل ہوتے ہی ان دونوں کی تو چیخ نکل گئی اور ہماری آہ- سو دو سو کے قریب ہمشکل نظر آئے اور ہر کو ئی پی ایم ہونے کا دعوی کر رہا تھا – ہم نے شیفتہ کو کہتے سنا …….اماں اتنی کامیاب کلوننگ… کمال ہے … بقراط نے کہا حضور یہ سب مکھوٹے باز ہیں اور” اجرت زدہ” ہیں- ہمشکل حضرات نے ایک ساتھ کورس میں کہا … میں پی ایم ہوں ہم نے سوچا اب ہندوستان کا اللہ ہی حافظ ہے بلکہ دنیا کا …… شیفتہ نے پوچھا … اماں… اصل دعویدار کہاں ہے… سامنے کے خطرناک پاگلوں کے وارڈ سے آواز آئی … میں یہاں ہوں – بقراط نے پوچھا کیا ثبوت ہے ؟- اس نے نخوت سے کہا … تم سب کی یہاں موجودگی –