مشرف عالم ذوقی کی کتاب’ نفرت کے دنوں میں’

ڈاکٹر انوارالحق

فرقہ پرست سیاست پر ادب کا ضربِ کاری

Anwarul Haque

آج کی سیاسی فضا میں جو اتھل پتھل ہو رہی ہے اور جس طرح انسانوں کی لاشوں پر اقتدار کی روٹیاں سینکی جا رہی ہیں ، اور ہندوستانی قدروں کو فرقہ پرستی کا ناگ جس طرح نگلتا جا رہا ہے اس کا اثر ادب پر پڑنا فطری ہے۔ ذوقی کی کہانیوں میں فرقہ پرستی اور نفرت کے دلدل میں پھنستی جا رہی انسانیت کا درد بڑے نفسیاتی طور پر فنکارانہ انداز میں موجود ہے۔ ذوقی کے افسانوں کا تازہ ترین انتخاب ”نفرت کے دنوں میں” ایک ایسا افسانوی مجموعہ ہے جو ہندوستان کے موجودہ سیاسی صورتِ حال میں نفرت کی سیاسی بازی گری اور سیاست دانوں کی فرقہ پرستانہ ذہنیت سے نقاب اٹھاتاہے۔مختلف سیاستدانوں کی نفرت آمیز زہر آلود فضا آفرینی کے باعث گنگا جمنی تہذیب کو خطرہ لاحق ہے ۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کے متعلق لا علمی ہمارے ملک میں محبت اور اخوت کی فضا کو آلودہ کر سکتی ہے۔ مختلف سیاسی تنظیموں کی ریشہ دوانیوں سے محتاط رہنے میں ذوقی کے ناول اور کہانیاں بہت معاون ہیں۔ نفرت کے دنوں میں ایک ایسا افسانوی مجموعہ ہے جس میں ذوقی نے خو د اپنے انیس افسانوی مجموعوں کی بہترین کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔
کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، انتظار حسین، عصمت چغتائی اورقرةالعین حیدرکے بعد تکنیکی تنوع کے اعتبار سے ذوقی کی اہمیت مسلم ہے۔ اردو یا ہندی ادب کی دنیا میں اگر آج کے چند بڑے افسانہ نگاروں یا ناول نگاروں کا نام لیا جائے تو ان میں ایک بے حد اہم نام مشرف عالم ذوقی کا ہے۔ ذوقی کے قارئین اردو کے کسی بھی رسالے میں ان کا افسانہ سب سے پہلے تلاش کرتے ہیں اور انہیں مایوسی بھی کم ہی ہوتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ آج اردو کا ہر رسالہ ذوقی کے افسانوں کو شائع کر کے فخر محسوس کرتا ہے۔
حالیہ دنوں میںاردو ناولوں کی دنیا میں ‘لے سانس بھی آہستہ ‘ اور ‘آتشِ رفتہ کا سراغ ‘ نے کچھ اس انداز سے اپنا سکہ جمایا کہ قارئین کو یہ محسوس کرتے دیر نہ لگی کہ قرة العین حیدر کے آخری ناول چاندنی بیگم کے بعد اس معیار کے ناولوں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ذوقی نے اس معیار کو آج کے تقاضوں سے جوڑ کراور بلند کر دیا ہے۔ پرانے زمانے کے مقابلے آج کے فکشن کے سامنے چیلنجز زیادہ ہیں۔ آج کے قارئین کے سامنے ڈیجیٹل دنیا پورے آب و تاب سے ان کا دل بہلانے کے لیے موجود ہے۔ پھر بھی اگر کوئی ناول یا کہانیا ں پڑھتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ فکشن نگار قارئین کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی قارئین کے دلوں پر راج کرنے والا فکشن نگار ہے وہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ قارئین سے بلاواسطہ رشتہ قائم کرتا ہے وہ کسی بچولیے کا محتاج نہیں۔ قارئین کے تقاضوں کی وجہ سے ناقیدین اور پبلیشر زدونوں کی توجہ ذوقی پر مرکوز ہے۔ ادھر چند برسوں سے ذوقی کے افسانوی مجموعے منظرِ عام پر نہیں آر ہے تھے شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ان کی توجہ ناولوں پر زیادہ تھی۔
یہ کتاب ”نفرت کے دنوں میں” مشرف عالم ذوقی کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس میں ذوقی کے کل پچیس افسانے شامل ہیں۔ چونکہ ذوقی نے خود اپنی کہانیوںکا انتخاب کیا ہے اس لیے اس میں ان کے خود کے پسند کا بھی عمل دخل ہے۔ اس انتخاب میں ذوقی کی مشہور کہانی’ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ‘بھی شامل ہے جس کا یہ اقتباس میںخود سو بار سے زیادہ پڑھ چکا ہو ں اور اب بھی پڑھ کر اتنا ہی محظوظ ہوتا ہوں جتنا پہلی بار ہوا تھا:
”تم اس وقت بھی تھے ۔ موہن جودڑو کی تہذیب میں ۔ ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حُسین۔۔۔؟
وہ تارکول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی۔۔۔”میں بن رہی تھی شاید۔۔۔ہربار بننے کے عمل میں تھی ۔ عیسیٰ قبل کئی صدیاں پہلے یونان میں۔۔۔کبھی ‘پارتھنیان’ کے آدھے گھوڑے آدھے انسانی مجسمے کی صورت ۔۔۔۔کبھی وینس اور ‘اپالو’ کی پینٹنگ میں ۔۔۔کبھی لیونارڈودی ونچی کی مونالزا اور جن آفراکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈاور باچیوز میں ۔۔۔اورکبھی رافل ، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں۔۔۔۔” وہ کچھوے کی طرح پھدکی ۔ میرے پائوں کے انگوٹھے کو اپنے ہونٹوں میں بھرا۔۔۔پھر اچھل کر میرے پائوں کے انگوٹھے کو اپنے ہونٹوں میں بھرا۔۔۔۔پھر اچھل کر میرے پائوں کے بیچ و بیچ آکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
سچ کہنا ، مونا لزا کا صرف چہرہ مسکراتا تھا اور میرا جسم۔۔۔”
لیونارڈ دی ونچی نے تمہیں نہیں دیکھا تھا ۔ اس لیے وہ جسم کی ایسی مسکراہٹ سے واقف نہیں تھا۔ ”
یوں تو اس کتاب میں موجود تمام کہانیاں ادبی اعتبار سے بہت اچھی اور معیاری ہیں۔ کچھ کہانیاں دل کو چھو جاتی ہیں تو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ کچھ خارجی سیاسی حالات کو دکھاتی ہیں تو کچھ ذہن ودماغ کو جھکجھور کر رکھ دیتی ہیں۔ کچھ کا اپنا معنیاتی نظام ہے تو کچھ بالکل سادگی سے بھرپور کہانیاں ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے معرکتہ الآرا کہانیوں میں دادا اور پوتا، اصل واقعہ کی زیراکس کاپی، باپ اور بیٹا، انکوبیٹر، بوڑھے جاگ سکتے ہیں، نفرت کے دنوں میں ، نفسیاتی کہانیوں میںفزکس، کیمسٹری،الجبرا، فریج میں رکھی عورت، مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں، صدی کو الوداع کہتے ہوئے اور بھنور میں ایلس وغیرہ۔ دوسری کہانیاں بھی اچھی اور دل کو چھوجانے والی ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں ”دو بھیگے ہوئے لفظ ” کے عنوان سے ذوقی کے پیش لفظ کو بھی نیم افسانے کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
آج انتخابی ماحول میں ذوقی کی کہانی لیباریٹری کا اگر ذکر نا کیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی۔ گجرات فسادات کے زخم کو تازہ کردینے والی یہ کہانی آج کے گجرات کی ترقی کی پول کھولتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ دنیا ایک لیب ہے جس میں سارے ٹسٹ انسانوں پر کیے جاتے ہیں قسم قسم کے ٹسٹ ۔ مسلمانوں او ر اقلیتوں پر ظلم وزیادتی کے سارے تجربے کیے جاتے ہیں۔ وہ تجربے بھی جو ظلم وزیادتی کے روایتی تجربات تھے اور وہ بھی جو مفسدینِ دنیا کی نئی ایجادات ہیں۔ ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے ظلم و زیادتی کے ہر ستم کے موجد حضرات کے جبر و استبدال کی چیختی ہوئی یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں انسانی نفسیات کی گندی سے گندی مثالیں مل سکتی ہیں۔ ہند و پاک کے درمیان نفرت کی کہانی نفرت کے دنوں میں بھی ایک بے حد خوبصورت کہانی ہے۔ فن کے اعتبار سے، موضوع کے اعتبار سے دیکھیں یا آج کے relevence کے اعتبار سے ذوقی کی ہر کہانی کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
لیباریٹری میں گجرات فسادات کے خوں چکاں مناظر بڑی فن کاری کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ظلم و زیادتی کے جتنے طریقے انسانی سوچ میں سما سکتے ہیں وہ سارے کے سارے گجرات کے فسادات میں ایجاد کیے اور آزمائے گئے۔ اس کتاب میں موجود کہانیوں کو پڑھ کر آپ کے دل میں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے آج کے سیاست دانوں نے ہمارے ملک کو کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ کیا یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکام آزاد، سردار پٹیل، اور دیگر اکابرین وطن نے دیکھا تھا۔
نفرت کے دنوں میں ایک ایسی کتاب ہے جو آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر انسانی اقدار کیا ہوتے ہیں، شفاف سیاست کیسی ہونی چاہیے اور سب سے بڑی بات کہ موجودہ سیاست ہمیں کہاں لے جا رہی ہے۔
٭٭
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025

اپنا تبصرہ لکھیں