طیب اعجاز قریشی | اپریل-2014
میچ دیکھنے جب شیر بنگلہ اسٹیڈیم کے باہر پہنچے تو بنگلہ دیشیوں کو ہاتھوں میں سبز ہلالی پاکستانی پرچم لہراتے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا دیکھ کر
خوشگوار حیرت ہوئی۔ کئی خواتین بچے اور نوجوان اپنے چہروں پر پاکستانی جھنڈے برش سے پینٹ کرا رہے تھے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا پاک بھارت میچ اور وہ بھی ڈھاکہ میں ! ایک خاص اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ میچ سے قبل جمعہ کی نماز ہم نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک مسجد کی بالائی منزل پر ادا کی۔ مقامی نمازیوں کو پاکستانی ٹیم کی آمد کا علم تھا اسی لیے وہاں معمول سے کہیں زیادہ رش تھا اور وہ ٹیم کی ایک جھلک دیکھنے کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ پوری ٹیم کو اکٹھے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے دیکھ کر بہت اطمینان ہوا۔ جیسے ہی ہم ٹیم کے ہمراہ مسجد کے باہر پہنچے تو مقامی بنگلہ دیشیوں نے بڑے ادب اور احترام سے پاکستانی ٹیم اور وفد کے اراکین کے لیے راستہ بنایا اور ان سے ہاتھ ملائے۔ شیرِ بنگلہ اسٹیڈیم ڈھاکہ کے سٹی سینٹر سے 10کلو میٹر دور ہے۔
اسٹیڈیم میں 25000لوگوں کی گنجائش ہے۔ شروع میں یہ اسٹیڈیم فٹ بال کے لیے مختص تھا اور پھر 2004 میں کرکٹ بورڈ نے سنبھال لیا۔ 2005 میں پہلا اِنٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلا گیا اور پھر 2011 کا ورلڈکپ، بنگلہ دیش پریمیئرلیگ، ایشیا کپ اور اب ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ منعقد ہو رہا ہے۔ ڈھاکہ نے ان ایونٹس کے کامیاب انعقاد سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ نہ صرف میڈیا اور خبروں کے ذریعے پوری دنیا میں اس کا مثبت تاثر اجاگر ہوا ہے بلکہ شائقین کی آمد سے اس کی معیشت پر بھی اچھا اثر پڑا ہے۔
اسٹیڈیم کے اندر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اسٹیڈیم وقت سے پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا ہے۔ تماشائی ڈی جے کے مقامی میوزک پر ناچ رہے تھے اور کبھی بھارت اور کبھی پاکستان کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
دوسری اننگز میں جیسے جیسے پاکستان کی گرفت کمزور ہوتی گئی اسی طرح اسٹیڈیم خالی ہوتا گیا۔ ہمارے سمیت بہت سے تماشائی یک طرفہ میچ کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں کی بدن بولی میچ کے شروع سے لے کرآخر تک ایک شکست زدہ فوج کا حال سنا رہی تھی۔ پہلے بلے بازوں کا ٹک ٹک اور پھر بالرز کی کمزور بالنگ کے ساتھ ساتھ ناقص فیلڈنگ سے بھی تماشائیوں کے جذبات ماند پڑ چکے تھے۔ بھارت سے شکست کے بعد پاکستان۔ آسٹریلیا میچ، ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں واپس آنے کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔گو اسٹیڈیم محنت سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کا مقابلہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم یا کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم سے نہیں کیا جا سکتا۔
بڑی اسکرینوں کی عدم دستیابی، نہایت تکلیف دہ فائبر کی بنی کرسیاں اور پارکنگ کے لیے جگہ کا نہ ہونا بڑے مسائل میں سے چند ایک ہیں۔ 500 کی ٹکٹ 5ہزار تک میں بھی دستیاب نہیں تھی بنگالی کرکٹ کے دیوانے اور بڑے پرجوش ہیں اور بڑی تعداد میں میچ دیکھنے اسٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں۔
ہمارے دوست شفیق عباسی جو دنیا کا کونہ کونہ دیکھنے کا تہیہ کر چکے ہیں، نے جب مجھے فون کر کے پاکستان بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت دی تو میں نے پہلے اپنی مصروفیت کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا لیکن اگلے روز ان کے بھرپور اصرار پر میں انکار نہ کر سکا۔ انھوں نے تمام بندوبست کر لیا تھا۔ ڈھاکہ میں قیام ان کے دوست ڈاکٹرعاصم جو کہ پاکستانی ہیں، کے گھر پر تھا جو وہاں ادویات بنانے والی ایک معروف یورپین کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اپنے فرائض بڑی خوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ لاہور سے امرتسر براستہ واہگہ اور وہاں سے ایئر جیٹ کی فلائٹ سے دہلی اور پھرکچھ دیر بعد ایئر انڈیا کی فلائٹ سے ڈھاکہ ایک یادگار سفر ثابت ہوا۔ ڈھاکہ جانے کے لیے لاہور سے کوئی براہ راست فلائٹ نہیں اور کراچی سے بھی ہفتہ میں چند ہی فلائٹس آپریٹ ہو رہی ہیں۔جبکہ بنگلہ دیش کی بی مان ائیرلائین بھی پاکستان نہیں آتی۔
آج کے جدید دور میں جب دنیا ایک گاں کی صورت اختیار کر چکی ہے، ہمارے اور بنگلہ دیش کے درمیان فاصلے کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کراچی سے علی الصبح فلائٹ لینے کا مطلب یہ تھے کہ رات کراچی میں گزاری جائے جہاں سیٹیں ملنے کے چانس بھی کم ہی تھا۔ لہذا ڈھاکہ بذریعہ بھارت جانے کا فیصلہ ہوا۔ پاک بھارت کرکٹ میچ اور پھر بھارت اور بنگلہ دیش کی یاترا بھی، بیگمات کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔ سفر میں ہمارے ساتھ ہو لیں۔ صبح 10بجے واہگہ بارڈر سے امیگریشن کے مراحل سے گزر کر امرتسر پہنچے۔ انڈین امیگریشن کانٹر سے پہلے پولیو ویکسینیشن کانٹر پر موجود خاتون ہر آنے والے سے ویکسینیشن کے سرٹیفیکیٹ کا تقاضا کر رہی تھی اور بچوں کو قطرے پلا کر ہی امیگریشن کے مرحلے تک جانے کی اجازت تھی۔ دنیا میں پاکستان اور بھارت ایسے ملک ہیں جہاں مختلف وجوہات کی بنا پر پولیو کے متعدد کیس سامنے آچکے ہیں اور پوری دنیا اس وجہ سے پریشان ہے۔ اگر ہماری حکومتوں نے اس مسئلے کو فوری حل نہ کیا تو دنیا میں ہمارا سفر کرنا دشوار ہو جائے گا اور پابندیاں بڑھتی جائیں گی۔ ہم نے ناشتا امرتسر کے مشہور کلچوں اور چنوں سے کیا۔ تندور میں لگنے والے پراٹھے نما کلچوں میں آلو اور دال بھری ہوتی ہے اور گرم گرم کلچوں پر مکھن کی ایک ٹکی رکھی ہوتی ہے۔ ہم سب خصوصا خواتین کو یہ ناشتا اور لسی بہت لذیذ لگی۔ فلائٹ میں کچھ ہی وقت رہ گیا تھا لہذا سیدھے ایئر پورٹ روانہ ہو گئے۔
امرتسر نے پچھلے دس سالوں میں بہت ترقی کی ہے۔ مہنگی مہنگی امپورٹڈ گاڑیاں اور بڑے بڑے پلازے کثرت سے نظر آتے ہیں۔ زمین بھی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ میٹرو جیسے اسٹور کھل چکے ہیں۔ جب کہ چند سال پہلے امرتسر میں ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ امن و امان کی صورت حال بہت خراب تھی۔ معاشی ترقی بھی بھارت کے دوسرے علاقوں سے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ جس کی بنیادی وجہ سکھوں کی تحریک تھی۔ لیکن اب صورت حال بہت بہتر ہے۔ نئی نئی رہائشی اسکیمیں بن رہی ہیں اور خوبصورت گھر بھی تعمیر ہو رہے ہیں۔ بارڈر پر مسافروں اور کارگو دونوں کی آمدورفت بڑھتی جارہی ہے۔ جو دونوں ملکوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ بھارت نے ہماری زرعی اور دوسری اشیا پر بہت سی نان ٹیرف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے تجارت کا توازن بھارت کے حق میں ہے۔ اسی بنیاد پر ہمارے کسان بھی بھارت سے سبزیوں اور پھل کی مخالفت اور احتجاج کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ہمسائیوں میں اچھے تعلقات اور تجارت کے بغیر کوئی ملک ترقی کے خواب کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ پچاس منٹ کی اس ائیر جیٹ پرواز میں دوائیر ہوسٹسز مہمان نوازی بلکہ دکانداری کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ سوائے پانی کے ہر چیز فروخت کر رہی تھیں۔ جہاز وقت پر روانہ ہوا۔سیٹیں آرام دہ اور صاف ستھری
تھیں جب کہ کرایہ بھی معقول تھا۔امرتسر ائیرپورٹ سے دہلی کے لیے روزانہ12 فلائٹس روانہ ہوتی ہیں۔جبکہ نجی غیر ملکی ائیر لائنز سے ہزاروں مسافر امرتسر گولڈن ٹیمپل دیکھنے آتے ہیں۔کاش ہم تھوڑی سی محنت کر لیں تو سکھ، ہندو اور بدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں لاہور اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال اور پی۔آئی۔اے کی سستی اور نا اہلی کی وجہ سے سیاحت کی صنعت فروغ نہیں پا سکی اِسی لیے ہم قیمتی زرِ مبادلہ سے محروم ہیں۔ دہلی پہنچے تو ائیرپورٹ کے لانج میں لگے ٹی وی کی بریکنگ نیوز سے معلوم ہوا کہ خشونت سنگھ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ خشونت سنگھ نے ننانوے سال کی عمر میں انتقال کیا۔ موصوف ایک زندہ دل، بے باک صحافی اور 80 سے زائد کتب کے مصنف تھے۔ خوبصورت عورتوں کی صحبت اور شراب کے رسیا تھے اورڈرٹی اولڈمین کے نام سے مشہور تھے۔ گاندھی خاندان کے دیوانے اور وفادار لیکن جب اندراگاندھی نے گولڈن ٹمپل امرتسر پر حملہ کیا تو انھوں نے بھارت کا سب سے بڑا ایوارڈ پدمابھوشن واپس کر دیا۔پاکستان کے لیے ان کے ہاں ہمیشہ نرم گوشہ رہا۔
دہلی سے ہم نے ہوائی جہاز پکڑا اور بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ پہنچ گئے۔ائیر انڈیا کے حالات بھی ہماری پی آئی اے سے زیادہ بہتر نہیں اسی وجہ سے بھارت میں نجی ائیر لائنز کا بزنس فروغ پا رہا ہے اور مسافروں کو کم قیمت پر بہتر سہولیات مل رہی ہیں۔ ڈھاکہ ائیر پورٹ نے کوئی خوشگوار تاثر نہیں چھوڑا۔ مسافروں کی آمدورفت تو خوب تھی لیکن ائیر پورٹ کی عمارت لاہور اور دہلی کے ائیر پورٹ کے مقابلے میں چھوٹی اور پرانی لگتی ہے۔ امیگریشن حکام کا رویہ البتہ دوستانہ تھا اور وہ اس بات پر خوش نظر آتے تھے کہ ہم ان کے ملک کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم کی کمپنی کے پروٹوکول آفیسر کی موجودگی نے کام اور بھی آسان کر دیا اور ہم جلد ہی ائیر پورٹ سے باہر آگئے۔ میری برسوں پرانی خواہش آج پوری ہو گئی تھی۔ بچپن سے والد محترم اور چچا محترم الطاف حسن قریشی سے مشرقی پاکستان کے بارے میں سنتے آئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں اور سیاسی قائدین کا پاکستان بنانے میں اہم کردار رہا۔ پاکستان کے لیے اکٹھے بے شمار قربانیاں دیں اور پھر جب ملک حاصل کر لیا تو مل کر نہ چل سکے۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن جدا ہونا ہی تھا تو کیا اچھے طریقے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے تھے؟ قتل و غارت اور نفرت کیا ضروری تھی؟ آج کے حالات جاننے کی آرزو تھی کہ کیا وہ تلخیاں 43سال بعد بھی اسی طرح قائم ہیں یا نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے۔
ڈاکٹر عاصم ڈھاکہ کے پوش علاقہ گلشنII میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے ہمسائے ہیں۔ وہ ایک جدید تعمیر شدہ بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ کئی منزلہ بلڈنگ میں دوسری کمپنیوں کے سینیئر ایگزیکٹو اور کچھ ممالک کے سفرا بھی اپنی فیملی کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔ فردان جو ڈاکٹر عاصم کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے کا کمرا ہمارے لیے مختص کیا گیا تھا۔ 10سالہ معصوم اور پیارے فردان نے اپنا پسندیدہ کمرا ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ماما کہتی ہیں کہ یہ کمرا اب آپ کا ہے آپ جس طرح چاہیں استعمال کریں۔ میں نے اپنے کھلونے سمیٹ لیے ہیں۔فردان کی معصومیت اور قربانی نے دل موہ لیا۔ اجنبی مہمانوں کو اپنی قیمتی متاع حوالے کرنا والدین کی اچھی تربیت ہی کا کمال تھا۔ ڈاکٹر عاصم اپنی بزرگ والدہ اور بچوں کے ہمراہ ڈھاکہ میں پچھلے دو سالوں سے مقیم ہیں اور دن رات اپنی بیمار والدہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسی خدمت کے نتیجے میں اللہ نے انھیں یورپ کی ایک صفحہء اول کی کمپنی کے چیف کے لیے انڈین اور بنگلہ دیشی سمیت بہت سے لوگوں پر فوقیت دے کر ذمہ داری کا اعزاز بخشا تھا۔ ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ ڈھاکہ میں کئی پاکستانی گارمنٹس کا کاروبار کر رہے ہیں اور کئی ایک کمپنیوں میں ملازمت بھی۔ کئی پاکستانی بزنس مین تو ماشا اللہ ترقی کے بیشتر زینے طے کر چکے ہیں۔ فیکٹری آنے جانے کے لیے اپنے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔
اگلے دن اسٹیڈیم جانے سے پہلے ڈھاکہ کی سیر کا پروگرام بنا۔ انٹرکونٹی نینٹل ہوٹل جو کہ 71 میں تمام اعلی پاکستانی اور حکومتی سول افسران کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے محفوظ مقام قرار پایا تھا کی تاریخی لابی میں بیٹھ کر میں نے اور شفیق عباسی نے ان کڑے اور نازک لمحات کی تلخی کو تلخ کافی کی پیالی کے ساتھ محسوس کرنے کی کوشش کی، کس طرح سے اپنی سرزمین اعلی حکومتی عہدیداران کے لیے تنگ پڑ چکی تھی۔ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیم اسی ہوٹل میں ٹھہری تھی۔کرس گیل اور کرکٹ بورڈ کے سر براہ نجم سیٹھی سے بھی وہیں ملاقات ہوئی۔ جیو نیوز کی ٹیم نجم سیٹھی کے پروگرام آپس کی بات کی ریکارڈنگ کر کے فارغ ہی ہوئی تھی۔
وہاں سے اٹھ کر وہ مقام دیکھنے گئے جہاں جنرل نیازی نے بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔پاس ہی ایک جگہ تھی جہاں 1952 میں بنگلہ زبان کی تحریک میں شہید ہونے والے افراد کی یاد میں شہید مینار تعمیر کیا گیا۔ ہر سال 21فروری کو ہزاروں لوگ اس جگہ پر آتے اور ان کی یاد میں پھول رکھتے ہیں۔ آس پاس بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ پارک کی حالت تو ناگفتہ بہ تھی لیکن پھر بھی جگہ جگہ جوڑے ماضی سے بے خبر مستقبل کی پلاننگ میں مشغول نظر آئے۔
یہاں سے نکل کر ہم بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی تاریخی رہائش گاہ دیکھنے دھان منڈی پہنچ گئے۔ جھیل کے کنارے واقع قریبا 3کنال کییہ دو منزلہ کوٹھی
کبھی اختیارات اور فیصلہ سازی کا مرکزتھی۔ حکومت نے اس گھر کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا ہے۔ اس میں داخلے کے لیے20 ٹکے کی ٹکٹ لینا پڑتی ہے اور کیمرا اور فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اندر داخل ہو کر محسوس ہوا کہ شیخ مجیب درمیانی کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے کمرے اور رہن سہن کو اسی طرح محفوظ کر لیا گیا تھا۔ ان کے والد اور بچوں کی تصویریں آج بھی اسی طرح دیواروں پر لگی ہوئی ہیں۔ چھوٹی سی لائبریری بھی موجود تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ مجیب مطالعہ کے شوقین تھے۔ جگہ جگہ گھر کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات نظر آتے ہیں اور بیسمنٹ کی وہ سیڑھیاں جہاں شیخ مجیب گولیوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی تا ب نہ لا کر دنیا سے رخصت ہو گئے آج بھی خون سے رنگی ہوئی ہیں۔
شیخ مجیب جو بنگلہ بدھو کہلاتے تھے اور بنگلہ دیش کے بانی صدر تھے۔ اپنے سیاسی عروج کے چند ہی سال بعد 15اگست 73 کو اپنی بھارت نواز پالیسیوں کے باعث ملک کو بدترین معاشی حالات سے دوچار کر چکے تھے۔ بنگالی قوم پرست فوجیوں نے کرنل فاروق اور میجر دالیم کی قیادت میں انھیں پورے خاندان سمیت بھون کر رکھ دیا۔ اگلے دس سال تک ملک کے کسی گوشے میں کوئی ایک آواز بھی شیخ مجیب کے حق میں بلند نہ ہوئی تھی۔
شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد اور ان کی ایک بہن اس وقت ملک سے باہر ہونے کے باعث زندہ بچ گئی تھیں۔ حسینہ واجد آج ملک کی وزیراعظم ہیں مگر ان کی مقبولیت کا سورج بری طرح گہنا چکا ہے اور ڈھاکہ میں اپنے قیام کے دوران میں نے یہ بات بار بار محسوس کی اور مشاہدہ بھی کیا۔ لوگوں کی عمومی رائے تھی کہ بھارت کے الیکشن کے فورا بعد اگر بی جے پی کی حکومت نہیں آتی تو حسینہ واجد کا اقتدار بھی قائم نہ رہ سکے گا۔
آج بنگلہ دیش کے سیاسی حالات تشویش ناک اور
سنگین ہو چکے ہیں۔ ملک میں وزیراعظم حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے درمیان شدید مخالفت اور تصادم کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام مخالف کارروائیوں میں ملوث اور بھارت نواز پالیسی پر گامزن نظر آتی ہیں۔اس منتقم مزاج حکمران نے مٹھی بھر اسلام دشمن فوجی جرنیلوں اور کینگرو کورٹس کی ملی بھگت کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ جماعت اسلامی نے 1971 کے فوجی آپریشن میں پاک فوج کا ساتھ دیا تھا اور بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی اس لیے جماعت کے راہنماں کو چن چن کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال جماعت کے ایک راہنما عبدالقادر ملا کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ ان کے سابق امیر سمیت کئی دوسروں کو عمر قید اور موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت جنگی جرائم کے الزام میں جماعت اسلامی پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔لیکن اس کے باوجود عوام میں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔
عوامی لیگ کی حکومت نے پاکستان کی مخالفت اور اسلام سے بیزاری کی لہر پر سوار ہو کر پانچ جنوری 2014 کو ہونے والے عام انتخابات میں اس لیے بھی اکثریت
حاصل کر لی تھی کیونکہ جماعت اسلامی سمیت بی این پی کے -19جماعتی اتحاد نے دھاندلیوں کے سنگین الزامات کے باعث انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا تھا اس لیے حکومتی پارٹی کو بظاہر کسی مزاحمت یا مقابلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عام انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود بی این پی متوقع بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرعزم ہے۔ اگرچہ بظاہر بی این پی اپنی شکست پر خاموش دکھائی دیتی ہے لیکن اس پرسکون اور خاموش سطح کے نیچے مزاحمت کا طوفان انگڑائیاں لے رہا ہے۔
عوامی لیگ کی وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے آپ کو نہایت متعصب اور ظالم راہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ اسلام دشمن اور بھارت نواز طاقتوں کے ایما پر یہ گیم کھیل رہی ہیں۔ انھیں اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ بے گناہ اور محب وطن افراد کو موت کی سزاں کو کسی طور قابلِ قبول اور مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حسینہ واجد کو اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے انجام کو یاد رکھنا چاہیے اسے بھی اسلام دشمنی اور بھارت نوازی کے باعث قوم پرست فوجیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔اقبال نے ایسے ہی عاقبت نا اندیش حکمرانوں کے متعلق کہا تھا
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
دھان منڈی سے ہم سیدھا پارلیمنٹ بلڈنگ دیکھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ پارلیمنٹ بلڈنگ دور ہی سے نظر آجاتی ہے اور طرزِ تعمیر میں ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ کئی دہائیوں کے باوجود اس کا حسن باقی ہے۔ ایوب خان کا یہ تحفہ اور بہت سے دوسرے تحائف بنگلہ بھائیوں نے بڑی خوشی سے قبول اور محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور انھیں استعمال کر رہے ہیں وہ ایوب خان کا ذکر بہت اچھے انداز سے کرتے ہیں۔
ہم نے پاک بھارت میچ اور آسٹریلیا کے ساتھ میچ کے دوران ایک پورا دن ڈھاکہ یونیورسٹی کو قریب سے دیکھنے کے لیے رکھا تھا۔ ہم چاروں ایک دن صبح دس بجے سیدھا یونیورسٹی کے سب سے پرانے اور تاریخی کیفے ٹیریا پہنچ گئے۔
یہ وہی کیفے ٹیریا تھا جہاں پاکستان بنانے سے لے کر بنگالی زبان کی تحریک شروع ہونے کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابات کی مہم اور پھر بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی پلاننگ ہوتی رہی۔ باہر سے تصاویر وغیرہ لینے کے بعد اندر بیٹھ کر چائے پینے اور طلبہ سے گفتگو کرنے کے ارادہ سے ہم کیفے ٹیریا میں داخل ہوئے۔ اندر بھی باہر کی طرح حالات اداسی اور کسمپرسی کی داستان سنا رہے تھے۔ یہ کیفے ٹیریا بھی ایک اعلی، شاندار اور تاریخی اہمیت کی حامل یونیورسٹی کے شایانِ شان نہ لگتا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی میزیں اورکرسیاں، گندے کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکا چائے اپنے گاہکوں تک پہنچا رہا تھا۔ زبان کی عدم واقفیت کی بنا پر آرڈر دینے میں دقت آرہی تھی۔ خواتین نے کانٹر پر جا کر اشاروں سے چائے اور سموسوں کا آرڈر دیا۔ اس دوران شفیق عباسی نے دوسری میز پر بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف ایک صاحب سے انگلش میں گفتگو کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ صاحب جو اپنے دوستوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اپنی زندگی کے دس سال اس یونیورسٹی میں گزار چکے تھے۔ انھوں نے دو ایم۔اے یہیں سے کیے تھے وہ یونیورسٹی کی مختلف تنظیموں سے بھی وابستہ رہے انھوں نے بیرون ملک سے کورسسز بھی کر رکھے تھے۔ آج کل انکم ٹیکس کے محکمہ میں اعلی افسر کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں۔ جب انھیں پتا چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں اور ڈھاکہ یونیورسٹی دیکھنا چاہتے ہیں تو انھوں نے ہمیں یونیورسٹی دکھانے کی پیشکش کی۔ جسے ہم نے فورا قبول کر لیا۔ اعلی تعلیم یافتہ، دس سال ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارنے والا اگر گائیڈ کے طور پر مل جائے اور پھر مفت تو کیا ہی کہنے! فورا ہم نے مشتاق احمد کو اپنی وین کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا دیا۔
انھوں نے ہمیں پہلے ڈھاکہ یونیورسٹی کی تاریخ سے آگاہ کیا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی ملک کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اسے نواب بہادر سید نواب علی چودھری نے برطانوی راج کے دوران 1921 میں قائم کیا۔ اس نے ابتدائی سالوں ہی میں مشرقی آکسفورڈ (Oxford of the East)کا ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سیاسی معاشرتی اور معاشی دبا کے نتیجے میں بنائی گئی۔ دراصل اس کا قیام تقسیم بنگال کی منسوخی پر ناراض مسلمانوں کے مطالبہ پر شاندار تلافی کے طور پر عمل میں لایا گیا۔ تقسیم بنگال کے بعد مسلمانوں کا تعلیم و ترقی کی طرف رجحان میں زبردست اضافہ ہوا جس کی تکمیل ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد ہوئی۔ بنگال کی ہندو قیادت کی طرف سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کی گئی۔ یونیورسٹی کے قیام سے قیام پاکستان تک مسلم طلبہ کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔
اِس عظیم تعلیمی درسگاہ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ دو قومی نظریے کی تخلیق اور قراردادِ پاکستان کی تیاری میں بنگالی مسلم قائدین کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔دراصل مغربی پاکستان کے غلبے اور سیاسی حقوق سے محرومی کے شکار اساتذہ اور نوجوان طلبہ آزاد مملکت کا خواب دیکھ رہے تھے۔
مشتاق بھائی ہمیں سب سے پہلے ایک چوک میں لے گئے جہاں بے شمار مجسمے رکھے ہوئے تھے۔ یہ مجسمے ان لوگوں کے تھے جنھوں نے کسی نہ کسی صورت میں بنگلہ تحریک میں حصہ لیا تھا۔ شاعر ہوں یا ادیب، مسلمان ہوں یا غیرمسلم، سیاست دان ہوں یا فوجی غرض یہ ترتیب کے ساتھ ایک گول چکر میں ان شخصیات کے مجسمے ان کے ناموں وغیرہ کے ساتھ نصب ہیں۔ اپنی تاریخ کو زندہ رکھنے اور طلبہ سے روشناس کرانے کا یہ طریقہ بھلا لگا۔ لیکن کئی لوگوں کو مشتاق بھی نہ جانتا تھااور وہاں ان کے بارے میں معلومات بھی بہت کم دستیاب تھیں۔
وہاں سے بزنس ایڈمنسٹریشن بلاک کو دیکھتے ہوئے پرانے اور اصل بلاک پر پہنچے۔ 40,000سے زائد طلبہ کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے والے اس ادارہ کی حالت کا اندازہ آپ ہمارے ملک کی کسی بھی یونیورسٹی سے نہیں کر سکتے۔ جگہ جگہ گندگی، سیوریج اور نالیوں میں بھرا ہوا پانی،
درختوں اور کیاریوں کی عدم دیکھ بھال ایک اجڑے اور اداس ادارہ کی داستان سنا رہی تھی۔ مشتاق بھائی کے مطابق تعلیمی معیار بھی گر چکا ہے۔ سائنس اور تحقیق پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ پرانے بلاک کی خوبصورتی آج بھی قائم ہے۔ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ افراد بیرونِ ملک ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں کہ ملک میں ان کے لیے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔بنگلہ دیشی کاروبار نہیں کر سکتے۔ان کی نفسیات میں رچ بس گیا ہے لہذا ملازمت حاصل کرنا ہی نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ہم نے اندرون ڈھاکہ مشہور الرازق ہوٹل میں کھانا کھایا جو پاکستانی اسٹائل کے کھانے کے حوالے سے مشہور ہے اور دور دور سے لوگ یہاں کا کھانا کھانے آتے ہیں۔ بنگالی رکشا پرنٹنگ کے بھی ماہر ہیں۔ اپنے رکشوں کو سجاتے اور دلکش بناتے ہیں۔ ڈھاکہ میں 4لاکھ سے زیادہ رکشے ہیں جس کی وجہ سے یہ رکشوں کی سرزمین بھی کہلاتا ہے۔ لاکھوں سائیکل رکشوں، بے ہنگم ٹریفک اور سگنلز کی عدم پابندی اورتنگ سڑکوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔دنیا کی سب سے بری اور بے ہنگم ٹریفک ڈھاکہ کی ہے۔ حد سے زیادہ سائیکل رکشوں کی وجہ سے گھمسان کا رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے اوسطا دن کے سات گھنٹے ٹریفک جام رہتی ہے۔ پارکنگ اور حد سے بڑھتی آبادی کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ ڈھاکہ کی آبادی15ملین تک پہنچ چکی ہے اور 4%سالانہ کے حساب سے مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ بنگالی جہاں کرکٹ کے جنونی ہیں وہاں چائے کے بھی حد سے زیادہ رسیا ہیں۔ ڈھاکہ کی مٹھائیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ہمیں لاہور کی کشادہ سڑکیں جگہ جگہ پھولوں کی کیاریاں اور کہیں بہتر نظامِ ٹریفک بہت یاد آیا اور خوشی ہوئی کہ ہم اس معاملہ میں ڈھاکہ بلکہ دہلی سے بھی آگے ہیں۔ لاہور جتنا سبزہ اور صفائی ہمیں پورے سفر میں کہیں نظر نہیں آئی۔ ڈھاکہ صوفیا اور مسجدوں کا شہر ہے۔ بیت المکرم مسجد دیکھنا ہماری فہرست میں بڑا نمایاں درج تھا۔
ڈھاکہ کے وسط میں واقع مسجد بیت المکرم 1968 میں بنی تھی یہ دنیا کی سب سے بڑی دس مساجد میں سے ایک ہے اور بنگلہ دیش کی قومی مسجد کہلاتی ہے۔
مسجد میں بیک وقت تیس ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کا بیشتر حصہ مغلیہ طرزِ تعمیر پر ہے اور بنگلہ دیش میں موجود دوسری مساجد سے مختلف نظر آنے کے لیے اس کا ڈھانچہ کعبہ کی طرز پہ تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد 8منزلہ ہے اور سطح زمین سے 99فٹ بلند ہے۔مسجدکا ڈیزائن ٹی عبدالحسین تھرینی (T Abudul Hussain Thariani) نے بنایا۔
مسجد کے باہر صوفیانہ کلام اونچی آواز میں گونج رہا تھا۔ اندر بڑے ہالوں میں لوگ آرام کر رہے تھے۔
23مارچ کو پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ دیکھنے اور جیتنے کے بعد ہم اپنے سفارتخانے کے عشائیے میں شریک ہوئے۔ ہمارے سفیر اچکن پہنے بڑی گرمجوشی اور محبت سے اپنے مہمانوں سے فردا فردا ملاقات کر رہے تھے۔ معروف کمنٹیٹر چشتی مجاہد اور کئی پاکستانی بزنس مین اور ممتاز شخصیات شریک تھیں۔مہمانوں کے لیے کھانا مستقل لگا ہوا تھا۔ آپ جب جی چاہے کھانا کھائیں اور رخصت لے لیں۔
اگلے دن علی الصبح ہماری واپسی تھی۔ ہم لوگ ڈاکٹر عاصم اور ان کی اہلیہ کی مہمان نوازی کو مدت تک بھلا نہ پائیں گے۔ انھوں نے ہمارے لیے بہت اہتمام کیا تھا۔ ایک رات ان کے پاکستانی دوست شفیق جو بڑی مدت تک اردو ڈائجسٹ پڑھتے رہے اور اب وہ یو ایس ایڈ میں ملازمت کرتے ہیں نے ہمارے لیے دعوت کا اہتمام کیا۔ وہ بڑی محبت سے پاکستان کے حالات اور کرکٹ پر ہم سے گفتگوکرتے رہے۔
چار دن بعد ڈھاکہ ائیر پورٹ جاتے ہوئے جہاں ہم فردان، ڈاکٹر عاصم اور بھابھی ثمرہ سے رخصت ہوتے وقت اداس تھے وہاں ہمیں اس بات کا بھی یقین ہو چلا تھا کہ ڈھاکہ کے لوگوں میں اب 71 کے واقعات کے زخم کافی حد تک بھر چکے ہیں اور وہ پاکستانیوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ماضی کے دیرینہ دوست بھارت کی خودغرض معاشی اورخارجہ پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔
دہلی میں ہمارا قیام گو کہ ایک دن کا ہی تھا لیکن ہلدی رام کی مزیدار رام کچوری کھانے کے علاوہ بہت سے لوگوں سے ملاقات کا موقع، انتخابی سیاست جاننے کا سبب بنا۔
بھارت کی سیاست بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔ صوبوں کو خودمختاری دینے کی وجہ سے علاقائی جماعتیں بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ ہر علاقائی سیاسی جماعت عوام میں مقبولیت حاصل کرنے اور الیکشن جیتنے کی غرض سے زیادہ سے زیادہ سبسڈی دینے کی دوڑ میں سبقت لے جانے میں لگی رہی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا بھارت اب سبسڈی کلچر پر چل رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے بھارت کی تاریخ کے طویل ترین انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے جس کے مطابق انتخابات 9مرحلوں میں ہوں گے۔ جس کا آغاز 7اپریل اور اختتام 12 مئی کوہو گا۔ ووٹنگ کی گنتی 16مئی کو اور اسی دن نتائج کا اعلان ہو جائے گا۔
بی جے پی کی مخالفت میں کئی الائنس وجود میں آچکے ہیں جب کہ دہلی اور کئی شہروں میں عام آدمی پارٹی، بی جے پی کو ٹف ٹائم دے گی۔ علاقائی جماعتیں بی جے پی سے اتحاد کرنے سے کترا رہی ہیں کیونکہ وہ مودی کے اسٹائل سے خوف میں مبتلا ہیں۔ مودی نے پچھلے دنوں اپنی پارٹی کے مضبوط اور سرکردہ راہنماں کو بڑی چالاکی سے مطلوبہ پارٹی ٹکٹس سے محروم رکھ کر کارنر کر دیا ہے اور وفاداری بدلنے والے کانگرس کے بڑے بڑے ناموں کو ٹکٹس الاٹ کر دی ہیں۔ بظاہر مودی اب جماعت سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے اور اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے ہی والا ہے۔ لیکن اس کی جماعت میں ورکر ان حالات سے پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ پرانے ورکروں اور لیڈروں کو چھوڑ کر بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے اداکار اور اداکاراں کو سیٹیں بخشی جا رہی ہیں۔ پچھلے الیکشن میں انڈین نیشنل
کانگرس 201سیٹیں لے کر کامیاب ہو ئی تھی۔ اس بار بظاہر مضبوط نظر آنے والی بی جے پی بمشکل اتنی ہی سیٹیں لے پائے گی۔ نتیجتا بی جے پی کو دوسری پارٹیوں سے الحاق کرنا پڑے گا سوال یہ ہے کہ تب بننے والی کھچڑی سرکار مودی کی فطرت اور طرزِ حکومت کی وجہ سے کیوں کر اسے اپنا وزیراعظم نامزد کرپائے گی۔
بی جے پی حالیہ انتخابات کی کمپین، جلسوں اور میڈیا پر، مودی کی گجرات حکومت کی کامیابی کے گرد چلا رہی ہے
مودی کی گجرات حکومت کے ماڈل کا اصل مقصد ریاست کے ذریعے دولت کو امیر اور طاقتور تک پہنچانا تھا جسے مودی نے بخوبی حاصل کیا۔ بھارت کے میڈیا پر بی جے پی مودی اسٹائل اور گجرات کی ترقی پر ہی الیکشن کمپین چلا رہی ہے۔ میڈیا کی حد تک تو یہ درست ہے لیکن درحقیقت حقائق اس کے برعکس ہیں۔ دراصل گجرات حکومت کے پس منظر میں 2002 کے مسلم کش فسادات، معاشی آزادی اور ہندو نیشنل ازم کے نام پر بزنس گروپس کو لامحدود حد تک نوازنے کی پالیسی ہے۔
حالیہ انتخابات میں کہیں بھی حکومتی اسٹائل، گجرات حکومت کے اکنامک ماڈل اور اصل مسائل مثلا غربت میں کمی یا صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور نکاسی آب یا رہائش کا ذکر تک ہی نہیں ہو رہا۔حالیہ انتخابات میں کوئی جماعت یا لیڈر اپنے ووٹروں کو اپنی معاشی پالیسیوں کے ذریعے مخالف پارٹی سے بہتر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کا دعوی نہیں کر رہا۔
دراصل سب سے بڑی جماعتوں میں درپردہ بڑی بزنس کارپوریشن کے ایجنڈے پر آگے بڑھنے پر اتفاق ہے۔نتیجتا اصل مسائل پر صرف مدھم آوازیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔
گجرات کی مودی حکومت کی جلد اور واضح فیصلہ سازی کی صلاحیت نے بڑی بڑی کارپوریشن اور بزنس ٹائیکون کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور وہ اسی صلاحیت کو بھارت کے مستقبل کی کنجی سمجھ بیٹھی ہے۔
گجرات حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کی خود غرضانہ خواہشات کو نہ صرف پورا کیا گیا بلکہ ترقیاتی کاموں اور معاشی فیصلوں کا اختیار بھی انہی کو دے دیا گیا۔ جس سے صوبے میں انوسٹمنٹ تو آئی لیکن اس تناسب سے لوگوں کو ملازمتیں نہیں ملیں اور غریب عوام کے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی خواب ہی رہی۔ انڈیا کے اکنامک سروے کے مطابق بھارت میں سب سے زیادہ احتجاج اور لیبر اسٹرائیکس گجرات ہی میں ہوئیں۔ کیونکہ گجرات حکومت تو سرمایہ داروں کو تحفظ دینے میں دن رات لگی رہی۔ وہ زمین جس پر ہزاروں غریب کسان کھیتی باڑی کرتے یا مچھلیاں پالتے تھے وہ مندرا اور ٹاٹا کو دے دی گئی تاکہ وہ ان پر کارخانے لگا سکیں۔صحت کی سہولتوں کا فقدان باقی تمام صوبوں سے آگے ہے۔ گجرات کی ترقی کا ماڈل 1980 کی دہائی میں رولنگ کلاس کے درمیان طے ہونے والے معاہدے ہی کی ایک کڑی ہے جس کے مطابق ملکی اکانومی کو آزاد کر کے دنیا کے ساتھ جوڑا جائے، نتیجتا غریب عوام خوشحالی کو ترستے ہی رہے۔ ترقی کے باوجود گجرات میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سوشل ڈویلپمنٹ کے تمام اشاریے منفی میں ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات یا پیدائش کے وقت ماں کی اموات، بچوں میں غذائی قلت سب میں گجرات آگے ہے۔لاہور کی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا۔ یہ سفر اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش بن چکا اور پاکستان اور بھارت جو کہ ہندوستان کا حصہ تھے، کرکٹ نے ان تینوں دشمنوں کو قریب لانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح کے ایونٹس ماضی کی تلخیوں کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔