غوث سیوانی،نئی دہلی
پچھلے دنوں میرے پڑوس میں ایک واقعہ رونما ہوا، حالانکہ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ اسے واقعہ کہنا چاہئے یا حادثہ یا پھرسانحہ۔ اسے اگر مسلم معاشرے کا المیہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ بات یہ ہوئی کہ ایک ایک نوجوان نے اپنی پچیس سالہ بیوی کو غصے میں آکر طلاق دے دیا ۔ ویسے ہی جیسے کہ عموما مسلم خاندانوں میں سنا جاتا ہے، یعنی ایک سانس میں درجنوں طلاقیں۔ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر اس کے انجام پر غور کئے ۔یہ بھی نہیں سوچا کہ اس عورت کا کیا ہوگا جس نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں نے سونپی تھی تجھے آخری پونجی اپنی
چھوڑ آیا ہے مری نا تہہِ آب کہاں
اس جوڑے کے تین بچے بھی ہیں جو چند سال کے ساتھ کا نتیجہ ہیں۔ظاہر ہے جب شادی کو ہی ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں تو بچے بھی بہت چھوٹے ہونگے۔ اب مسئلہ ان کی پرورش کا بھی ہے۔ ان کی دیکھ بھال اور اخراجات کی ذمہ داری قانونی اور مذہبی احکام کے مطابق شوہر کی بنتی ہے البتہ اگر عورت ان کی پرورش کرنا چاہے اور ان کی ذمہ داری خود اٹھانے کے لئے آگے آئے تو الگ بات ہے۔ باپ اگر تلاش معاش کے لئے گھر سے باہر جاتا ہے تو ماں ان کی دیکھ بھال کرتی ہے مگر جب والدین کے درمیان علاحدگی ہوگئی ہوتو بچوں کی دیکھ بھال اپنے آپ میں ایک مسئلہ ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس فیملی میں جہاں مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ بچوں کی دیکھ ریکھ کے واسطے کسی ملازم کو رکھا جائے۔ بغیر سوچے سمجھے انسان اگر کوئی قدم اٹھا تا ہے تو اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور یہاں بھی وہی ہوا ۔ اس قسم کے مسائل اکثر مسلم معاشرے میں سامنے آتے ہیں اور طلاق دینے کے بعد پچھتاوا ہوتا ہے تو علما کہتے ہیں اب کوئی چارہ نہیں دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے۔علما کہتے ہیں کہ طلاق ایک پتھر کی طرح ہے اسے غصے میں پھینکو یا خوشی کے ساتھ کانچ تو چکناچور ہوگا ہی۔
بہرحال اس غصے کی طلاق مغلظہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ رشتہ دار اور احباب کو پتہ چلا تو سب نے شوہر نامدار کر برا بھلا کہنا شروع کیا اور معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا۔ اب خود بھی آنجناب ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی پوزیشن میں آچکے تھے لہذا علما کے پاس گئے اورشرعی حل چاہا تو پتہ چلا سیدھے طور پر کوئی راستہ نہیں۔ البتہ اگر عورت نے اپنی مرضی سے کسی سے شادی کرلی اور وہاں سے بھی طلاق ہوگئی تو پھر پہلے مرد سے نکاح ہوسکتا ہے۔ اسے علما کی اصطلاح میں حلالہ بھی کہاجاتا ہے جسے شرعی اعتبار سے ناپسندیدہ قرار دیا گیاہے۔ یہ ٹیڑھی کھیر تھی مگر اب اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ خیر رشتہ داروں نے مشورہ کیا اور ان کی زندگی کو حسب سابق کرنے کے لئے اسی ناپسندیدہ راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا۔
لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
ایک پچپن سالہ شخص کی تلاش کی گئی جس کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور دوسری بیوی سے طلاق ہوچکی تھی۔طے یہ پایا کہ یہ شخص مطلقہ خاتون سے نکاح کرے اور ایک رات ساتھ گذارنے کے بعد صبح کو طلاق دیدے۔ وہ شخص بھی اس پر راضی ہوگیا اور دونوں کا نکاح ہوگیا۔ یہ سب کچھ خفیہ طور پر ہوا ۔ مگر صبح کو اس شخص نے طلاق دینے میں آنا کانی کرنی شروع کردی۔ اس نکاح کو اب چند مہینے گذر چکے ہیں وہ شخص اپنی منکوحہ کو بار بار فون کرکے اس وعدے کے ساتھ بلاتا ہے کہ بس ایک رات کے بعد طلاق دے دے گا پھر وہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کر سکے گی مگر اس نے آج تک طلاق نہیں دی اور اب وہ اس کے وعدے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
اب سوال یہ ہے کہ اِس سانحے کے لئے کون ذمہ دار ہے،صرف ایک شخص کاغصہ، ہمارا سماج یا شرعی اصول؟ویسے ذمہ دار خواہ کوئی ہو مگرہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ اس پورے معاملے میں مظالم کا شکار ایک عورت ہی ہوئی ہے،جو صدیوں سے مظالم سہتی آئی ہے۔ اس کی مرضی کو کسی معاملے میں دخل دینے کی اجازت نہیں دی گئی ،اس کے ساتھ جو بھی ہوا دوسروں نے کیا وہ تو بس اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرتی رہی۔
قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو
ہم شریعت اسلامی کو تو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے ، کیونکہ اسلام نے نکاح اور طلاق کے سادہ دستور بنائے ہیں۔ طلاق کو بدرجہ مجبوری جائزرکھا گیا ہے اور اسے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اب اگر اس کا بغیر سوچے سمجھے استعمال کیا جائے تو ظاہر ہے ایسے ہی حالات سامنے آئیں گے۔ یہاں ایک اور پہلو قابل غور ہے ،وہ ہے ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ۔ علما میں اس بات پر اختلاف رہاہے کہ ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقوں میں تین نافذ ہوتی ہیں یا ایک۔ حنفی علما کے مطابق تین کی تین ہوجاتی ہیں اور بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے۔ حالانکہ دیگر علما مانتے ہیں کہ ایک ہوتی ہے اور شوہر کو اختیار رہتا ہے کہ وہ واپسی کرلے اور اپنی بیوی کے ساتھ حسب سابق رہنے لگے، البتہ اب اسے صرف دو طلاقوں کا ہی اختیار رہے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ حنفی علما بھی اگر اس تحقیق کو قبول کرلیں تو مذکورہ بالا واقعے جیسے واقعات نہیں ہونگے اور بہت سے گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتاہے۔ ویسے بھی اس تعلق سے قرآن یا حدیث میں کوئی واضح حکم نہیں ہے جو مسائل ہیں وہ علما کے اجتہاد کا نتیجہ ہیں۔ یہاں سوال قرآن کے حکم کو چھوڑنے کا نہیں ہے بلکہ بعض علما کے اجتہاد کو چھوڑ کر بعض دیگر فقہا کے اجتہاد کو اپنانے کا ہے۔
Ansar azeez Nadwi
میری تحریر کو سایٹ پر جگہ دینے کے لئے شکریہ . غوث سیوانی ، نی دہلی