آنکھیں بولتی ہیں

ابرار لودھی۔۔۔۔
آج اپنے ڈرامہ کی کاسٹنگ کیلئے میں نے کچھ auditionsرکھے۔۔بہت سی لڑکیاں ،لڑکے۔۔کچھ عمر دراز ،لیکن سب کے سب بناوٹی ،جو خود کو میرے لیئے خود سے چھپائے میرے سامنے کھڑے تھے ،ہر ایک کی آنکھوں میں ایک خواب تھا جسے حقیقت بنانے کی خاطر وہ سب کچھ بھی کرنے کو تیار تھے ،
اور میں اس وقت خود کو Bossسمجھ رہا تھا ،اور تھا بھی۔میری ڈگڈگی کی ہر تھاپ پر وہ لوگ بندے سے بندر بن کر ناچ رہے تھے ،
لیکن ان سب لوگوں میں ایک معصوم سی لڑکی میرے پاس آئی،جس کی عمر زیادہ سے زیادہ پندرہ سے سولہ سال ہوگی ۔
اسے دیکھ کر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسکا تعلق ایک شریف اور باعزت گھرانے سے ہے ،
لیکن باقی تمام لوگوں کی طرح اسکی آنکھوں میں کوئی خواب ،کوئی چمک ۔۔کوئی مقصد نہیں دکھائی دے رہا تھا ،خیر Auditionشروع ہواتو میں نے اس سے کہا۔
”آپ نے پہلے کبھی ایکٹنگ کی ہے؟”
”نہیں ”
”دوسرا سوال،آپ ایکٹنگ کیوں کرنا چاہتی ہیں ؟”
اور اسکا جواب تھا ۔۔۔۔۔”hmmmm” جو میرے سوال کا جواب ہر گز نہیں تھا ۔میں نے بات بدلی اور کہا کہ اسکے علاوہ آپ کیا
کرتی ہیں ؟
”کچھ نہیں ”
”اوکے۔۔تو اس سے پہلے کیاکرتی تھیں آپ؟”
”ایک نیوز چینل میں اینکر تھی ” یہ بتاتے وقت اسکی نکھوں میں عجیب سی نمی اتر آئی ”
”تو وہ جاب کیوں چھوڑ دی ”
ایک لمحے کیلئے خاموش رہنے کے بعد مجھ سے نظریں چرا کر بولی ،”کیونکہ میں وہ جاب نہیں کر سکتی تھی ”
اسکا جواب سمجھنے میں مجھے کوئی مشکل نہ ہوئی ۔
”تو آپ ایکٹنگ کیوں کرنا چاہتی ہیں ْ”
”پتہ نہیں۔۔بس ۔۔۔۔۔۔کچھ کرنا چاہتی ہوں لیکن ہوتا نہیں ”
”جاب آپ نے خود چھوڑی؟”
کوئی جواب نہیں ۔۔۔آنکھیں دھندلی اور چہرہ خاموش تھا ۔
”والد صاحب کیا کرتے ہیں آپ کے ؟”
”وہ ۔۔دل کے مریض ہیں ۔۔کچھ نہیں کرتے”
”کتنے بہن بھائی ہیں آپ؟”
”پانچ۔۔۔میں سب سے بڑی ہوں باقی سب بہت چھوٹے ہیں ”
یہ سب سنتے ہوئے اسکی آواز میںمجھے ایک عجیب سی تھرتھراہٹ محسوس ہوئی ۔شاید وہم تھا میرا۔۔۔یا پھر اس کی خالی آنکھوں کی آخری تہہ تک پہنچ چکا تھا میں ۔جہاں بہت سے خواب جل کر راکھ کی شکل میں بکھرے پڑے تھے ۔
مجھے لگا اگر میں نے کچھ ایسے سوال کیئے تو اسکی صحراجیسی خشک آ نکھوں میں پانی کا سمندر نہ بہہ نکلے ۔۔میں نے بات بدلی،
”سین پڑھا ہے آپ نے ؟”
”جی”
”اوکے تو پھر اپنی لائنز کے ساتھ ایکٹ کر کے دکھائیے”
کر کے دکھایا اس نے ،چہرے پر بھرپور جھوٹی خود اعتمادی صاف دکھائی دے رہی تھی ۔
جیسے مجبوری سے مجبور ہو کر یہ سب کرنے آئی ہو، میں سمجھ گیا کہ یہ ایکٹنگ کے قابل نہیں اور نہ ہی خود کو اس قابل سمجھتی ہے ،
اسکا دل رکھنے کیلئے مجبوری میں مجھے کہنا پڑا کہ ہم انشااللہ ضرور آپ سے کام کروائیں گے ۔اس نے نظریں دوسری طرف گھمائیں اور
بولی۔”سب کہتے ہیں لیکن۔۔۔” وہاں موجود سب لوگوں سے نظریں چرانے لگی ۔میں اسکی طرف دیکھ رہا تھا اسکی نکھوں میں دکھوں کا ایک بہت بڑا سمندر ابھر یا تھا جو کسی بھی وقت طوفانی بارش میں تبدیل ہو سکتا تھا ،
ایسا لگا جیسے زبردستی سانس لے رہی ہو ۔اس تیز طوفان کو آنکھوں میں دبانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی ۔لیکن ہزار قابو پانے کے باوجود آنسو کی ایک بوند اسکی گال پرآن ٹپکی۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کروں ،باقی سب لوگ اپنی اپنی فکر میں تھے ۔سوائے میرے کسی کا دھیان اسکی طرف نہیں تھا ۔
اس نے اپنا خالی بیگ اٹھا کر کندھے پر لٹکایا،میں اب بھی اسکی گال پہ گرے آنسو کے چھوٹے سے قطرے کو دیکھ رہا تھا ،
جس میں بے شمار دکھ۔۔ظلم بھرے پڑے تھے ،جاتے وقت اسنے میری طرف دیکھنا مناسب نہیں سمجھا ،اچھاہی کیا۔۔۔
شاید وہ سمجھ چکی تھی کہ دوبارہ میری طرف نظر کی توسب کی نظر اس پر ہو گی ۔
میں صرف اسی سوچ میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا کہ میں اس کیلئے کیا کر سکتا ہوں ،لیکن مجھے اس وقت لگا کہ میں اس دنیا کا سب سے بڑا
بے بس انسان ہوں ۔جو ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا ۔جاتے وقت وہ میرے قریب سے گزری تو پاس پڑا ٹشو کا ڈبہ اٹھا کر اسکی طرف اس طرح بڑھایا کہ کسی کو پتہ نہ چلے ۔اس نے میری طرف دیکھے بنا ڈبے سے ٹشو نکال کر پسینہ صاف کرنے کے بہانے اپنا آنسو صاف
کیا اور چلی گئی ۔۔۔۔
ہر انسان جو اپنے مطلب کی خاطر بندے سے بندر بننے کو تیار رہتا ہے۔۔
وہ کسی کا دکھ بانٹ کر بندے سے اچھا بندہ کیوں نہیں بنتا ۔۔۔؟

اپنا تبصرہ لکھیں