غرور اورتکبر شیطانی صفت

: محمد طاہر جمیل
Posted by: Haseeb Ejaz Aashir in .
اسلامی مضامین, Mohammad Tahir Jamil, آرٹیکلز June 6, 2014 78 Views
تکبر کے معنی بڑائی کے ہیں جو صرِف اللہ کی ذات کیلئے ہے کیوں کہ اللہ سب سے بڑا اور صاحبِ اختیارہے ، بڑائی اور کبریائی صرف اللہ کیلئے ہے ، ہر چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے وہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے، جس سے کوئی کچھ نہیں چھین سکتا۔ لیکن اگر یہ تکبر انسان کے اندر
آ جائے تو وہ شیطان( ابلیس) بن جاتا ہے جس نے اپنے گھمنڈ کی بنا پر اللہ کی نافرمانی کی اللہ کے حکم کو نہ مانا اور حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا کہ اللہ نے آ دم کو مٹی سے بنایا ہے جبکہ وہ آگ سے بنا ہے۔ قرآن میں متعدد جگہوں پر اِس بات کا تذکرہ آ یا ہے کہ اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور ابلیس کو اسکے انکار نے قیامت تک ملعون بنادیا اور آخرت میں وہ عذابِ الہی کا سزاوار ہوگا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آخر کس چیز پر تکبر کریں، کچھ بھی تو ہمارا نہیں، سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے، اس کی نعمتیں ہیں جنہیں انکے حکم کے مطابق او ر
حضور ۖ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے استعمال کرنا ہے۔ وہ جب چاہے اپنی کوئی نعمت ہم سے واپس لے سکتا ہے، چاہے وہ ہماری آزمائش کیلئے ہو یا کسی نا فرمانی کی سزا کے طور پر ہو۔حسب نسب، خوش شکلی، اولاد، جان و مال، علم و پرہیزگاری ، عہدہ و مرتبہ ، عقل و دانائی اللہ کی عطا ہیں، ان چیزوں پر تو اٹھتے بیٹھتے اللہ جلِ شانہ کا شکر ادا کرنا چائیے نہ کہ اس پر غرور، نہ جا نے کب یہ چیزیں ہم سےِ چھنِ جائیں ۔زمین پر اِتڑاکر چلنا، دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنا، اور یہ سمجھنا کہ اسے یہ سب کچھ اسکی اپنی محنت، علمیت ، قابلیت اور عقل سے حاصل ہوا ہے نہایت ہی غفلت میں ڈالنے والی باتیں ہیں۔ طاقت کے گھمنڈ نے نمرود ، فرعون اور شداد کو نیست و نابود کر دیا جو طاقت کے نشہ میں خود کو نعوذ باللہ خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ قارون کو اسکی دولت کے غرور نے غرق کر دیا۔ تا ریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کیسے کیسے شہنشاہ، عظیم سلطنتوں کے وارث،حسین و جمیل شکل و صورت والے، ذہین و عقلمند لوگ کہاں گئے، کہاں ہیں وہ علم و دانش کے مینار جنکی روشنی اب بھی ایک جہاں کو منور کئے ہوئے ہے۔ سب خاک میں پیوست ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر اکثر جب ایمان تازہ کرنا ہوتا تو کسی ویرانے میں نکل جاتے اور ماضی کے ایسے محلات کے سامنے رک جاتے جو اب کھنڈر بن چکے ہوتے، ان کے سامنے کھڑے ہو کر اونچی اونچی آواز میں پکارتے کہاں ہیں آج ان محلات کو بنانے والے، کہاں گئی انکی شان و شوکت، کہاں ہیں انکی عظمت کے قصے، کہاں ہے انکا فخر و غرور، سب فنا ہونے کیلئے ہے ۔ صرف میرے رب کی ذات باقی رہے گی۔ یہ عبرِت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے۔
میں نے ایک جگہ ایک واقعہ پڑھا تھا جسکا تعلق پاکستان کے شہر جھنگ سے ہے ۔ ایک خوش الحان حافظ جنہیں اللہ تعالی نے بیعد خوبصورت آواز عطا کی تھی اور ماشا اللہ حافظہ بھی کمال کا تھا کہ تراویع کے دوران کبھی سامع کو لقمہ دینے کی ضرورت نہیں پڑی، جب تلاوت کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے آواز دلوں میں اتر رہی ہو۔ رمضان کی شب جھنگ کی مسجد کوثر میں شبینہ کے نوافل پڑھارہے تھے، یوں لگتا تھا پورا کا پورا جھنگ انکی خوبصورت آواز میں قرآن مجید سننے مسجد میں امڈ آیا ہو ، ساری رات تلاوت کرتے رہے جب آ خری سورتوں پر پہنچے تو دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ انکی خوش الحانی اور مضبوط حافظہ کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں مسجد کوثر آئے ہیں بس اس شیطانی خیال کے آتے ہی جیسے سور الاخلاص پر پہنچے تو قل ھو اللہ احد کے آگے کچھ یاد نہیں رہا ، حافظہ سلف ہو گیا، آواز کپکپانے لگی۔ بڑی مشکل سے سامع نے لقمہ دیا تو اللہ الصمد کہا پھر بھول گئے۔ بڑی مشکل سے سور الاخلاص لقمے لے لے کر مکمل کی۔ جیسے ہی سجدے میں گئے خوب گڑ گڑ ا کر رونے لگے اور اللہ سے اپنے تکبر کی معافی مانگی، سجدہ طویل ہو گیا، اللہ غفور و رحیم ہے ۔ حافظہ لوٹ آیا، آواز میں روانی آئی۔ پھر حافظ صاحب میں وہ انکساری آئی کہ کہا کرتے تھے جب انسان کو زندہ رہنے کیلئے سانس لینے کی محتاجی ہو اسے ہر گز ہر گز اپنی کسی چیز پر غرور زیب نہیں دیتا۔ آج ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پہلے رانڈ میں ناک آٹ کرنے والا باکسر بعد میں اپنے مقابل کے پہلے گھونسہ کو نہین سہہ سکتا، سنچریاں کرنے والا صفر پر آٹ ہو جاتاہے، اپنے ایک اشارہ پر دنیا کی ہر چیز خریدنے والا ، کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جاتا ہے۔اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا کال کوٹری میں بند ہے۔ خوبصورت چہرے اب اپنی بدنمائی کوچھپاتے پھرِتے ہیں، نا پائیدار اور فانی چیزوں پر تکبر کیسا یہ انسان کو برباد کر دیتا ہے اور اسکی سزا دنیا میں بھی ضرور ملتی ہے۔
ضرورت توڑ دیتی ہے غرورِ بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
اللہ رب العزِت سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو تکبر جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رکھے اور ہمیں صبر و شکر کے ساتھ عاجزی اور انکساری کی صفت عطا کرے اور جو بھی نعمتیں حاصل ہیں اسپر شاکرِ ہوں نہ کہ متکبر۔ آمین۔
محمد طاہر جمیل۔ دوحہ۔ قطر

اپنا تبصرہ لکھیں