عام طور سے ہمیں وہ چیزیں سب سے ذیادہ نقصان پہنچاتی ہیں جو ہم سب سے ذیادہ شوق سے کھاتے ہیں۔کچھ ساینسی ماہرین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ خوراک کی تبدیلی دماغی صحت کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔برائن گوڈ فرے کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہے کیونکہ خوراک کی تبدیلی نے ان کی زندگی ہی بدل ڈالی۔
برائن گوڈ فرے پچھلے چالیس برس سے دائمی ڈپریشن کے مریض تھے۔انہیں یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ ٹین ایجر تھے۔انہوں نے اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے دوائں کے علاہ سائیکو تھراپی تک آزما ڈالی مگر سب بے سود۔انکا کہنا ہے کہ ساٹھ کی دہائی تک انکی حالت اتنی بگڑ گئی کہ انہوں نے خود کشی کا ارادہ کر لیا۔
برائن کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی خوفناک وقت تھا۔صبھ بھاری سر کے ساتھ بیدار ہتا تھا پھر مجھ سے کچھ نہ کیا جاتا تھا۔میں اپنے آپ کو تھکا ہوا اور ڈیپریسڈ محسوس کرتا تھا۔جی چاہتا تھا کہ ہر وقت روتا رہوں۔مجھے احساس ہو گیا تھا کہ دوائیوں سے میرا علاج ممکن نہیں۔میں لائیبریری گیا جہاں خوراک کے بارے میں مجھے ایک کتاب ملی۔اکہتر سالہ گڈ فرے کہتے ہیںمیں نے اپنی خوراک میں گندم اور دودھ سے بنی اشیاء ترک کر دیں۔اور صرف تین ہفتوں میں ہی میری ھالت بہتر ہونے لگی۔یہ تو ایک معجزہ تھا۔میں ایک صبح بیدار ہوا تو میرے سارے مسائل ختم ہو چکے تھے۔گوڈ فرے نے ددھ اور گندم کے علاوہ چاکلیٹ،انڈے ،کافی،چائے اور سگریٹ بھی چھوڑ دی وہ کہتے ہیںاب میں کھانے میں بہت احتیاط کرتا ہوں۔یہ اتنا آسان نہیں۔میں گوشت مچھلی سبزیاں ار پھل کھاتا ہوں۔
اب ہ ڈپریشن سے مکمل طور پر چھٹکارا پا چکے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ دوسرے افراد کو بھی علاج کے لیے تبدیلی ء خوراک کا طریقہ آزمانا چاہیے۔خوراک کا تعلق دماغی امراض سے ہے۔میرے خیال سے آپ کو سب سے ذیادہ وہ خوراک نقصان پہنچاتی ہے جو آپ ذیادہ شق سے کھاتے ہیں۔