بعض ایسے پھل بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ اس لئے کہ پھلوں تک پہنچنے اور ان پھلوں کو اپنے پیٹ کے اندر پہنچانے کے لئے آدمی کو اپنے بنک بیلنس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ انسانوں نے پھلوں کی بھی طبقہ واری تقسیم کر رکھی ہے۔ امیروں کے پھل ، غریبوں کے پھل اور متوسط طبقہ کے لئے صبر اور نیکی کا پھل۔
آئیے کچھ پھلوں کا فردا فردا ذکر ہو جائے۔ سب سے پہلے ہم “آم” کا ذکر کریں گے۔ اسے ہم لوگوں نے پھلوں کا بادشاہ بنا رکھا ہے۔ آم خالص ہندوستانی پھل ہے اسلئے اس کی بیشمار قسمیں ہیں۔ عورت اور سانپ کی بھی اتنی قسمیں نہیں ہوتیں جتنی کہ آم کی ہوتی ہیں۔ امیر اور غریب ، مزدور اور سرمایہ دار ، شاعر اور فنکار ، افسر اور ماتحت ، غرض کہ ہر کوئی اس پھل کا رسیا ہے۔
آموں کے کئی نام ہوتے ہیں۔ بعض نام اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان پر تخلص کا گمان ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح آموں کی صورت اور سیرت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آم کی صورت جتنی اچھی ہوگی اس کی سیرت اتنا ہی دھوکا دے گی۔
کچھ لوگوں کا شوق آم کھانا ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا شوق دوسروں کو آم کھاتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔ ہمارا شمار موخرالذکر انسانوں کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ آم کھانے میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ کسی کو آم کھاتے ہوئے دیکھنے میں آتا ہے۔ آدمی جب آم کھاتا ہے تو اس کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوبرو سے خوبرو آدمی بھی جب آم کھاتا ہے تو بدصورت دکھائی دینے لگتا ہے۔ آدمی ہر موقع کی تصویر کھنچواتا ہے لیکن ہم نے کسی کو آج تک آم کھاتے وقت تصویر کھنچواتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آم کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے آدمی کو اپنی شکل بگاڑنی پڑتی ہے۔ آم جتنا بڑا ہوگا آدمی کی شکل اتنی ہی بگڑے گی۔ اگر آم بڑا نہ ہو اور اس کے ذائقہ میں کھٹائی شامل ہو تو یہ ذائقہ آدمی کے چہرے پر عیاں ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آدمی آم نہ کھا رہا ہو ، ارنڈی کا تیل پی رہا ہو۔
کچھ لوگ زندگی کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے جتنی کہ آموں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جب بھی آم کھلاتے ہیں تو ہر آم کی خصوصیت پہلے ہی بتا دیتے ہیں۔ اس کا شجرہ بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ آم تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کا تعارف بڑا ہوتا ہے یعنی ڈاڑھی سے مونچھیں بڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم ان کے ساتھ آم کھاتے ہیں تو پیٹ آموں سے اور دماغ معلومات سے بھر جاتا ہے۔
آموں کو آم کے باغ میں کھانے کا جو لطف آتا ہے ، وہ ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے میں نہیں آتا۔ جب ہم بچے تھے تو آم کے باغ میں ہی آم کھایا کرتے تھے ، باغ کسی اور کا ہوتا تھا لیکن آم ہمارے ہوتے تھے۔ مطلوبہ آم کو تاک کر اس طرح پتھر مارتے تھے کہ آم سیدھے نیچے آ رہتا تھا۔ یہ بچپن کا ریاض ہی ہے کہ آج تک ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔
آم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے باعث ہمارے اہل وطن میں وطن پرستی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست پچھلے چار برس سے امریکہ میں رہتے ہیں۔ آم کے ہر موسم میں وہ ہمیں خط لکھ کر اپنے وطن کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آم جیسا پھل ہندوستان میں پیدا نہ ہوتا تو انہیں اپنا وطن ہرگز یاد نہ آتا۔ پچھلے سال ہم نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ان کی خدمت میں 6 آم بھیجے تھے۔ موصوف نے ہمیں شکریہ کے 6 خط لکھے اور اپنے وطن کو شدت سے یاد کیا۔
(کچھ پھلوں کے بارے میں :: مجتبی حسین)