نعیم کوثری کا مجموعہ

ضیا فاروقی
عرصہ ہوا میں نے جرمن نغمہ نگار شوبرٹ کے متعلق کہیں پڑھا تھا کہ اس نے اپنے معاشرے میں نغمہ نگاروں کی ناقدری سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے بیٹوں کو اس پیشے سے دور رکھا اور انھیں دوسرے شعبوں میں اعلی تعلیم دلوائی مگر ہوا یہ کہ ایک عمر پر آکر اس کے تینوں بیٹے نغمہ نگاری سے وابستہ ہوگئے اور اسی فن میں نام کمایا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے عہد کے معروف افسانہ نگار حکیم کوثر چاندپوری نے اپنے بیٹوں کو اردو زبان و ادب میں کمال دکھانے کے لئے شعوری طور پر راغب کیا تھا یا نہیں مگر ان کے ایک صاحبزادے نعیم کوثر کے سلسلے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کامرس میں اعلی تعلیم حاصل کرنے اور غیر تدریسی ملازمت سے وابستہ رہنے کے باوجود میراث پدر کو حرزجاں بناکر اردو کے افسانوی ادب میں اپنی طبع کے جوہر دکھائے۔

نعیم کوثر نے یہی نہیں کہ بحیثیت افسانہ نگار نام کمایا بلکہ صدائے اردوکے حوالے سے ادبی صحافت کے میدان میں بھی اپنی فکر کے چراغ روشن کئے ۔ صدائے اردو جو ایک طویل عرصہ تک پندرہ روزہ اخبار کی شکل میں نکلتا رہا اور اب ماہنامہ کی صورت میں ہماری چشم مطالعہ کو روشن کرتا ہے نہ صرف یہ کہ عہد حاضر کی ادبی خبروں سے مزین ہوتا ہے بلکہ معتبر اہل قلم کی بہترین نگارشات بھی اس کے صفحات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ نعیم کوثر کے افسانے ملک اور بیرون ملک کے مقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے پانچ افسانوی مجموعہ خوابوں کا مسیحا، کال کوٹھری، اقرار نامہ اگنی پریکشا اور آخری رات اب تک شائع ہوچکے ہیں ۔اردو کے علاوہ ہندی میں بھی ان کا ایک مجموعہ رگِ جاں کا لہو کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور ہنوز یہ سفر جاری ہے۔
نعیم کوثر صاحب نے ترقی پسند تحریک کا عروج و زوال بھی دیکھا اور جدیدیت کی علامت نگاری اور ابہام طرازی کا شور بھی سنا۔ مابعد جدیدیت کے غبار سے بھی آشنا ہوئے اور جادوئی منظرنگاری کے سحر سے بھی گزرے مگر ان کی کہانیوں کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شروع سے ہی بغیر کسی تحریک ایا ازم کا لیبل لگائے اپنے اشہب قلم سے ان جہانوں کو سرکرتے رہے جہاں زندگی کے خارزار معاشرے کے عام آدمی کو لہولہان کر رہے تھے۔ عام آدمی کا یہ کرب اس کی داخلی حسیت کے سبب بھی اور خارجی انتشار کی وجہ سے بھی۔
نعیم کوثر کی کہانیوں میں علامتی یا استعاراتی پیچیدگی کم ہی نظر آتی ہے بلکہ دیکھا جائے تو ان کی کہانیوں کا ایسا رواں دواں بیانیہ جس میں مختلف کردار انتہائی سادگی سے اپنا کام انجام دیتے نظر آتے ہیں قاری کو اختتام تک اپنی گرفت میں لئے رہتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار یا تو ہمارے آس پاس سے ٹوٹتے بکھرتے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں یا پھر ماضی قریب کی ان تاریخی سچائیوں سے عبارت ہوتے ہیں جن کے نقوش کو وقت کی کج رفتاری نے پوری طرح گرد آلود نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کے تازہ مجموعہ آخری رات کے افسانوں کا جائزہ لیں تو کئی افسانوں کو میری مندرجہ بالا باتوں کی تائید میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ مثلا اڑن چھو، خدائی خدمتگار اور رتی لال وہ کہانیاں ہیں جن کے پس منظر میں حال کے مسائل بھی ہیں اور ماضی قریب کا تہذیبی نشاط و ملال کے مناظر بھی۔ اڑن چھو جنسی استحصال کی وہ دردناک کہانی ہے جس میں بھولی بھالی بچیوں کو بچپن میں ہی درندگی کا شکار بنادیا جاتا ہے۔ اڑن چھو کی چنی خالہ جیسے کردار تقریبا پون صدی سے ہمارے ادب میں کسی نہ کسی صورت میں موجود نظر آتے ہیں۔ سماج میں عورتوں کی عصمت کی پامالی کو یوں تو کئی افسانہ نگاروں نے موضوع بنایا ہے مگر نعیم کوثر نے اس موضوع کو جس طرح برتا ہے اس میں کرب کی شدت بھی ہے اور نئے پن کا احساس بھی۔رتی لال کاپس منظر بھی ایک ایسی خوبصورت اور جوان عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے۔ یہ کہانی کئی اعتبار سے اہم ہے۔ کہانی کا بنیادی کردار رتی لال خاکروب ایسا شخص ہے جو اخلاقی رواداری کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اس نے سن رکھا ہے کہ برہما نے شودروں کو اپنے پیروں سے پیدا کیا ہے اور ان کا کام بڑی ذات والوں کی سیوا کرنا ہے ۔ رتی لال کا کردار آج کے اکیسویں صدی کے تہذیبی اور سماجی پس منظر میں شاید قاری کو اجنبیت کا احساس دلائے لیکن ابھی نصف صدی قبل جنہوں نے اِن کرداروں کو متحرک دیکھا ہے ، وہ یقینارتی لال کے رویے اور اس کی ذہنی کشمکش کو بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں۔
یہ کہانی جو عشرت یار خاں جاگیردار کی حویلی سے شروع ہوکر پوسٹ مارٹم ہاس تک جاتی ہے، اپنے دو کرداروں رتی لال خاکروب اور عشرت یارخاں کی بڑی بہو پری بیگم کے سبب بے حد دلچسپ اور دیرپا تاثر قائم کرتی ہے۔ رتی لال خاکروب جس کا خاندان پشتوں سے حویلی کی خدمت پر مامور ہے، وہ نہ صرف یہ کہ حویلی کے مکینوں سے پوری طرح مانوس ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ عشرت یار خاں کے بڑے بیٹے سہیل اور بڑی بہو پری بیگم کو چنبیلی کی خوشبو بے حد پسند ہے اور ان کے کپڑے چنبیلی کے عطر سے مہکتے رہتے ہیں۔ جب کہ چھوٹا بیٹا عامر خس کے عطر کا شیدائی ہے۔ پری بیگم جس کے حسن و جمال کے قصے وہ بچپن ہی سے سنتا آیا ہے مگر جن کی ایک جھلک بھی کبھی نہیں دیکھ پایا۔ وہ تخیل میں اکثر پری بیگم کی شبیہ بناتا رہتا اور سوچتا رہتا ہے کہ بھگوان نے اسے یقینااپنے ہاتھوں سے بنایا ہوگا ۔ رتی لال کی پری بیگم کے تئیں ذہنی کیفیت اِس اقتباس سے بھی پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔
رتی لال حویلی میں پانچ سال آیا مگر پری بیگم کی ایک جھلک نہ دیکھ سکا۔ اس نے دوستوں سے پوچھا کہ جنت کی حور کیا ہوتی ہے۔ کیسی ہوتی ہے اور کس چیز سے بنی ہوتی ہے ۔ اس کے دوستوں کی بدھی بھی جھاڑوں کے تنکوں جیسی تھی ۔ وہ حور کے بارے میں کیا خاک جانتے۔ وہ سوچتا برہما نے اس جیسے شودر پیروں سے پیدا کئے ہیں تو پری بیگم کو ضرور اپنے ہاتھوں سے جنم دیا ہوگا۔
بھاگتے لمحوں کی گرفت میں آکر منظر بدلتا ہے ۔ رتی لال بڑا ہوکر سرکاری اسپتال میں وارڈ بوائے ہوجاتا ہے اور اس کی ڈیوٹی پوسٹ مارٹم ہاس میں لگادی جاتی ہے۔ اِدھر پری بیگم جو اپنے شوہر کی حادثاتی موت کے بعد بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ ایک دن اچانک خودکشی کرلیتی ہے۔ پھر لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لائی جاتی ہے ، رتی لال کی ڈیوٹی ہے کہ وہ بدن کی آلائش نکال کر باہر رکھے ، چنانچہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی پر مستعد ہے ۔ لاش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پری بیگم کی مرنے سے قبل عصمت دری کی گئی ہے ۔ وہ لاش کے کپڑوں سے آتی خس کے عطر کی خوشبو کو بھی پہچان لیتا ہے کہ یہ پری بیگم کے دیور عامر کا پسندیدہ عطر ہے ۔ اِس پورے منظر کو نعیم کوثر نے جس سلیقے سے اور کم سے کم الفاظ میں پیش کیا ہے، وہ یقیناقلم پر ان کی گرفت کا غماز ہے۔
رتی لال نے دھاردار چاقو اٹھایا۔ آہستہ آہستہ ٹیبل کے پاس آیا۔ تبھی ہوا کا تیز تھپیڑا پھڑک اٹھا اور پری بیگم کی چادر پیروں تک اڑ گئی۔ رتی لال کی آنکھیں شرم و حیا سے مندنے لگیں۔ ہلکے گلابی رنگ کا کرتا پیٹ سے کھنچ کر سینہ پر آگیا تھا۔ سفید چوڑی دار پائجامہ کے ازار بند کی کساوٹ کولہو کے نیچے تک کھسک آئی تھی۔ سرمئی سلوٹوں کے نشان ننھے ننھے کنگروں کی شکل میں ابھرے ہوئے ایسے لگ رہے تھے جیسے کرخت مردانگی نے جنونی انداز میں گدگدی کی ہو۔ کرتے سے خس کے عطر کا جھونکا رتی لال کے نتھنوں میں گھسا اور اسے زبردست چھینک آئی۔ چاقو ہاتھ سے پھسل گیا۔ اسے بڑا اچنبھا ہوا۔ پری بیگم کے کپڑے چنبیلی کے عطر میں ڈوبے رہتے تھے۔ سر جھٹک کے اس نے چاقو سنبھالا اور ہولے ہولے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
رتی لال نے یہی نہیں کہ ڈاکٹر کو رپورٹ دیتے ہوئے عصمت دری کی صورت حال پر پردہ ڈالا بلکہ پری بیگم کی انگلی میں جو ایک انگوٹھی رہ گئی تھی، اسے بھی اتارکر چپ چاپ اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے اور ڈیوٹی کے بعد حویلی جاکر وہ انگوٹھی عشرت یارخاں کے سپرد کردیتا ہے۔
نعیم کوثر نے یہی نہیں کہ متذکرہ افسانے میں رتی لال کے جذبات و احساسات کو اشاروں اور کنایوں کے ذریعے خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے بلکہ پوسٹ مارٹم کے لئے لائی گئی لاشوں کے تئیں ڈاکٹروں کا رویہ اور بے ضابطگیوں کا بھی کمالِ ہوشیاری سے بیان کردیا ہے۔ متذکرہ کہانی میں پری بیگم کا کردار بھی سماج میں خواتین کے عدم تحفظ اور گھٹن کی نشاندہی کرتا ہے۔ سہ ماہی فکروفن کے افسانہ نمبر میں متذکرہ افسانے پر تبصرہ کرتے ہوئے نگار عظیم نے لکھا ہے کہ اپنے ہی گھر کی چہاردیواری میں اپنوں سے لٹنے والی پری بیگم خود اپنا سامنا نہیں کرسکیں اور انہیں زہر کھانا پڑا اور وہ رتی لال جو ان کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا پری بیگم کو دیکھا بھی تو کس حال میں۔
متذکرہ افسانہ رتی لال ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوا ، چنانچہ ساہتیہ اکادمی کے مجلہ بھارتیہ سمکالین ادب میں بھی یہ افسانہ شامل ہے۔
آخری رات میں سترہ کہانیاں ہیں۔ نعیم کوثر کی کہانیوں میں یہی نہیں کہ بیشتر کردار شناسا اور مانوس ہوتے ہیں بلکہ ان میں اکثر علاقائی لب و لہجہ کے علاوہ خود علاقہ کا عکس بھی لرزتا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے پرندوں اور جانوروں کو بنیاد بناکر بھی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ یہ علامتی کردار اپنے آپ میں مکمل اور بھرپور ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں