تحریر غلام یوسف
ایک بیوی نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا کہ ڈارلنگ! میں اتنی حسین و جمیل ہوں پرآپ میری تعریف کبھی نہیں کرتے۔آج دو لائنوں میں میری تعریف کریں۔شوہر بولا: واللہ تم اتنی خوبصورت ہو کہ تمہارے جیسی دو ہونی چاہئیں اور یہ کہ : تم اتنی خوبصورت اور کمینے دل کی مالک ہو کہ اللہ تعالی میرے دشمنوں کو ایسی چار بیویاں دیوے!
بہرحال یہ تو ایک لطیفہ تھا اب بات ہے حسن اور حسن نکھارنے کی تو، اسکے زیادہ تر طور طریقے ویسے تو بیسیکلی خواتین ہی استعمال کرتی ہیں، پر آجکل کے مرد بھی خواتین سے کسی طور پیچھے نہیں اور میک اپ شیک اپ، فیشل ویشل، تھریڈنگ وریڈنگ، وغیرہ تو معمول کی بات ہے۔زندگی کے مختلف طبقے کے لوگ اپنا حسن سنوارنے کیلئے کیا کچھ کرتے ہیں۔آئیں دیکھیں۔
سیاست دان اپنا حسن کیسے نکھاریں گے
ہمارے ملک کی سیاست ہمیشہ طوائفوں میں ہی گھری رہتی ہے اور اس میں مختلف قسم کے سیاستدان پائے جاتے ہیں مثلا وگ والے سیاستدان، گنجے سیاستدان، بالوں والے سیاستدان، چشمے والے سیاست دان، بغیر چشمے والے سیاستدان، مولوی سیاستدان، غیر مولوی سیاستدان، بوڑھی، شادی شدہ اور کنواری سیاستدان وغیرہ وغیرہ،،،،خواتین کے حسن نکھارے کے طریقے تو سبھی جانتے ہیں ، لیکن ہمارا موضوع صرف مرد حضرات ہیں۔مثلا اچھا میک اپ کرنے کیلئے سیاستدانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوام کے خون سے ایک ہموار بیس بنا کر مہنگائی کی فاندیشن لگائیں، پھر بیروزگاری کا موئسچرائزر لگا کر آگے بڑھیں۔فانڈیشن کے شیڈ چوز کرنے کیلئے عوام کو نت نئے قسم کے بیان دے کر ولادیں۔فانڈیشن میں عوام کے خون پسینے کی حلال کی کمائی ملا کر اسے اپنے چہرے پرلیپ کریں۔اگر نکھار نہ آئے تو مزید ٹیکس لگا کر مزید نچوڑیں اور پھر مر گئے ، لٹ گئے کا فانڈیشن ملا کر اپلائی کریں۔ اگر یہ جلد میں جذب ہوکر رنگت سے میچ کر جائے یعنی ٹارگٹ اچیئو ہوجائے تو سمجھیں کہ آپکا تجربہ کامیاب رہا۔غلط اور بازاری قسم کے فانڈیشن استعمال کرنے سے چہرے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے لہذا ٹیکس لگاتے وقت اس چیز کا خاص خیال رکھیں۔فانڈیشن لگاتے وقت خیال رہے کہ وہ عوام کے پیسٹ کی شکل میں ہو۔ اصلی حالت میں نہ ہو۔اسے چہرے کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگائیں اور گردن اور کاندھوں پر بھی لگائیں اس کے بعد بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اسے آہستہ آہستہ جذب ایسے کریں جیسے عوام مہنگائی کو جذب کرتے ہیں۔اس کے لئے عوام کا ہی کاسمیٹک اسفنج استعمال کریں اور یہ بھی دھیان رہے کہ چہرے پر فانڈیشن لگاتے وقت عوام کا خیال ذہن میں بالکل نہ رکھیں ورنہ اصلیت بھی کھل سکتی ہے۔عوام کے پیور خون سے کلینزنگ کرتے وقت بار بار پانی یا خون اپنے ہاتھوں پر بھی لگائیں۔سکربنگ عوام کی گردن سے شروع کریں اور پاں تک لے جائیں تاکہ پورا جسم مستفیذ ہو۔ یہ اسکربنگ والا فارمولا تقریبا ہر حکومت ہی آزماتی ہے اور کامیاب رہتی ہے۔اس کے بعد دوبارہ کسی غریب کو اسفنج بنا کر ہاتھوں میں اوگی کارٹون کی طرح اچھی طرح بھینچ کر اسے صاف کرلیں۔اس کے بعد دہشت گردی کے ٹونر سے اسکن کی ٹوننگ کریں۔اس کے بعد عوامی وعدوں کی کریم سے چہرے کا خوب اچھی طرح مساج کریں اور جب تک نہ اتاریں جب تک ان(عوام) کی چیخیں نہ نکل جائیں۔آخر میں غنڈہ گردی ،جھوٹ ،مکاری ،فریب کاری کا ماسک لگائیں۔ماسک میں عوام کا معجون اور اسی کے نچوڑ سے بنا دودھ لے کر اچھی طرح مکس کرکے چہرے پر لگائیں۔خشک ہوجائے تو اتار لیں اور آخر میں عوام کے پسینے کے عرق سے اسے دھو ڈالیں۔میک اپ کرتے وقت گردن کا خاص خیال رہے کہ عوام کی گردن اور چھری میں زیادہ فاصلہ نہ ہو اور چہرے اور گردن کی رنگت ایک جیسی ہو۔اگر کلر کا مسئلہ در پیش ہو تو کسی عوام دشمن قانون کو منظور کر اکر اس کا عرق شامل کرکے چہرے اور گردن کا مساج کریں تو مزید نکھار آجائیگا۔پرابلم کی صورت میں کسی بھی قریبی پارلر کو فون کریں یا تشریف لے جائیں۔
مزید یہ کہ چہرے کے کالے دھبے چھپانے کے لئے رشوت کے لیبل اور پھر ہیروئین کا فیس پاڈر لگا کر فانڈیشن زیادہ ٹائم لگی رہنے دیں۔عوام کو باتوں کے فیشل کے بعد ان کے بال کنڈلے کرکے بیانوں اور باتوں اور اجلاسوں کے کنڈلوں میں الجھا کر مہینوں بٹھائے رکھیں۔ویسے یار! مولوی سیاستدانوں کے لئے مسئلہ ہے کہ فیشل یا میک اپ کون کریگا؟ مرد یا عوت؟ اگر عورت بھیج دی تو انکے لئے محرم اور نا محرم کا اشو کھڑا ہوجائے گا، اگر مرد بھیج دیا تو کہیں گے کہ لو اب ہم میک اپ کیا مردوں سے کرائیں! ویسے بھی تحفظات والے مولوی صاحب آجکل حکومت سے کچھ نالاں نالاں سے ہیں۔مزید نالاں ہوگئے تو کیا ہوگا؟ کئی ایک سیاست دانوں نے حرام کا مال کھا کھا کر اور عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ توڑ کر اپنے چہروں پر اتنی کچھ منحوست سجائی ہوتی ہے کہ ان کے منحوس چہرے تیزاب سے بھی دھو تو بھی صاف نہ ہونگ اور نہ نکھریں گے۔ اسی طرح اور بہت سے زانی ، شرابی کبابی سیاستدان بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کے مکروہ چہروں پر کوئی فیشل ویشل اثر نہیں کرتا۔ویسے اگر سچی مچی میں کوئی لیڈی کسی مولوی کا میک اپ کررہی ہو تو وہ سین پاٹ دیکھنے والا ہوگا اور یو ٹیوب پر نمبر ون بن جائیگا!
بزنس مین کا حسن
بزنس مینوں نے حرام کا مال اکٹھا کرکے اور ذخیرہ اندوزی سے کمایا ہو مال کھا کھا کر اپنا حسن اتنا بگاڑا ہوا ہوتا ہے کہ ان پر بھی فیشل یا فانڈیشن کام نہیں کرتا۔مثلا آلو کو ہی لے لیں کہ پندرہ روپے سے اسی روپے کلو پر پہنچا دیا۔تاہم پھر بھی کچھ بزنس مین ابھی ایسے ہیں جن پر فیشل کا اثر اچھا ہوتا ہے اور وہ عوام کے کچومر کا ماسک اکثر اپنے چہرے پر لگا کر حسن نکھارتے رہتے ہیں۔تاہم کچھ شریف بزنس مین یہ حسن گاجر اور کھیرے کے ماسک سے بھی سنوار لیتے ہیں۔آج کابزنس مین بہت اڈوانس ہوچکا ہے اور چن چن کر ایسے لونڈے کاروبار میں رکھتا ہے جو دکھنے میں چکنے اور فیشل وغیرہ کراتے رہتے ہوں۔
سرکاری ملازم کاحسن
سرکاری ملازم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک رشوت خور، ایک بغیر رشوت خور۔رشوت خور پر تو کوئی میک اپ شیک اپ یا فیشل کام ہی نہیں کرتا کہ اس کے منہ پر ویسے ہی حرام کھانے کی وجہ سے بہت پھٹکار ہوتی ہے۔البتہ بغیر رشوت والا ملازم اس فیشل سے کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور فانڈیشن اور بیس کے بغیر بھی اس کا حسن زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔کچھ سرکاری ملازم کام پر جاتے ہی نہیں او رگھر بیٹھے حرام کھاتے ہیں۔کچھ ایسے ہیں کہ کام پر تو جاتے ہیں پر ادھر ادھر ٹائم پاس کرکے واپس گھر یااپنے پارٹ ٹائم کام پر۔تو میرے بھائی ان پر بھی کوئی فیشل ، فانڈیشن یا فیئر اینڈ لوولی کا م نہیں کرتی۔
کھلاڑی کا حسن
کھلاڑی کسی بھی کھیل کا ہو کھلاڑی ہی ہوتا ہے۔کھلاڑی اگر میچ فکسنگ میں ملوث نہ ہو تو اسکا حسن بغیر میٹریل کے نکھر سکتا ہے۔تاہم اگر میچ فکسنگ میں ملوث ہوا تو پھر مشکل ہے کہ اس پر میک اپ کا کوئی اسٹیپ کام کرے۔کھلاڑی اگر اچھا کھیلے تو واپسی پر سری لنکاکی کرکٹ ٹیم اور اسٹریٹ چائلڈز فٹ بال ٹیم کی طرح ان پر ڈالروں اور روپوں کی بارش ، ورنہ انڈوں اور ٹماٹروں کی۔تو ایسے میں حسن نہیں کچھ اور ہی نکھر جائیگا۔
اناڑی کا حسن
اناڑی بندے نے حسن نکھارنا نہیں بلکہ بگاڑنا ہوتا ہے کہ فانڈیشن ، بیس، کلر میچنگ، سکربنگ، نکھار ، رنگت، پیسٹ، جذب، کلینزنگ، مساج ، اسفنج، ٹوننگ، کاسمیٹک، ماسک، عرق وغیرہ جیسے الفاظ اور کاموں کا اس نے برا حشر کرکے اپنا بر احال کرلینا ہے۔تے اینوں جان دیو!
ایک عام آدمی کا حسن
اس بیچارے نے کیا حسن نکھارنا ہے کہ اس کے پاس اتنے فالتو پیسے اور ٹائم بچے گا تو وہ کچھ اپنے حسن کو سنوارنے کے بارے میں سوچ گا۔ ویسے اگر نکھارنے بھی بیٹھے تو حسن نکھارنے سے پہلے اس کا خرچہ دیکھ کر ہی اس کا سارا حسن بگڑ جائے گا۔لہذا اس بیچارے کو تو کپڑے دھونے والے صابن کی ایک چکی یا پھر دس روپے والے صرف کا ایک پیکٹ ہی کافی ہے۔پورا جسم ہی نکھر جائیگا۔ویسے تو یہ بیچارہ گھر اور دنیا داری کے بکھیڑوں میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ اسے نہیں پتہ کہ میک اپ یا حسن نکھارنا ہوتا کیا ہے؟ ویسے پچھلے زمانے میں میک اپ میں زیادہ جھنجٹ نہیں تھا۔خواتین ایک تبت سنو کریم اور ایک لپ اسٹک سے کام چلا لیتی تھیں۔اب بھی اگر صرف یہی فارمولا استعمال کیا جائے تو بہت سستے میں حسن نکھارنے کا کام ہوسکتا ہے۔
ایک اداکار کاحسن
اس کا تو کام ہی سارا دن حسن نکھار کر جلوے دکھا کر دوسروں کو گھائل کرنا ہوتا ہے۔ان کے حسن نکھارنے کیلئے تو کئی کئی بندے اور بندیاں رکھی گئی ہوتی ہیں کیوں کہ اس کے بغیر وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ اسکرین پر آسکیں۔آپ دیکھیں کہ نانا پاٹیکر، رجنی کانت، نصیر الدین شاہ، شترو گھن سنہا، جیسے لوگوں کو بھی میک اپ کے ذریعے ہیرو کے روپ میں پیش کردیا جاتا ہے۔یہ حسن نکھارنے کا ہی کمال ہے کہ واجبی صورت والے یہ اداکار ہیرو رہے ہیں۔اس کے علاوہ شاہ رخ خان، اکشے کمار ، اجے دیو گن وغیرہ بھی کالے کلوٹے حسن نکھرنے کی وجہ سے ہی آج ہیرو گنے جاتے ہیں۔پاکستان آئیڈیل پروگرام میں بھی کل کے لونڈے میک اپ سے حسن نکھرنے پر آجکل ہیرو سے دکھتے ہیں۔مزید یہ کہ انگریزی فلموں کے اداکاروں کے کیا کہنے مثلا سلوسٹر، آرنلڈ، جان ریمبو، ٹام کروز۔یہ سب اداکار معمولی حسن کے ساتھ بھی فلموں میں کام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ کبھی گھانا، نائجیریا، کیمرون ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا وغیرہ کے ہیرو دیکھ لیں توآپ خود کو ہیرو اور انہیں زیرو تصور کریں گے۔بھلا کیوں؟ یہ آپ خود سوچیں۔انہی میک اپ زدہ چہروں کو دیکھنے کی لوگ شدید خواہش اور تمنا کرتے ہیں۔پر معروف بیوروکریٹ اور میرے آئیڈیل ذوالفقار چیمہ صاحب اپنے دور ہندوستان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہاں ان سے پوچھا گیا کہ آپ اگر مشہور اداکاروں سے ملنا پسند فرمائیں تو انتظام کیا جاسکتا ہے۔پر انہوں نے بہت ہی پیار سے جواب دیا کہ اداکاروں سے ملنے کا کیا فائدہ۔بندہ ملے تو کسی رائٹر سے ملے، شاعر سے ملے،ٹیچر سے ملے تاکہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔تو ایسا بھی ہوتا ہے دنیا میں۔
روزگار کے سلسلے میں بیس برس قبل جب ہم دوبئی ،ابو ظہبی میں مقیم تھے تو وہاں ایک بار ابو ظہبی ریڈیو پر استاد محترم جناب ہارون پاشا صاحب کے ساتھ ایک ڈرامہ ریکارڈ کرانے گئے تو ہمارے ایک ساتھی ناصر حسین ایک روز کچھ عجیب سے نکھرے نکھرے نظر آئے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ فیشل اور میک اپ کا کمال ہے۔تو تب سے ہمیں معلوم ہوا کہ مرد حضرات بھی صنفِ نازک میں شامل ہوئے جاتے ہیں۔یا پھر شاید پہلی بار مردوں کا پارلر ہم نے کراچی کی شاہ فیصل کالونی میں تیس، پینتیس برس قبل دیکھا تھا۔پر اب تو یہ بیماری بہت عام ہے۔
تو جناب مذکورہ بیان کردہ صرف ٹوٹکے ہیں جو رونق، نور، بشاشت، حسن ، باوضو رہنے ، نماز کی پابندی کرنے ، جھوٹ غیبت سے بچنے ، دل صاف رکھنے، صبح جلد اٹھ کر سیر کرنے اور درود پاک کا ورد رکھنے سے چہرے پرآتی ہے وہ مذکورہ تمام ٹونکوں سے بھی نہیں آسکتی۔آزمائش شرط ہے۔پھر وہی آج کی بات کہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں ہنسنا ہی زندگی ہے۔
میاں گھر آئے تو بھوک زوروں پہ تھی۔بیگم نے گوبھی گوشت پکایا تھا۔یہ شائد بھوک کا اثر تھا یا اس دن شاید بیگم نے کچھ توجہ سے کھانا بنایا تھا۔میاں کھانا کھا کر نہال ہوگئے اور انہوں نے دل کھول کر کھانے اور اس کے ساتھ ہی بیگم کی تعریف کی۔ اگلے دن کھانا کھانے بیٹھے تو دستر خوان پھر گوبھی گوشت کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر بیگم کی طرف دیکھا اور کھانا شروع کردیا۔اگلے دن پھرگوبھی گوشت عین کھانے کے وقت ان کا منہ چڑا رہا تھا۔میاں سوائے بیگم کی طرف دیکھنے کے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔گوبھی گوشت زہر مار کیا اور منہ بسورتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔اب گوبھی گوشت گویا ان کی چھیڑ بن گئی تھی۔بیگم لیکن گوبھی گوشت کی تعریف کے نشے میں مگن تھیں انہیں احساس ہی نہ ہو سکا کہ تحسین کے چکر میں وہ بے ضرر سے میاں کی کھوپڑی الٹ چکی ہیں۔اگلے دن دستر خوان پہ گوبھی گوشت کا ڈونگا اٹھایا اور سامنے کی دیوار پر دے مارا۔بیگم ہکا بکا کہ میاں کو کیا ہوگیا۔اب خاتون کو کون سمجھاتا کہ میاں بھلے میاں ہوں لیکن انسان بھی ہیں اور انسان کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔انسان ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور تنوع مانگتا ہے۔