سمیع اللہ ملک
/اپریل کوامریکاکے تمام بڑے اخبارات بشمول نیویارک ٹائمز ،واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ہیڈ لائنز میں یہ خبرشائع کی ہے کہ امریکہ کے شہر نیویارک کی پولیس کے نئے کمشنر ولیئم بریٹن نے مسلمانوں کی خفیہ نگرانی کرنے والے محکمے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سے امریکی حکومت اپنے شہریوں کی اور خاص طور پرامریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی خفیہ نگرانی کرتی رہی ہے۔ڈیموگرافکس یونٹ نامی اس سرکاری پروگرام کا کام مسلمانوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور ان کی حرکات و سکنات کی خفیہ طور پر نگرانی کرنا تھا۔
اس یونٹ کے اہلکار مسلمانوں کے رہائشی علاقوں میں جا کر لوگوں کی خریداری، ان کے کھانے پینے کی عادات، کام کاج، دلچسپیاں اور مشاغل سمیت ان کی نماز وعبادات کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کرتے تھے۔اب تک اس خفیہ یونٹ کے وجود کے بارے میں ہمیشہ جوسرکاری طورپرتردیدہوتی رہی ،اس کابھانڈہ بیچ بازار پھوٹ گیااورخودکوسول لبرٹی (شہری آزادیوں)کاچمپئن کہلانے والاملک امریکہ بہادرکایہ چہرہ ایک مرتبہ پھردنیاکے سامنے آہی گیا۔
راقم السطور یہ خبرپڑھ رہاتھاتو آج سے چندسال پہلے رونماہونے والے واقعات نے ذہن وقلب کا گویا میرامحاصرہ کرلیا۔ میرامعمول کا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ نماز جمعہ سے نمازی فارغ ہوتے ہیں تو مسجد کے باہر اور دالان میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے اظہار میں بڑے پر تپاک اندازمیں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ایمان و اخوت کو جلا دینے کا یہ خوبصورت اور دلکش منظر آنکھوں کو بہت بھلا اور دل کی طمانیت کیلئے بڑا فرحت بخش ہوتا ہے ،اس لئے نماز کے بعد کئی دوست آئندہ کے پروگرام بھی یہاں طے کر لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں نماز جمعہ سے فراغت کے بعدمیں ابھی مسجد سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک دوست نے کان میں سرگوشی کی کچھ دیرکے لئے رک جائیں آپ کی ملاقات کچھ ایسے دوستوں سے کرواتے ہیں کہ ان سے مل کر آپ کسی اور دنیا میں پہنچ جائیں گے۔ استعجاب وتجسس کے ملے جلے جذبات میں میرے قدم وہیں کے وہیں جم گئے۔
تھوڑی دیر بعد میرے دوست کے ساتھ تین افرادتشریف لائے،ان افراد کے چہرے کسی خاص یقین کے ساتھ چمک رہے تھے اور نہ جانے کیوں دل ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ سب ہی سے بغل گیر ہوئے اور پہلا تعارفی کلمہ یہ سننے کو ملا کہ یہ تمام مجاہد بدنام زماں گوانتانامو جیل کے ایکسرے کیمپ میں اپنی زندگی کے کئی سال گزار کر آئے ہیں ۔ہم سب مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ گفتگوکا آغاز کہاں سے کروں۔جب یہ برطانوی مسلمانوں کا پہلا گروپ رہاہو کر وطن لوٹ آیا تھا تو مشہور اخبار گارڈین نے ان کے تاثرات پر مبنی تفصیلات شائع کی تھیں ۔مہذب دنیا کے سب سے بڑے ملک کی انسانی حقوق کو پامال کرنے کی داستان جس نے بھی پڑھی ،حیرت ومایوسی سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
خوبصورت تیکھے نقوش والاجمال الحارث ،جس کا چہرہ خوبصورت داڑھی کے ساتھ کچھ زیادہ ہی حسین و جمیل لگ رہا تھا، نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ اسے کیمپ میں روزانہ پندرہ گھنٹے اس طرح بیڑیاں لگا کر پنجرے میں بند رکھا جاتا تھا کہ اس کے اعضا حر کت تک نہ کر سکتے تھے۔گارڈز اور سٹاف کا قیدیوں کو جسمانی ایذا ئیں پہنچانا روز کا معمول تھا۔ذرا غور کیجئے کہ ان قیدیوں کو نفسیاتی طور پر ریزہ ریزہ کرنے کے لئے انکل سام کی ہدایات پر کن کن اوچھے حربوں کا استعمال عمل میں لایا جاتا تھا؟کس طریقے سے ان کے انسانی حقوق پامال کئے جاتے رہے؟کتنے کرب میں ہوں گے اس کیمپ کے قیدیوں کہ جن کو جنیوا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی جو معمولی حقوق اور سہولیات حاصل تھیں،ان سے بھی انہیں محروم رکھا گیا۔
جمال ا لحارث کے ساتھی جمال الدین جس کا تعلق مانچسٹر سے ہے ،انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دن انسانی حقوق کی اس قدر پامالی دیکھنے کے بعد کیمپ کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ہم قیدیوں کو کم از کم وہ حقوق ہی دے دیں جو امریکہ میں جانوروں کو بھی حاصل ہیں مگر بے سود۔انہوں نے مجھے مزید یہ بھی بتایا کہ انہیں چالیس دفعہ بارہ بارہ گھنٹے کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑا جس کے دوران ہر طرح سے موصوف کو نفسیاتی دباسے زیر کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ان کے تیسرے دوست حماد نے ظلم و ستم کی وہ داستانیں سنائیں کہ مجھے اپنا سارا وجود گھومتا ہوا نظر آنے لگا ۔حماد نے جب یہ کہا کہ جب ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ،تو میں اپنے تصور کی دنیا میں کھو کر حضرتِ بلال اور حضرت خباب کی قربانیوں اور حق کی راہ میں جان نثا ریوں کو یاد کر کے ان پر واری ہو نے لگتا۔مجھے اس بات پر شرم محسوس ہوتی تھی کہ میں اپنی تکلیف پر کسی کو برابھلا کہوں،یقین کریں کہ میں ہرروز ان جلادوں کا انتظار کرتا تھا اور جب یہ جلاد ظلم وستم کے کوڑے برساتے ہوئے تھک ہارجاتے تھے تومجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی کسی وقت میں اب اپنے رب کے سامنے حاضر کیا جاں گا اور میرے ان زخموں کی گواہی میرے رب کو خوش کرنے کے لئے شاید کافی ہوں گی۔
کیوبا کا گوانتاموہو یاخود امریکا ،برطانیہ کی سرزمین،مسلمان ایک مشکوک کمیونٹی اور اسلام ایک مشکوک مذہب بن چکا ہے۔گیارہ ستمبر کے حادثات کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک فسادی تحریک ہے جو مسلسل چلائی جا رہی ہے اور جس کو سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر مسلم بیزار قوتوں کی پذیرائی حاصل ہے۔نائن الیون سے پہلے کھلے عام کسی مذہب یا شخص کے خلاف نفرت نہیں پھیلائی جا سکتی تھی مگر اس معماتی حادثے کے بعد یہ سلسلہ نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ اس کی ہلاکت آفرینیاں روز افزوں ہیں۔ اسی نفرت و عداوت کی بھٹی میں جلنے والے صلیبی اور صیہونی آئے دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں کبھی خاکم بدہن پیغمبر اسلام ۖکے حوالے سے یہ سیاہ دل مفتن کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر تے رہے،کبھی امریکہ کے ناہنجارپادری ٹیری جونزسرعام قرآن کریم کے ساتھ ابلیسی دست دارزی سے خود اپنے لئے دائمی آگ کاسامان جمع کرگیا، کبھی مسلمانوں کی مساجد پر گنبدوں پر اعتراض کر کے ان پر پابندی عائد کراوئی ، کبھی عفت مآب بیٹیوں اور بہنوں کے حجاب کو قانونا منوعہ قرار دلوایا اور بغیر کسی تکلف کے آئے دن مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کرکے، ان کی رسواکن تشہیر الیکٹرانک اور پریس میڈیا میں کر کے ایک بوال کھڑا کر دیا جاتا ہے لیکن جب تحقیق وتفتیش کے بعد ملزمین کے سر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا تو خاموشی کے ساتھ ان کو رہا کردیا جاتا ہے اور وہی یک چشمی میڈیا ان کی رہائی کو دانستہ طور پر نشر نہیں کرتا۔
مغرب میں جیری فالویل سے لے کراین کولٹر(امریکی خاتون)تک آئے دن کوئی نہ کوئی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے ۔مسلمانوں کے سول رائٹس کا یہ حال ہے کہ انہیں یقینی بنانے کے لئے آئے دن عدالتوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔دوہزار سے زائد مسلمان اب بھی امریکی قید خانوں میں بند ہیں،متعدد پر اب تک کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکا اور کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کو اس بات کا بھی علم ہی نہیں کہ ان کو کس جرم میں گرفتار کرکے جیل وزندان میں ڈال دیا گیا ہے۔فلوریڈا کے ممتاز فلسطینی پروفیسر سمیع بھی جنہیں کسی زمانے میں وائٹ ہاوس میں مدعو کیا جاتا تھا ،کئی سال جیل میں رہے جہاں انہیں کسی بھی قانونی مشیر سے رابطہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ یہی معاملہ ملت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ پیش آیا ۔ بہر حال کسی نہ کسی ریڈیو یا ٹی وی اسٹیشن پر آئے روز ایسی بے ہودہ کلامیاں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب اسلام مخالف اندھے جذبات کا بھڑکاو اور مسلمانوں کی دلآزاری اور کردار کشی ہوتا ہے۔کئی بار بہت ہی سفلی قسم کے الزامات کا پلندہ نشر کر کے اپنے نامہ اعمال کو سیاہ ترکیا جاتاہے کہ اس کے ردعمل میں مسلمانوں کو متعلقہ اداروں کو شکائتیں کرنا پڑتی ہیں کہ یہ کیا اندھیر نگری ہے، مثلا ایک الزام یہ بھی لگایا جاتاہے کہ مسلمان عراق میں یہودیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔
ایک مربوط اور منظم مخالفانہ مہم ہے جو مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص چلائی جا رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مہم اپنے اہداف حاصل کر پا رہی ہے؟میرے خیال میں یہ ناروا اور کاذبانہ مہم بعض جگہوں پر مقامی سطح پر تو شاید کامیاب ہوئی ہو مگر مجموعی طور پر اس مہم کے نتائج اس کے بنیادی مقاصد کے بالکل برعکس نکل رہے ہیں،وہ اس طرح کہ نائن الیون کے بعد تمام منفی پروپیگنڈے کی بدترین سونامی کے باوجود امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے ۔اسلام کو جاننے اور اس کے متعلق پڑھنے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اسلام کے متعلق لکھی جانے والی علمی وفکری کتابوں کی اشاعت کے بعد فوراسے پیشتر مارکیٹ میں ان کی غیر معمولی بکری ہونے سے لگ سکتا ہے۔ایک عام امریکی بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے متعلق سوال پوچھتا دکھائی دیتا ہے، اس کے سامنے اسلام اگرچہ ڈارکیولائی شکل وصورت میں پیش کیا جاتاہے مگر وہ حقائق کی ٹوہ میں قرآن ، حدیث ، تاریخ ، سیرت طیبہ ۖ کے انبار کھنگالنے لگ جاتا ہے تاکہ خود مطالعہ کی بنیاد پر اسلام کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ متوازن رائے قائم کر سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر اجاگر کر نے کے ضمن میں اس وقت ایسی ویب سائٹس کی تعدا میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، جن کی وساطت سے اسلام کے بارے میں مستندکتب کے علاوہ دوسری سچی معلومات کا حصول ممکن ہوا ہے اور متعدد امریکیوں نے انٹرنیٹ ہی کی سہولت کے ذریعے اسلام کی ابدی وازلی روشنی تک رسائی حاصل کی ہے۔
مغرب کی اسلام مخالف زیر بحث مہم اور نفرت پر مبنی پروپیگنڈے کا ایک اور لازمی اور فطری نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں نے پہلی دفعہ اپنے آپ کو دعوتی اور سیاسی سطح پر منظم کرنا شروع کردیا ہے ۔ آپ نے پہلی دفعہ دیکھا ہوگاکہ امریکی اور مغربی ممالک کے انتخابات میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی سیاسی قوت کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔اس صورتحال میں سفید فام امریکی اور برطانوی نہایت متفکر ہیں جو آبادی کے لحاظ سے بھی اپنی فیصلہ کن پوزیشن آہستہ آہستہ کھوتے جا رہے ہیں۔رائے شماری کے اندازوں کے مطابق تک ان کی موجودہ اکژیت خاصی حد تک کم ہو جائے گی اور ہسپانوی اورایشیائی لوگوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا۔صرف ہسپانوی لوگ آبادی کا ایک چوتھائی بن جائیں گے جن کی تعداد ملین سے ملین تک جا پہنچے گی اور ان کا تناسب ۔فیصدسے ۔فیصدتک ہو جائے گا۔ یوں مسلمانوں کی عددی قوت بڑ ھ جا ئے گی۔یہ تو تھی امریکہ کی صورتحال،کیا اسلام کے خلاف چلائی جانے والی اس مہلک وشیطانی مہم کو بین الاقوامی سطح پربھی کوئی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کسی مقامی سطح پر تو شاید یہ مہم اسلام کا تاثر اور اس کی اصل شکل (العیاذ باللہ )بگاڑنے میں کامیاب رہی ہو مگر مجموعی طور پر یہ مہم ناکام ہی ناکام ہے۔فرانس اور جرمنی میں عورتوں کے حجاب اوڑھ لینے کے معاملے پر اس قدر شدید ردِِعمل ہوا کہ ان خواتین نے بھی اسکارف اوڑھنے شروع کر دئے جنہوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھابلکہ سارے یورپ میں مسلمان خواتین نے تیزی کے ساتھ حجاب کواپناشعاربنالیاہے۔جرمنی میں لاس اینجلس ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق مساجد کے مینار اب کثرت سے دکھائی دیتے ہیں جہاں صرف ان چند سالوں میں میناروں والی مساجد میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے اورامریکہ میں اب تک مساجدتعمیرہوچکی ہیں۔حیرت انگیزبات تویہ ہے کہ ڈیڑھ ہزارمساجدنائن الیون کے بعدوجودمیں آئی ہیں جہاں اکثریت نومسلم امریکی مسلمانوں کی ہے۔ برطانیہ میں دوہزارسے زائدرجسٹرڈ مساجدہیں،جہاں مسلمان بچو ں اوربچیوں کی اسلامی تعلیمات کے علاوہ غیرمسلم افراد کوبھی اسلام کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کو ہی دیکھ لیجئے، جہاں اسلام نہ صرف عوام میں تیزی سے پھیل رہا ہے بلکہ اشرافیہ میں بھی /سفید فام اب تعداد میں دوگنے ہو چکے ہیں،برطانوی شہری د ھڑا دھڑ اسلام قبول کر رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی شامل ہیں مثلا سابق ہیلتھ سیکرٹری فرینک ڈابسن(Frank Dobson)کے بیٹے احمد ڈابسن،بی بی سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لارڈ برٹ کے صاحبزادے یحیی برٹ جو اسلام پر خاصی ریسرچ میں مصروف ہیں اور سابق برطانوی وزیر اعظم ہربرٹ ایسکیوتھ(Herbert Asquith)جو پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر برطانوی رہنما تھے ،کی پڑپوتی ایما کلارک(Emma Clark)جو پرنس آف ویلز کیلئے ایک اسلامی باغ بھی ڈیزائن کر چکی ہیں۔اس کے علاوہ ایک سابق ڈپلومیٹ چارلس ایٹنCharles Legaieatonکی اسلام کے متعلق محققانہ تحریریں برطانوی عوام کو اسلام کے سمجھنے میں خاصی ممدومعاون ثابت ہو رہی ہیں۔ایک نجی ٹی وی کی سابق میزبان کرسٹیان بیکراورسابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیر کی اہلیہ کی بہن لارابوتھ بھی اسلام قبول کر چکی ہیں اس کے علاوہ (Earl of Yarborough)جو لنکن شائر میں ہزار ایکڑ اراضی کے مالک ہیں ،اسلام کی روشنی اور دائرہ ایمان میں آکر اپنا نام عبدالمتین رکھ چکے ہیں اور قرونِ اولی کے مسلمانوں کی وضع قطع سے خودکوسجارکھاہے ۔ان ناقابل تردید حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کو پابند کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں ،وہ نہ صرف ناکام ہو رہی ہیں بلکہ اسلام کی نشرواشاعت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
رہے نام میرے رب کا جو اپنے بندوں کا بہترین مددگار ہے