میاں محمد اکرم رانجھا | شخصیات
1
1961ء کی ایک سرد شام میں نے ڈسٹرکٹ جیل لاہور کی بی کلاس بیرک میں سنا کہ ایک مولوی صاحب کو گورنر ملک امیر محمدخان نے مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے نظربند کر دیا ہے۔ میری زبان سے بے ساختہ نکلا ’’ملک صاحب نے خوب کیا۔مولوی صاحب نے ضرور کوئی شرارت کی ہو گی۔ بھائی کو بھائی سے لڑایا ہو گا اور فرقہ پرستی کو ہوا دی ہو گی۔‘‘ اس وقت مولوی کا تصور میرے ذہن میں یہی تھا۔ کچھ تو یہ جدید افکار کی ’’برکت‘‘ تھی اور کچھ میرے دیکھنے سننے میں اسی قسم کے مولوی آئے تھے۔
دوسرے دن ظہر کے وقت میں اپنے احاطے میں چھپتا چھپاتا نمبرداروں کی بیرک میں گیا جہاں ساتھ والے سیاسی کمرے میں ڈاکٹر محمد اسلم سنجری نظربند تھے۔ ڈاکٹر صاحب پشاور کے رہنے والے‘ سرگرم سرخ پوش بڑے مرنجاں مرنج انسان تھے۔ لمبے تڑنگے‘ گورے چٹے‘ ڈاڑھی مونچھ صاف‘ قریباً ستر کے پیٹے میں تھے۔ محبت آمیز باتیں کرتے‘ لیکن تحریکِ پاکستان اور بانی پاکستان کے لیے اُن کی لغت میں شیریں الفاظ موجود ہی نہ تھے۔ مجھے بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے۔
پیشی بھگتنے کے بعد جب کبھی میں چھوٹا گوشت لے کر آتا‘ بے حد خوش ہوتے۔ چپلی کباب بنا کر کچھ عنایت کرتے اور باقی خود مزے لے کر کھاتے اور ہمیشہ کی سنائی ہوئی کہانی چھیڑ دیتے کہ کس طرح وہ پشاور میں سیروں کے حساب سے چپلی کباب تیار کیا کرتے اور جو باچا خان اور ڈاکٹر خان صاحب ساتھ ہی ساتھ کھاتے جاتے۔
میں ڈاکٹر سنجری کے پاس ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک میانہ قامت شخص آ گیا۔ چال ڈھال سے بڑا باوقار‘ سفید شلوار اور نیلے رنگ کی کالر والی قمیص زیب تن تھی۔ سیاہ ڈاڑھی اور انگریزی طرز کے بال بری طرح بکھرے بلکہ اُلجھے ہوئے تھے۔ اُس نے آتے ہی بڑی متانت سے السلام علیکم کہا اور ہم دونوں سے مصافحہ بھی کیا۔ مجھے اس کے چہرے پر متانت اور طمانیت کے آثار باہم گھلتے ملتے نظر آئے۔ ساتھ ہی کچھ فکرمندی اور ناگواری سی جھانکتی محسوس ہوئی۔ یہ تھی اُن مولوی صاحب سے میری پہلی ملاقات!
جلد ہی تعارف ہو گیا۔ مولوی صاحب ان دنوں کسی اشاعتی ادارے کے ڈائریکٹر تھے۔ سیاست میں ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں پر ایوب خانی مارشل لا کے تحت پابندیوں کی سزا صبر و شکر سے بھگت رہے تھے۔ انھوں نے عائلی قوانین کے نفاذ پر کہا تھا ’’دوسری بیوی پر تو پابندی لگا دی گئی لیکن داشتہ رکھنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔‘‘ نازک مزاج شاہاں اس تنقید کو برداشت نہ کر سکے اور انھیں تین ماہ کے لیے ڈسٹرکٹ جیل لاہور بھیج دیا۔
ان دنوں ڈسٹرکٹ جیل لاہور کا حدوداربعہ کچھ یوں تھا: ایک طرف گندا نالہ اسے بورسٹل جیل (موجودہ کیمپ جیل) سے جدا کرتا تو دوسری طرف پاگل خانے کی دیواریں اسے گھورتی رہتیں۔عقب میں تھوڑے فاصلے پر اچھرہ کی کچی آبادی واقع تھی۔ اب وہ تاریخی جیل جسے تحریک مجاہدین کے مولانا یحییٰ علی‘ مولوی جعفر تھانیسری اور سیکڑوں حریت پسند اور حق گو سیاسی راہنما گزشتہ ایک سو برس سے آباد کرتے آئے تھے‘ منہدم ہو چکی۔ اس کی جگہ سروسز اسپتال اور شادمان کا لونی واقع ہیں۔ شادمان کالونی میں فاطمہ اسپتال سے ذرا شمال کی جانب اُس کے کوٹ موقع (بیرونی دیوار) کے حصے اور صدر دروازہ (ڈیوڑھی) کے آثار نظر آتے ہیں۔
ڈیوڑھی سے داخل ہوتے تو بالکل سامنے اندرونی کوٹ موقع کا صدر دروازہ تھا جس کے آگے تیس چالیس قدم تک گلی چلی جاتی۔ اس گلی میں سے گزر کر ہم ’’چکر‘‘ میںپہنچ جاتے۔ چکر ہی میں اسپتال اور حوالاتیوں کی بارکوں کے دروازے تکونی شکل میں آ کر کھلتے۔ اندرونی کوٹ موقع کے باہر بائیںجانب بی کلاس کا وارڈ اور سزائے موت کی چکیاں تھیں۔ اس سے آگے درزی گودام اور نمبرداروں کی کھلی بارک تھی۔
بارک کے ساتھ گھومتے ہی سیاسی کمرا تھا اور آگے سزائے موت کا تختہ جس کے بالکل متصل لنگر اور سزائے موت کی چکیاں واقع تھیں۔ اس طرح چکر مکمل ہو جاتا اور ہم گھوم پھر کر ڈیوڑھی اور اندرونی کوٹ موقع کے صدر دروازے ہی پر آ جاتے۔ اس اندرونی صدر دروازے کے بائیں جانب بی کلاس بارک کے قریب ایک درخت تھا جس پر ’’بیدمار‘‘ روزانہ بیدزنی کی مشق کرتے۔ اُس درخت کی کھال بُری طرح اُدھڑ چکی تھی۔ یہ درخت آج بھی فاطمہ اسپتال سے شمال کی جانب واقع پختہ سڑک کے قریب استادہ ہے۔ اُس پر حضرت انسان کے ہاتھوں لگے زخموں کے مدھم مدھم نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
عجیب و غریب مشقت
اسی ڈسٹرکٹ جیل کی ڈیوڑھی میں مجھے پولیس 30نومبر 1960ء کو لائی اور حوالۂ زنداں کر گئی۔ دربان نے میرا نام پتا لکھا‘ رات کے اندھیرے میں ڈیوڑھی سے آگے اندرونی چکر میں لے گیا اور وہاں چیف ہیڈ وارڈ ’’بکری شاہ‘‘ کے حوالے کر دیا۔ بکری شاہ نے درزی گودام سے دو پھٹے پرانے‘ میلے کچیلے سے کمبل دیے اور اندرونی کوٹ موقع کے اندر واقع بارک نمبر تین میں ٹھونس دیا جس کے قریب ہی بڑ کا ایک درخت تھا۔ اس پر قسم قسم کے پرندے بھانت بھانت کی بولیاں بولتے صاف دکھائی دیتے۔ ہر نوع کے پرندے کا گھونسلہ دوسری نوع سے مختلف تھا۔
یکم دسمبر 1960ء کی صبح مجھے جمعدار (بکری شاہ) کی سرکار میں پیش کیا گیا۔ وہاں حکم صادر ہوا کہ اس حوالاتی کو جھاڑو پوچا پر لگا دیا جائے۔ لیکن میرے آبائی ضلع کے چند تجربہ کار نمبرداروں کی سفارش پر یہ سزا ملتوی ہو گئی۔ خدا جانے یہ مشقت مجھ پر کیوں تھوپی گئی؟ اُس وقت تک میرا کوئی جرم ثابت ہی نہ ہوا تھا۔ (سیشن جج لاہور نے ایک سال چار ماہ بعد 12مارچ 1962ء کو مجھے مجرم قرار دیا۔) بہرحال اپنے ہم ضلع دوستوں کی مداخلت پر یہ مصیبت ٹل گئی۔ تاہم سات آٹھ دن تک یوں محسوس ہوتا رہا جیسے میں کسی سیارے میں سوار زمین کے مدار کے گرد چکر لگا رہا ہوں اور مطمئن و شادمان زندگی کہیں تاریکیوں میں کھو گئی۔
شاکر و شفیق انسان
یہ دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب بات بات پر الحمدللہ کہتے اور انھیں جیل آنے پر ذرا ملال نہیں۔ میں نے انھیں روایتی مولوی سمجھ کر مناظرانہ بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کی اور دلائل کے جو تیر (غلام احمد) پرویز صاحب کے ترکش (لٹریچر) سے حاصل کیے تھے‘ وہ سب استعمال کر ڈالے۔ مگر دوسری طرف سے ایک مشفقانہ مسکراہٹ سدابہار پھول کی طرح کھلی رہتی اور مناظرانہ انداز کسی مرحلے پر دیکھنے میں نہ آتا۔ کم گفتاری‘ متانت‘ سادگی اور دوسرے کی ذات میں گہری دلچسپی‘ یہ اوصاف میں نے پہلے روز ہی دیکھ لیے اور شدت سے متاثر ہوا۔ لیکن پرویز صاحب میرے دماغ پر قابض تھے اور انھیں مولوی صاحب سے چڑ تھی۔
اس لیے یہ مولوی صاحب لائق محبت نہ ٹھہرے۔
تاہم جب پتا چلا کہ مولوی صاحب نے لاکالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان درجہ اوّل میں صرف پاس ہی نہیں کیا تھا بلکہ اپنے علاقے کے اوّلین مسلمان وکلا میں سے تھے‘ تو میںاحساس کمتری کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ میں ایک بدنام زمانہ مقدمے کا مرکزی ملزم تھا۔ ہر پڑھا لکھا آدمی مجھ پر طنز بھری نظر ڈالنااپنی تہذیب کااہم تقاضا سمجھتا حتیٰ کہ میجر محمد یعقوب جنھیں خود مجھ سے بڑھ کر بدنامی نصیب ہوئی‘ اُن کا بھی یہی عالم تھا۔ خان عبدالغفار خان‘ مسٹر بی ایم پٹی آف کیرالہ‘خان محمد آف پلندری‘ شہزادہ عبدالکریم آف قلات‘ محمد اکبر بگٹی ‘ عطا اللہ مینگل بہرحال سیاسی لوگ تھے‘ اسی لیے مجرموں سے نفرت کرنا اُن کا حق بھی تھا۔
لیکن مولوی صاحب نے کبھی مجھ میں یہ احساس پیدا نہ ہونے دیا کہ میں اُن کی عظمت کردار کے سائے میں بدنما اور خاردار پودا ہوں۔ انھوں نے ہمیشہ مجھ سے پیار بلکہ میرا احترام کیا۔ مجھے بار بار اُن صحابہ کرامؓکی کہانیاں سنائیں جو فارس‘حبش اور روم سے غلامی کے قلادے گلے میںسجائے بازار عرب میںبکے اور جب اسلام کی عظمتوں سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے وطنوں کو لوٹے تو کوئی گورنر تھا اور کوئی سپہ سالار۔
گویا مولوی صاحب نے مجھے لاتقنطوا من رحمتہ اللہ کے معنی بتلائے اور احساس زیاںکے ساتھ ساتھ یہ باور کرایا کہ انسان اجڈ بیل نہیں‘ ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ اسے حساب کتاب کا سامنا کرنا ہے اور اس کا واسطہ بہرحال ایک رحیم و کریم ہستی سے ہے جو گنہگاروں‘ مجرموں حتیٰ کہ مشرکوں اور بدکرداروں کو بھی ہر لمحہ مغفرت اور کرم کی نوید دیتی رہتی ہے۔ یہ ہستی کہتی ہے کہ انسان گناہوں میں ڈوب کر بھی اگر نئی صاف ستھری زندگی شروع کرنا چاہتا ہے تو ہم آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑنے والے ہیں۔ مولوی صاحب کی طبیعت میں رجائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اسی کا اثر تھا کہ میں بھی دوبار ہ نئی زندگی شروع کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اور رفت گزشت پر یقین کرتے ہوئے اپنے خالق کے دروازے پر آ بیٹھا۔
وارڈ کے امام
چند روز تک ڈاکٹر محمد اسلم سنجری اور مولوی صاحب سیاسی کمرے میں اکٹھے رہے۔ پھر مولوی صاحب کو ہمارے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔بی کلاس وارڈ چار کمروں‘ دو غسل خانوں اور گوداموں پر مشتمل تھا۔ سامنے برآمدہ تھا جسے لوہے کی سلاخوں سے بند کر کے حوالات بنا دیا گیا۔ شام پانچ بجے ہمیں مقفل کر دیا جاتا اور صبح اذان کے وقت ’’گنتی کھلتی۔‘‘
مولوی صاحب میرے ساتھ کمرا نمبر دو میں رکھے گئے۔ کمرا نمبر ایک اور کمرا نمبر تین میں میرے ساتھی ’’مقدمہ دار‘‘ میاں خالد سہگل جبکہ کمرا نمبر چار میں غلام محمدہاشمی (میانوالی) اور ایک اور مقدمۂ قتل کے حوالاتی احسان الحق بٹ اور میاں معراج الدین (باغبان پورہ) مقیم تھے۔
مولوی صاحب نے آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ہم سب سے ذاتی ملاقات کی۔ گنتی بند ہوتے ہی انھوں نے اجتماعی کھانے کی تجویز پیش کی جسے صرف جزوی طور پر قبول کیا گیا کیونکہ کچھ سرمایہ داروں کو اس تجویز کی افادیت سے انکار تھا۔ اجتماعی کھانا سرکاری راشن سے تیار ہوتا اور یہ اُن کی لذت کام و دہن کے لیے کافی نہ تھا۔ تاہم سرکاری راشن پر گزارا کرنے والے حوالاتیوں نے اس تجویز کا بڑی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا بلکہ اُسی شام اُس پر عمل بھی شروع ہو گیا۔ مولوی صاحب کی تشریف آوری سے وارڈ دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ مل کر کھانے والے مل بیٹھے۔ چند لوگ جدا جدا بلکہ چھپ کر قیمتی کھانے کھاتے پائے گئے۔
لیکن یہ تقسیم مکمل طور پر جماعتی شکل اختیار نہ کر سکی۔ مولوی صاحب نے دوسری تجویز نماز باجماعت کی پیش کی تو کچھ سرمایہ دار اصحاب نے بھی اس کا خیرمقدم کیاکیونکہ وہ نمازی تھے۔ لیکن مولوی صاحب کے اجتماعی کھانے کے کچھ ساتھی بدک گئے۔ اس طرح مولوی صاحب قیدیوں کی جماعت تو نہ بنا سکے البتہ وہ پورے وارڈ کے امام بن گئے۔ آدھی آبادی اُن کے اجتماعی کھانے میں شریک تھی اور آدھی آبادی اجتماعی نماز میں۔
پہلے روز مولوی صاحب نے نماز مغرب کی جماعت کرائی۔ مجھے بھی وضو کرنابلکہ ٹھٹھرنا پڑا کیونکہ تازہ پانی کا انتظام نہ تھا۔ عشا کے وقت تو مولوی صاحب مجھے تلاش ہی کرتے رہے لیکن چار کمروں‘ دو غسل خانوں اور دو گوداموں میں ایک آدمی کو تلاش کرنا آسان کام نہ تھا اور وہ بھی اُس صورت میں جب اُن سب کے دروازے ایک دوسرے میں کھلتے ہوں۔
مولوی صاحب نے نماز مغرب سے فارغ ہو کر سفید کھردرا کمبل خود اپنے کمرے کے فرش پر بچھایا اور سالن ڈال ڈال کر دسترخوان کے اپنے ساتھیوں کو دیا۔ پھر دوران طعام میٹھی میٹھی باتوں کا سلسلہ بھی شروع کیا جن میں اللہ رسول کا نام تو بار بار لیا لیکن سلسلہ گفتگو کو بہرحال سیکولر رکھا اور مذہبی بحث و تمحیص سے اجتناب کیا۔ باتوں کے دوران پتا چلا کہ مولوی صاحب بڑے شگفتہ مزاج ہیں۔ عالی ظرفی اور تحمل مزاجی اُن کا خصوصی جوہر ہے۔ خود کم بولنا اور دوسرے کی زیادہ سننا پسند کرتے۔ ذاتی مسائل اور مصائب کو پیش کرنا تو انھیں آتا ہی نہیں البتہ دوسروں کی مشکلات اور تکالیف سننے اور حل کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔
طریق دلنوازی
ایک بڑے مقدمے کابڑا مجرم ہونے کے باوجود مولوی صاحب نے جس قرب کا مجھے اہل سمجھا‘ اُسے میں اپنی ذاتی صفت اور اپنی قابلیت کا نتیجہ خیال کرتا تھا۔ لیکن میں نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب احسان الحق بٹ کے ساتھ کہیں زیادہ گرم جوش تعلقات رکھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ احسان الحق بٹ بائیس برس کے نوجوان تھے‘ غالباً کرشن نگر لاہور کے رہنے والے تھے۔ کسرتی جسم‘ خوبصورت چہرہ‘ تن سازی کے شوقین‘نیلے رنگ کی کھیلوں والی بنیان اور چست پتلون زیب تن کیے‘ اکثر اپنے بازوئوں کے ’’مسلز‘‘ ملاحظہ کرتے رہتے۔
بال ہیروکٹ اور باتیں کرتے وقت وحیدمراد اور ندیم کی نقل اُتارنے کی کوشش کرتے۔ بات بات پر جھگڑا کرنا اور باقاعدہ انگریزی فلموں کے ہیرو اور ولن کی طرح گلے پڑ جانا۔ چند ہاتھ مارنا اور پھر مسلسل بے بسی کے عالم میں بہت سے ہاتھوں کی مار سہنااِن کا دن بھر کا محبوب مشغلہ تھا۔ ’’چنداصحاب‘‘ کی کوششوں سے وہ کئی بار میاں معراج الدین (باغبانپورہ) سے نہ صرف الجھ پڑتے بلکہ اُن کے ہاتھوں بُری طرح پٹ بھی چکے تھے۔ لیکن مولوی صاحب نے ہم میں سب سے زیادہ اہمیت انھی کو دی۔ وہ ان کے مشاغل کے متعلق پُراز معلومات گفتگو کرتے‘ ساتھ سیر کرتے اور اکٹھے کھانا کھاتے۔ آہستہ آہستہ انھیں نماز کے قریب بھی لے آئے۔ حالانکہ مجھے آج بھی یقین ہے کہ احسان الحق بٹ کو نماز نہیں آتی تھی۔
بعدازاں احسان الحق کو سزائے موت ہو گئی۔ میرے سنٹرل جیل ملتان چلے جانے کے بعد غالباً انھیںپھانسی دی گئی۔ میں آج بھی ان کا مغموم چہرہ دیکھ رہا ہوں اور مجھے ان کا بلک بلک کر رونا یاد آ رہا ہے۔ مولوی صاحب جون 1962ء میں رہا ہو گئے۔ ہم سب انھیں الوداع کہنے ڈیوڑھی پر آئے تو وہ ایک ایک سے بغل گیر ہوئے۔ احسان الحق کی باری آئی تو وہ مولوی صاحب کو چھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔ پھر جیسے ہی ہم واپس وارڈ پہنچے‘ اس اللہ کے بندے نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کی کوئی عزیز ترین متاع گم ہو گئی۔ بے شک اُس کا کیس ایک نفسیاتی معاملہ تھا لیکن اُس میں بقول اقبالؒ…
نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
کا بھی بڑا دخل تھا۔ مولوی صاحب کا طریق دلنوازی ایساتھا کہ اُس منہ زور اور لڑاکا نوجوان کو انھوں نے پالتو شیر کی طرح اپنے سے مانوس کر لیا۔ وہ پہلے جس طرح ٹوٹ کر لڑا کرتا تھا‘ اسی طرح اُس نے ٹوٹ کر پیار کرنا سیکھ لیا۔ وہ اب ہمارا سب سے ہردل عزیز ساتھی تھا۔ حالانکہ پہلے ہم سب اُس کا بائیکاٹ کیے رکھتے اور وہ ہمارا۔ یہ فیضانِ صاحب نظر تھا! پنجابی شاعر میاں محمد بخش نے بالکل سچ کہا ہے:
مرد ملے تے درد نہ چھوڑے اوگن دے گن کردا
کامل شخص محمد بخشا بنائے لعل پتھر دا
درویش کی نصیحت
مجھے نیوسنٹرل جیل ملتان میں آئے دو اڑھائی سال گزر چکے تھے۔ میں بی اے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک روز سنا کہ کسی بغاوت کیس میں گرفتار ہونے کے بعد مولوی صاحب پھر آ پہنچے ہیں۔ اب وہ تنہا نہیں بلکہ دو تین سیاسی راہنما بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں نے بڑے اہتمام سے مٹھائی کا ڈبا منگوایا اور چھپتا چھپاتا جیل اسپتال سے اگلی طرف محفوظ ترین بیرک (سیاسی وارڈ) پہنچا۔ مولوی صاحب بڑی گرم جوشی اور محبت سے ملے اور اپنے ساتھیوں سے میرا تعارف کرایا۔ میری تعلیمی ترقی پر اظہار اطمینان کیا اور نصیحت کی کہ اللہ کے سپاہی بن جائو دونوں جہان میں کامیاب رہو گے۔
مجھے ایک بوتل شربت بادام کی عنایت کی اور خالص جیل کی اصطلاحات میں خیرخیریت دریافت کرتے اور گپ شپ لگاتے رہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے وجود میں وہ مولوی نظر آیا جو پوری طرح مومن بن جاتا ہے۔ ’’انی مھاجر الی اللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر خویش‘ قبیلہ‘ عزت‘شہرت‘ وطن اور برادری غرض ایک ایک بت کو ضرب ابراہیمی سے توڑ دیتا ہے اور دو عالم سے خدا کے لیے خفا ہو جاتا ہے۔ جیل میں صدیق بن کر رہتا اور دنیا میں حفیظ اور امین بن کر گزران کرتا ہے۔
برائی کی قوتوں سے مصروف پیکار رہتا اور بھلائی کو رواج دینے کی خاطر مصائب کا سامنا کرنا پڑے تو صبر کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی حفیظ اور امین افراد کو حکمرانی عطا کرتا ہے۔ اُس کے دم قدم سے یہ عالم رنگ و بو بہار بداماں بن جاتا ہے اور قحط و خشک سالی کے خطرے ٹل جایا کرتے ہیں۔
اور یہ ’’مولوی صاحب‘‘ تھے میاں طفیل محمد… آپ نے اُن کا نام تو سنا ہو گا!