تحریر شازیہ عندلیب
امروز عمران چھٹی کے روز پاجامہ بنیان پہنے باہر پائیں باغ میں اخبار کی مقامی خبروں سے محزوز ہو رہا تھا۔ماہ اپریل میں انار کے درخت کے نیچے ٹھنڈی مست خرام ہوائیں سرور دے رہی تھیں۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے وہ باہر چلا گیا تھا۔امروز ایک کاٹج اندسٹری کا مالک تھا۔چھوٹا سا مگر کامیاب کاروبار تھا دو بچے اور ایک خوبرو بیگم کے ساتھ زندگی خوشگوار گزر رہی تھی۔اس نے اخبار کے اندرونی صفحہ پر مقامی خبروں کی سرخیوں پر نظر دوڑائی تو طرح طرح کی ہیجان خیز سرخیوں نے اسکی توجہ مبذول کر لی ۔مگر اس دوران اسے گیٹ پر دستک کی وجہ سے تین مرتبہ اٹھ کر جانا پڑا۔ملازم چھٹی پر تھا ۔بیگم اتوار بازار خریداری کے لیے گئی ہوئی تھی۔وہ ذرا اخبار لے کر بیٹھتا دروازے پر دستک ہوتی۔لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بیل بھی نہیں بج رہی تھی مگر مجال ہے جو لوگوں کو چین ہو ۔صدر دروازے کی دستکیں مسلسل اسکی اخبار بینی میں رخنہ ڈال رہی تھیں۔
ضلع ہزارہ سے چھ بچوں کی ماں عاشق کے ساتھ فرار۔
میانوالی میں میاں بیوی کے جھگڑے میں پڑوسی زخمی۔
شدید ٹھنڈ میں راہ والی کے راستے تودہ گرنے سے بند۔
بھمبر میں بجلی کی بندش کے دوران مظاہرین کا بانس بردار مظاہرہ۔
نوسر بازحسینہ شادی شدہ مرد سے رقم بٹور کر فرار۔
آخری خبر نے امروز عمران کی توجہ کھینچ لی۔خبر کچھ یوں تھی۔
اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک الٹرا ماڈرن عورت نے ایف الیون میں گیٹ پر موجود چپڑاسی سے پانی مانگا ۔چوکیدار کی غفلت سے فائدہ اٹھا تے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ اسی قدر پڑھ پایا تھا کہ گیٹ پر پھر دستک ہوئی۔وہ بڑ بڑاتا ہوا اٹھا۔اب تک وہ چار مرتبہ گیٹ پر آ چکا تھا پہلی مرتبہ ودھ ولا تھا دوسری مرتبہ ایک پردہ پوش فقیرنی تیسری مرتبہ ایک بھٹکے ہوئی مسافر کو وہ بھگتا چکا تھا۔پردہ پوش فقیرنی دو مرتبہ آ چکی تھی۔بڑی مشکل سے اس سے جان چھرائی وہ اپنے نادیدہ شوہر کی بیماری کا سرٹیفکیٹ دکھا کر کافی رقم اینٹھ چکی تھی۔پانچویں مرتبہ پھر جب دستک ہوئی وہ انتہائی بیزاری سے اپنا کاندھا کھجاتے ہوئے اٹھا،جس پر ایک مچھر چٹکی کاٹ چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ مچھر کا نشانہ لیتا کہ گیٹ کی دستک نے اسکا نشانہ خطا کر دیا۔وہ جیسے ہی گیٹ پر پہنچا اسکی نظر گیٹ کے نیچے کالے لباس پر پڑی۔وہ چونکا اچھا پھر وہی برقعہ پوش فقیرنی ہے اس نے آج میرا ہی گھر دیکھ لیا ہے۔یا پھر مجھے اکیلا دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچ کر ہی اسے جھر جھری سی آ گئی آجکل کے زمانے میں عورتیں تو کیا اکیلا مرد بھی محفوظ نہیں۔۔۔مگر اس نے جیسے ہی فقیرنی کو ڈانٹنے کے ارادے سے گیٹ کھولا اسکی نظر خوبصورت ریشمی پھولدار ساڑہی پر پڑی۔ایک نہائیت دلکش درمیانی عمر کی عورت تراشیدہ بالوں اور ہلکے میک اپ میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔اسے دیکھ کر امروز کو اپنے پاجامہ بنیان پر ندامت سی محسوس ہوئی ۔اس نے خجالت سے پوچھا جی آپ کون ؟کس سے ملنا ہے؟؟
مگر یہ کیا اسکا جواب سنتے ہی اسکے چودہ طبق روشن ہو گئے اور دن میں تارے سے نظر آنے لگے۔یہ تو پردہ پوش بھکارن سے بھی ذیادہ خطرناک نکلی۔ساڑھی میں ملبوس خوش پوش عورت بڑی خوش الحانی سے بولی میں مسز امروز ہوں۔جی میں کسی مسز امروز کو نہیں جانتا مگر میں تو جانتی ہوں اس نے بدستور اک ادائے دلبرانہ سے جواب دیا۔کیا میں آپکی مسز سے مل سکتی ہوں ؟اس نے کھلے گیٹ کے اندر نظ دوڑاتے ہوئے پوچھا ۔گویا چیک کر رہی ہو کہ گھر میں کوئی اور ہے یا نہیں۔امروز کے ذہن میں نو سر بازحسینہ کی خبر گردش کرنے لگی۔اس نے بغور اسکے چہرے کا جائزہ لیا دلکش سراپا پر کشش صورت وہ لمحہ بھر کو اس سے متاثر ہونے لگا مگر یہ سوچ کر سنبھل گیا کہ یہ بھی کوئی حسینہ چار سو بیس یا نو سر باز ہو سکتی ہے۔اگر افزانہ نے اسے یہا ں دیکھ لیا اور اس نے میری مسز ہونے کا دعویٰ کر دیااور جھوٹے ثبوت ۔۔۔جیسا کہ ایسے معاملات میں ہوتا ہے اور اس کے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی ہو چکا ہے تو پتہ نہیں کیا ہنگامہ کھڑا ہو جائے ویسے بھی اس کے سسرالی رشتہ دار اس کی بیوی کو بھڑکا کر لڑاتے رہتے ہیں۔انہیں تو موقعہ مل جائے گا۔وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سن گلاسز اور لانگ شرٹ میں ملبوس اسکی بیگم سودا لے کر آ گئی اور آتے ہی بڑے تپاک سے اس ساڑھی پوش عورت سے ملی اور کہنے لگی امروز یہ ہماری نئی پڑوسن ہیں مسز امروز ہاشم ۔امروز خجل سا ہو کر دونوں کو اندر جاتا دیکھتا رہا۔