نوح ناروی ستمبر ١٨٧٩ میں الہ آباد کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے نارہ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے- اپنی شاعری کے شروع کے دورمیں میر نجف علی کی شاگردی اختیار کی- اپنے کلام کی اصلاح امیر مینائی اور جلال لکھنوی سے بھی کرواتے رہے- آخر میں داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے اور داغ کی وفات کے بعد ان کے جانشین کہلائے- اکتوبر ١٩٦٢ میں ٨٣ برس کی عمر میں انتقال کیا- اردو شاعری کی تاریخ میں ناسخ، آتش اور داغ کے بعد سب سے زیادہ شاگرد، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، نوح ناروی کے حصے میں آئے- ان کے کئی شعری مجموعے ان کی زندگی میں ہی چھپ گئے تھے- اپنے نام اور تخلص کی مناسبت سے کتابوں کے نام بھی خوب رکھے ہیں- پہلا دیوان ‘سفینہ نوح’ کے نام سے چھپا اور دوسرا ‘طوفان نوح’ کے نام سے-
کلام میں کوئی خاص بات نہیں، البتہ داغ کی شاگردی کے طفیل زبان کا چٹخارہ، سادگی اور سلاست ضرور ہے- نمونے کے طور پر چند شعر پیش کرتا ہوں-
آپ ہیں، ہم ہیں، مے ہے، ساقی ہے
یہ بھی ایک امر اتفاقی ہے
—
وہ نادم ہوئے قتل کرنے کے بعد
ملی زندگی مجھکو مرنے کے بعد
—
ہم بڑی دیر سے یہ دیکھتے ہیں
اس طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں
—
رہ طلب میں بنے وہ نشتر ادھر سے جاتے اُدھرسے آتے
چبھے جو کانٹے قدم قدم پر ادھر سے جاتے اُدھرسے آتے
کہیں نہ تھک کر رکے کوئی دم طواف بزم حبیب میں ہم
چلے ہیں دیر و حرم بھی اکثر ادھر سے جاتے اُدھرسے آتے
پروفیسر کلیم الدین احمد کی رائے میں نوح ناروی الفاظ سے کھیلتے ہیں، گہرائی مطلق نہیں- پروفیسر آل احمد سرور کے بقول صرف محاوره اور صفائی زبان پر توجہ کرتے ہیں، ان کی شاعری miniature painting سے زیادہ نہیں- مجنوں گورکھپوری ان کو کہنہ مشق استاد شاعر مانتے ہیں- نیاز فتح پوری کے خیال میں داغ کے سچے شاگرد یہی ہیں، مضطر خیر آبادی کے بعد زبان کی شاعری میں نوح ناروی کا نام سر فہرست ہے-
مضطر خیر آبادی کا ذکر آیا، مجھے ان کے دو شعر یاد آگئے- سنیے اور لطف اٹھائیے –
آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا
—
نہ وہ عمر رہی نہ شباب رہا نہ وہ وقت رہا نہ زمانہ رہا
انھیں میری وفا سے غرض نہ رہی مجھے ان کی جفا کا گلہ نہ رہا
فیصل حنیف