تحریر رضیہ کاظمی
نیو جرسی
والدہ صاحبہ کی اچانک بیماری کی وجہ سے اور انکی مستقل دیکھ ریکھ کے لیئے مجھے اپنے دور دراز جائے ملازمت سے تبادلہ کرانا لازمی ہوگیا تھا. اس رشوت خوری کے زمانہ میں قدرے پاک سمجھے جانیوالیمحکم تعلیم میں بھی یہ کام اتنا آسان نہیں تھا. بہت دوڑ دھوپ، رونے گانے اور سفارشوں کے بعد جس قریبی شہر میں جگہ نصیب ہوء وہ گو کہ ساٹھ باسٹھ کیلو میٹر سے زیادہ دور نہیں تھی لیکن وہاں آمد و رفت کے ذرائع محدود تو نہیں لیکن مناسب نہیں تھے.
میں نے فی الحال ایک پیسنجر ٹرین کا پاس بنوالیا تھا جس کے ذریعہ یہ مختصر مسافت بھی تقریبا” تین گھنٹے میں طے ہوتی تھی.اس تین گھنٹہ کے عرصہ میں جگہ کے لیئے دھکا مکی اور گالی گلوج ، چائے پانی اور دیگر کھانے پینے کیسامانوں کے ہاکروں کے شور شرابہ کے علاوہ کچھ کلا کاروں اور اکثر عجیب و غریب بہروپیوں سے بھی واسطہ پڑتارہا. کبھی کبھی تقریبا” ایک گیارہ بارہ سال کی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس لڑکی اپنی خوبصورت پاٹدار آواز میں گاتی ہوء کمپارٹ منٹ میں داخل ہوتی تو ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن جاتی.شوقین مزاج لوگوں کی جیبیں اس کے سیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی کھنکنے لگتیں .
آج ایک چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی گاڑی رکی ایک دردناک آواز میں روتی فریاد کرتی ہوء گود میں ایک ڈھاء تین سال کا بچہ لادے ہوئے جوان عورت مجمع کو چیرتے ہوئے درآئ.اس کی آواز اس قدر بھراء ہوء تھی کہ دھیان سے سننے پر سمجھ میں آیا کہ اس کے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا ہیمیت پڑی ہوء ہے اور اس کی تجہیز وتکفین کے لیئے فوری رقم درکار ہے. مسافر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے. ابھی تک وہ مجھے نظر نہیں آء تھی اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ یہاں آس پاس کے گاں میں شاید کوء بیماری پھیل گء ہے کیونکہ ابھی پرسوں ہی کوء دکھیاری اسی طرح اور بھی بلک رہی تھی.مسافروں سے اپنی بیچارگی کاٹیکس وصول کرتے ہوئے جب وہ میری سیٹ کے قریب آء تومجھے اسے پہچاننے میں کوء دقت نہیں ہوء. یہ تو ہو بہو وہی پرسوں والی عورت تھی.
تمہارے کتنے مرد تھے مائی؟؟؟ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا
یہ سنتیہی وہ مجھے گھورتی اور زیر لب بڑبڑاتی ہوء فرار ہوگئ.
لاء چنے لیلو گرم گرم لاء چنے.
میں نے نظراٹھاء تو دیکھاکہ ایک بوڑھا آنکھوں سے معذور لاٹھی کے سہاریکندھے پر پلاسٹک کا تھیلا لٹکائے یہ آواز لگاتا ہواڈبے میں داخل ہو رہا تھا.
رضیہ کاظمی
نیو جرسی