ایک نادر سفرنامہ
اس مرتبہ اتوار بازار سے ایک چھوٹی سی مختصر سی کتاب بھی ملی۔ عنوان ہے:
ا
مصنفہ: عبدالغفار خان
مذکورہ کتاب کا مقدمہ و حواشی ہمارے کرم فرما ڈاکٹر معین الدین عقیل کا تحریر کردہ ہے۔ دکن کا یہ سفرنامہ 1982 میں مشفق خواجہ مرحوم کے آنجہانی ادارے مکتبہ اسلوب سے شائع ہوا تھا۔
عبدالغفار خان نے 1914 میں قائم گنج سے دکن کا سفر اختیار کیا۔ اورنگ آباد، خلد آباد، دولت آباد اور ایلورا جیسے مقامات کو دیکھا، اور تمام احوال قلم بند کرتے گئے اور خطوط کی شکل میں اپنے والد کو ارسال کرتے گئے۔ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نامی مورخ نے، جو مصنف کے دوست تھے، ان خطوط کو اپنے رسالے “عبرت” میں شائع کرنے کی پیشکش کی اور اس طرح یہ سفرنامہ عبرت میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ یہ اکتوبر تا دسمبر 1916 کی بات ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے عبرت کی فائلوں سے اس سفرنامے کو کھوج نکالا۔ عبرت کی تمام فائلیں ان کے دوست ڈاکٹر محمد ایوب قادری مرحوم کے کتب خانے میں موجود تھیں۔ ہوت ہوتے یوں ہوا کہ ڈاکٹر معین الیدن عقیل نے کتاب مرتب کرنے کی ٹھانی مگر حواشی کے معاملے میں وہ بحیثیت ایک مدرس و محقق، محض سرسری معلومات پر اکتفا کیسے کرسکتے تھے۔ سو کچھ تگ و دو کے بعد ریڈیو پاکستان کے ایک شناسا کے ذریعے ان کا رابطہ ظفر الدین خاں صاحب سے ہوا جو سفرنامے کے مصنف عبدالغفار خاں کے پوتے تھے اور ان دنوں حسن اتفاق سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ظفر خاں ہندوستان واپس گئے جہاں سے انہوں نے ڈاکٹر معین الدین عقیل کو مزید معلومات ارسال کیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے ڈاکٹر رشید الدین خان نے بھی اسی سلسلے میں مدد کی۔
ڈاکٹر معین نے یہ تمام دلچسپ احوال کتاب کے مقدمے میں درج کیا ہے۔ حواشی ایسے کہ تحقیق و جستجو کا حق ادا کریں۔
یہ مختصر سی کتاب اپنی اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ مصنف عبدالغفار خاں 27 اپریل 1914 کو فرخ آباد سے عازم سفر ہوئے تھے۔ قائم گنج سے منماڑ تک کا ٹکٹ لیا اور پھر سفر کے احوال کو اپنے پاس محفوظ کرتے چلے گئے۔ متھرا، آگرہ، گوالیار ۔ ۔ ۔ نت نئے شہر، نئی نئی منزلیں آتی گئیں اور مسافر آگے بڑھتا چلا گیا۔ چنبل سے گوالیار کے درمیان آنے والی پہاڑیوں کا بیان ہو یا دوران سفر ہمسفروں کے قصے، موسم کی شدت اور سفر کی صعوبتوں کے تذکرے ہوں یا پھر لیمنڈ سے قلب کو راحت پینچانے کے سامان کا احوال، عبالغفار خاں کے انداز بیان میں غضب کی دل کشی ہے۔ ایک موقع پر لکھتے ہیں:
ابھی تھوڑا دن باقی تھا۔ بھیلسہ ملا۔ اس کا قلعہ پہاڑ کی ایک ٹیکری کی طرح داہنی طرف نظر آرہا تھا۔ یہ مقام بھی گزشتہ زمانوں کی لڑائیوں اور کشت و خون کی وجہ سے مشہور ہے۔ بھیلسہ سے آگے دن غروب ہوگیا۔ اس لیے میں اب آرام سے لیٹ رہا۔ نو بجے بھوپال کا اسٹیشن آیا۔ مگر حجاب شب نے سواد شہر کو میری نظروں سے مخفی رکھا۔”
مگر یہ محض سفر کی باتیں ہیں، ابھی عبدالغفار خاں کی اصل منزل تو آنا باقی ہے۔
منماڑ سے اورنگ آباد تک کے حالات، اورنگ آباد، مقبرہ رابعہ درانی، اورنگ آباد سے خلد آباد تک، درگار شیخ برہان الدین، مقبرہ ملک عنبر، دولت آباد سے حیدرآباد تک کا احوال، غار موسومہ تین تالہ، اور دیگر کئی بزرگان دین کے مقابر کا بیان ۔۔۔۔۔۔ غرضیکہ مصنف نے اپنے سفرنامے کو کچھ اس ڈھب سے لکھا ہے کہ قاری کا جی کرتا ہے کہ ان کا یہ سفر ختم ہی نہ ہو۔
مگر کیا کیجیے کہ یہ سفرنامہ محض 74 صفحات پر مشتمل ہے۔
راقم الحروف کو مزید حق نہیں کہ وہ آپ کے اور اس مزے دار سفرنامے کے درمیان حائل رہے، سو پیش خدمت ہے:
http://www.scribd.com/doc/227434724/Eik-Nadir-Safarnama-Dakkan-Abdul-Ghafar-Khan-Karachi-1982
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
Inline image 1