پیارے قارئین! جیسا کہ آپ نے دیکھا برسات کا موسم تھا اور بارش ایک مہینہ تک نہیں ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے، پانی نہیں ملے گا تو کیسے چلے گا، جگہ جگہ بارش کے لیے نماز اور دُعا کا اہتمام کیا جانے لگا، اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول کی اور بارش جم کر ہوئی لوگوں نے راحت کی سانس لی میں نے حدیث (برحانی اوسط: 4577) میں پڑھا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا جو قوم بھی زکوٰة روک لیتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو قحط میں مبتلا کردیتے ہیں، بارش بند ہوجاتی ہے اور لوگ دانہ پانی کے محتاج ہوجاتے ہیں، ہم اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو ایک بات دیکھنے کو ملے گی جو کل امیر تھے وہ غریب ہوگئے اور جو غریب تھے وہ امیر ہوگئے جو امیری سے غریبی کی طرف آئے ان لوگوں نے اپنے اچھے وقت میں غریبوں کو بھلا دیا۔
قرآن حدیث کی روشنی میں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ زکوٰة نہ دینے کی وجہ سے سارا مال تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قحط سالی کا عذاب آتا ہے اور زکوٰة دینے سے مال پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ ہمارے سامنے اچانک سانپ آجائے تو ہماری آدھی جان نکل جاتی ہے کہیں ڈس لے گا تو کیا ہوگا اسی طرح نصیحت یہ کی گئی ہے کہ قیامت کے دن زکوٰة نہ دینے والوں کا مال انتہائی زہریلے سانپ کی شکل میں آئے گا اور اس کو کاٹے گا۔
آج کا انسان دولت کو یوں جمع کررہا ہے جیسے وہ اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہے جب کہ اسے بتا دیا گیا ہے کہ دنیا دو دن کی ہے اور مال و دولت بھی دو دن کے۔ کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ موت کب آئے گی اور اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے پھر بھی غیر یقینی کام کررہا ہے، دوسروں کا حق مار رہا ہے۔ عالیشان مکان بنا رہا ہے ، زیور ہیرے موتی جمع کررہا ہے، کچھ لوگ اپنے مکان اپنی جائیداد اپنی دولت اور اپنی خوشحالی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں کامیاب ہوگیا جب کہ اس کی اصلی کامیابی اس کے وہ اعمال ہیں جو اس نے کمائے ہیں اصل دنیا تو وہ ہے جو مرنے کے بعد اس کے سامنے آنے والی ہے ۔ اکثر مال و دولت جمع کرنے والے دولت کے نشے میں کہتے ہیں کہ میں نے یہ کمایا یہ بنایا تو دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا، خالی ہاتھ آیا تھا خالی ہاتھ جائے گا۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی مال ودولت ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا دیا ہے ساری چیزوں کا اصل مالک وہی ہے اگر وہ ہم کو سارا مال اپنے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دے دیتا تو بھی ہمیں کوئی اعتراض کا حق نہیں تھا مگر یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے ایسی بات کا حکم نہیں دیا بلکہ اپنے مال میں سے کچھ حصے کو خرچ کرنے کی ہدایت دی ہے، زکوٰة کے طور پر مال کا چالیسواں حصہ ہی ادا کیا جانا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں اور بے شمار اجر و ثواب سے نوازتے ہیں، اس لیے پورے اہتمام اور پوری خوش دلی کے ساتھ زکوٰة ادا کرنے کی کوشش کیجئے، زکوٰة کی رقم دینے کے لیے اپنے اطراف ایسے لوگوں کو تلاش کیجئے جو بڑی کفالت سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں، چوں کہ زکوٰة کسی غریب ہی کو دینا ضروری ہے اس لیے اللہ ہمیں صحیح طریقے پر زکوٰة ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، آگری پاڑہ، ممبئی11-
9323793996
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔