منور رانا نے خوبصورت شاعری تخلیق کی مگر اسے منظر عام پر آنے میں طویل عرصہ لگا۔وہ اپنے تخلیق کو ایک درد کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور عورت کی خوبصورتی اور دلکشی کو اشعار کی شکل میں ڈھالتے ہیں۔
ایک عورت کے احساسات کو محسوس کرنے کا نتیجہ ایک خوبصورت شاعری میں ڈھل گیا جو پڑھنے والے کے دل کو چھو جاتا تھا۔جیسا کہ انہوں نے اپنی شاعری میں یہ خیال پیش کیا کہ ایک ماں کے لیے ناممکن ہے کہ وہ برے الفاظ منہ سے نکالے اور اسکا غصہ دیر تک نہیں رہتا۔اس خیال نے انکی شاعری کو بہت شہرت اور دوام بخشا۔
لبوں پر اسکے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو کبھی خفاء نہیں ہوتی
رانا منو ررائے بریلی میں سن1952 میں پیدا ہوئے۔ انکے خاندان کا بڑا حصہ تقسیم ہند کے وقت بکھر گیاتھا۔ان کے خان دان کے کئی افراد پاکستان ہجرت کر گئے جبکہ رانا منور کے والد تلاش معاش کے لیے کلکتہ کوچ کر گئے۔انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ کلکتہ میں گزارا اور وہاں بنگالی زبان میں شاعری کی اور اسٹیج پر بھی اپنا کلام پیش کیا۔
سن انیس سوساٹھ کے وسط میں منور رانا پرانے لکھنئو کے سینٹ وکٹوریہ اسکول میں داخل ہوئے۔منور رانا گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ لکھنئو کا سنہرا دور تھا جب وہاں سرکاری ملازموں اور تاجروں سے ذیادہ شاعر تھے۔اس وقت کی فضائوں میں گیتوں کی موسیقی تھی ۔آج کی طرح فضائوں میں وی آئی پی لوگوں کی کاروں کے سائرنوں کی ایسی گونج نہیں تھی جیسے شام کے وقت جنگلوںمیں بھیڑیوں کی آوازیں ہوں۔لکھنئو ایک تخلیقی شہر تھا۔اس وقت منور راناکو شاعری سے پیار تو تھا مگر وہ شاعر نہیں تھے ۔اس لیے کہ انکا خاندان ایک مزہبی گھرانہ تھا۔جہاں شاعری سے کسی کو شغف نہ تھا۔لیکن شہر کی فضائیں بہت شاعرانہ تھیں اور ہر شام مشاعروںکی محفلیں ہوتی تھیں۔
منور رانا سن انیس سو ساٹھ والے لکھنئو کو نوابوں کا شہر قرار دیتے ہیں جب وہاں کوئی خطرات نہیں تھے اور لوگ باہمی پیار و محبت سے رہتے تھے۔اس وقت لوگ صرف مطلب کے لیے نہیں ملتے تھے اور صرف پیار کی زبان بولتے تھے۔ایک دوسرے سے ادب آداب کے ساتھ پیش آتے تھے۔ہر کوئی مذہب سے بالا تر ہو کر دوستوں سے ملتا ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا اس وقت کا لکھنئو ایک ایسا معاشرہ تھا جو کہ جنت نظیر طرز زندگی کا حامل تھا۔
منور رانا کے ہم مزاج لوگوں کی دنیا اکبری گیٹ سے شروع ہو کر امین آباد پہ ختم ہوتی تھی۔وہاں آج کی طرح مختلف طرح کی نگریاں نہیں تھیں۔پتنگ بازی ہوتی اور پتنگوں کی لڑائی ہوتی مگر آپس میں لڑائی نہیں ہوتی تھی۔
وہاںمیرا تمہارا ماحول نہیں تھا بلکہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھاتے تھے۔
شاعروں کا مشہور میٹنگ پوائنٹ وکٹوریہ اسٹریٹ پرکاظم ٹی اسٹال تھا۔اس سے آگے مشہور شاعر ساغر خیامی کے بھائی نادر خیام کا گھر تھا۔اردو کی ادبی محفلیں اس ٹی اسٹال سے نقاس اور چاند کیفے تک پھلی ہوئی تھیں۔
جلد ہی منور رانا کو لکھنئو کی ادبی دنیا کو تعلیم کی خاطر خیر باد کہنا پڑا ،اور وہ کلکت میں کامرس میں بیچلر کرنے کے لیے آگئے۔جبکہ انکی دلچسپی لاء میںتھی لیکن ان کے والد انہیں اپنے ٹرانسپورٹ بزنس میں شامل کرنا چاہتے تھے۔تاہم انہوں نے اپنے والد کی خواہش پور ی کی لیکن اب ان کے پاس تھیٹر اور شاعری کے لیے کم وقت ملتا گو کہ شاعری اب انکی زندگی کا جزو لاینفک بن چکی تھی۔
انہوں نے اپنی شاعری منور علی آتش کے ساتھ سائن کی ور انہوں نے اپنا تخلص رانا رکھا۔لکھنئو میں انہوں نے ولی عاصی کے ساتھ تمام مشاعروں میں شرکت کی اور کبھی نہ ختم ہونے والی شہرت حاصل کی۔
جدید سوسائٹی میں منور رانا کو جو بات سب سے بری لگتی ہے وہ نوجوانوں کا عمر رسیدہ لوگوں سے ناروا سلوک ہے۔اس لیے انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع ماں کو بنایا ور اس سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اگر انڈین وزیر اعظم نرندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اپنی اپنی مائوں کی بات سنیںتو جنوبی ایشیاء میں امن کی فضا قائم کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔