کھٹی میٹھی عید

احمد ندیم قاسمی | گدگداریاں

0

ہم  نے پوچھا ’’کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟‘‘

بولے ’’دفتر کے نجیب گیا تھا۔ میرا مطلب ہے نجیب کے دفتر گیا تھا۔‘‘
’’وہاں کیا کرنے گئے تھے؟‘‘
’’قرضے سے کچھ نجیب لینے گیا تھا۔ یعنی کہ نجیب سے کچھ قرضہ لینے گیا تھا۔‘‘

’’ایسی کیا ضرورت پڑ گئی؟‘‘
’’ضوری فرورت تھی، میرا مطلب ہے فوری ضرورت تھی۔
’’آپ تو بالکل حواس باختہ ہو رہے ہیں۔‘‘
’’دراصل کئی دنوں سے میرے چکر کو سر آ رہے ہیں۔‘‘
’’یعنی سر کو چکر آ رہے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا۔

’’جی ہاں اور چکر اس لیے آ رہے ہیں کہ مجھے ایک دم بہت سے روپے کی ضروری فرورت پڑ گئی ہے۔‘‘
’’مگر ایسی فوری ضرورت بھی کیا؟‘‘
’’عید کی بیگم شاپنگ کے لیے؟‘‘
’’یعنی بیگم کی عیدشاپنگ کے لیے؟‘‘
’’لاحول ولا قوۃ! کیا میں نے بیگم شاپنگ بک دیا۔ بیگم سن لیتیں تو میرے تو ہاتھ مروڑ کر میرے کانوں کو تھما دیتیں۔‘‘

’’یعنی تمھارے کان مروڑ کر تمھارے ہاتھوں… یہ ایک دم تمھیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’تم تو ایک دم گنجے ہو گئے ہو۔‘‘
’’میں بھی سوچ رہا تھا کہ میرا سر ہلکا پھلکا اور خالی خالی سا کیوں لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بال جھڑ گئے ہیں۔‘‘
’’یعنی تمھارے بال جھڑ گئے اور تمھیں خبر بھی نہیں ہوئی؟‘‘

’’کیوں نہیں ہوئی۔ بازار سے نکل کر جب میں نے سر پر ہاتھ پھیرا تو بہت سے بال میرے ہاتھ میں آ گئے۔ مگر میں سمجھا کہ صبح بیگم کی کنگھی اپنے سر میں پھیر لی تھی۔ یہ کنگھی میں پھنسے ہوئے انہی کے بال ہوں گے جو میرے سر پر منتقل ہو کر اب جھڑ رہے ہیں۔ مگر اب میں نے سر پر دوبارہ ہاتھ پھیرا تو واقعی صفائی ہو چکی۔‘‘
’’مگر یہ سب کچھ ہوا کیسے؟ کوئی واہیات قسم کی کریم تو نہیں لگا لی؟ کسی بے ہودہ قسم کے تیل سے تو سر نہیں چپڑ لیا؟‘‘

’’نہیں بھئی، تم جانتے ہو کہ میں کریموں اور تیلوں کا قائل نہیں۔‘‘
’’صبح کو تم نے آئینہ دیکھا تھا؟‘‘
’’یقینا دیکھا تھا، سر پر گھنگھریالے بالوں کا ڈھیر تھا۔‘‘
’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں، بس بیگم کو عید شاپنگ کے لیے لے گیا۔‘‘
’’مگر شاپنگ کا بالوں کی جڑوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟‘‘
’’سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
’’کتنے کی خریداری کی؟‘‘

’’پروگرام پانچ ہزار روپے کی خریداری کا تھا مگر بیگم نے ایک لاکھ خرچ کروا ڈالے۔ کہنے لگیں، عید روز روز تھوڑی آتی ہے۔‘‘
’’اور تم نے یہ رقم ادا کر دی؟‘‘
’’دکاندار جاننے والے تھے، شام تک کے لیے ادھار دیتے گئے۔ اب خریداری کا سامان اور بیگم کو گھر پہنچا کر دوست احباب سے قرضہ لینے نکلا ہوں۔ بوہنی تم کر دو۔‘‘
’’وہ تو میں کچھ نہ کچھ نذر کیے دیتا ہوں مگر تمھارے ایک دم گنجے ہو جانے کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔‘‘
…٭…

’’عجیب خبر ہے۔ اتنی مدت سے اخبار پڑھ رہا ہوں مگر ایسی کلاسیکل قسم کی خبر کبھی نظر سے نہیں گزری تھی۔ حد ہو گئی۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘
’’یہ دیکھو تصویر۔ اس میں ایک صاحب کی لاش کو بیگم کی عید شاپنگ کے سامان کے انبار تلے سے نکالا جا رہا ہے۔ بے چارے یہ سارا سامان مینار کی طرح اٹھائے جا رہے تھے کہ لڑکھڑائے۔ شاپنگ کے سامان کا یہ پہاڑ کا پہاڑان پر آگرا۔ اس کے نیچے دب کر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘

رمضان شریف کے احترام میں
رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا۔ رُویت ہلال رمضان پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اس طرح کا جھگڑا رویت ہلال عید پر ہوتا ہے۔ بہرحال چاند نکلنے کی تاریخ کے جھگڑے میں پاکستان کا ایک طبقہ تو بالکل نہیں پڑتا۔ یہ ملک کے ان تاجروں کا طبقہ ہے، جو چلی میں زلزلے کی خبر پڑھ کر ٹینڈے مہنگے کر دیتے ہیں۔

تاجروں کے اس طبقے نے اشیائے ضرورت ابھی سے مہنگی کر دی ہیں۔ انھیں اس سے غرض نہیں کہ پہلا روزہ بدھ کو ہو گا یا جمعرات کو، انھوں نے کئی بدھ اور کئی جمعراتیں پہلے ہی روزوں کے استقبال کا اہتمام کر لیا ہے۔ دوسری چیزوں کو تو چھوڑیے، کھجوروں تک کا یہ عالم ہے کہ بظاہر ریڑھی پر پڑی ہوتی ہیں۔ مگر نرخ پوچھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کو لنگوٹ باندھ کر کھجور کے درخت پر چڑھنا، چوٹی پر سے کھجوریں توڑنا اور پھر درخت سے نیچے اترنا ہو گا۔

تب جا کر آپ کھجور کا ایک دانہ چکھ سکیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق تاجروں کا یہ طبقہ رمضان المبارک کے احترام میں ایک مہینے کے اندر اتنا کچھ کما لیتا ہے کہ یہ منافع سارا سال ان کی کفالت کرتا ہے۔ بعض تاجر تو صرف سحری اور افطاری میں استعمال ہونے والی اشیا کی گرانی سے اتنی رقم جمع کر لیتے ہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے میں انھیں بہت آسانی رہتی ہے۔ وہ اس گرانی کے اسباب کو چھپا کر بھی نہیں رکھتے۔ پوچھیے کہ اس چیز کی قیمت یکایک بڑھ کیوں گئی تو صاف صاف کہیں گے… اور عموماً ’طنزاً‘ مسکرا کر کہیں گے ’’کیا آپ کو معلوم نہیں؟ رمضان شریف شروع ہونے میں بس چند روز باقی ہیں۔ اس صورت میں چیزیں مہنگی نہیں ہوں گی تو کیا سستی ہوں گی!‘‘

مرزا غالب روزے سے نہیں تھے۔ ایک دوست ان سے ملنے آیا تو دیکھا مرزا بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ براہ راست اعتراض کرنے میں ادب مانع تھا۔ سوبالواسطہ انداز میں پوچھا ’’حضرت میںنے سنا تھا کہ رمضان شریف میں شیطان ایک کوٹھڑی میں بند ہو جاتا ہے۔‘‘

مرزا بولے ’’آپ نے ٹھیک سنا تھا مگر وہ جس کوٹھڑی میں بند ہوتا ہے وہ یہی تو ہے!‘‘ ہمارے خیال میں تاجروں کے متذکرہ طبقے کے پاس مرزا غالب کی سی شگفتگی بھی نہیں کہ وہ رمضان شریف میں عامتہ المسلمین کی لوٹ مار کا کوئی ایسا جواز پیش کر سکیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان المبارک عام مسلمانوں کی نیکیاں اور ہمارا بنک بیلنس بڑھاتا ہے۔

ہمارے ایک دوست کی، الفاظ سے کھیلنا عادت ہے۔ کہہ رہے تھے کہ رمضان شریف کی خوشی میں گنڈیری بھی اتنی مہنگی کر دی گئی کہ میں اسے گنڈیری کی بجائے ’’ڈنگیری‘‘ کہتا ہوں اور یہ ڈنگیری ڈانگ سے نکلی ہے۔ سموسہ اتنا مہنگا ہے کہ میں اسے سموسہ کی بجائے ’’مسوسہ‘‘ کہتا ہوں اور یہ مسوسہ دل مسوس کر رہ جانے سے نکلا ہے۔ وہ کھجور کو جھکور کہتے ہیں، جو جوکھم سے نکلا ہے۔ پکوڑے کو گپوڑا کہتے ہیں جو کپوڑا کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ وہ انڈے کو ڈنڈا، ڈبل روٹی کو ٹربل روٹی اور بناسپتی کو ناش پتی کہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ رمضان شریف کی آمد آمد نے تو آپ کی ڈکشن ہی بدل ڈالی۔ بولے ’’بازار میں جا کر ذرا انگور کا بھائو تو پوچھو، سنو گے تو لنگور نظر آنے لگو گے۔‘‘

آ

اپنا تبصرہ لکھیں