قصہ خوانی ٔخیبر بین

qisa 1qisa 2
(درہ خیبر کی سیر کا احوال)
از
راجہ محمد عتیق افسر

اپریل کا مہینہ موسم گرما کی آمد کا نقارہ بجا رہا تھا اور گرمی محسوس بھی ہو رہی تھی ۔ 18 اپریل 2014ء کی صبح وہاب شاہ صاحب کی کال موصول ہوئی جو مجھ سے استفسار کر رہے تھے کہ میں کہاں پہنچا۔ اگرچہ گزشتہ روز یہ طے پایا تھا کہ ہم دونوں کو صبح ٩ بجے بس اسٹینڈ پہ اکٹھے ہونا ہے مگر وہاب صاحب پہلی بار لنڈی کوتل جا رہے تھے اس لیے وہ علی الصبح ہی گھر سے روانہ ہو کر بس اسٹینڈ پہنچ گئے ۔ان کی اس صبح خیزی کے باعث مجھے بھی جلد تیار ہو کر گھر سے نکلنا پڑا۔ ہمیں دفتری امور کے سلسلے میںخیبر ایجنسی کے ہیڈکوارٹر لنڈی کوتل جانا تھا۔ یہ پاک افغان شاہراہ پہ واقع درہ خیبر کا مشہور سیاحتی وتجارتی مقام ہے ۔ گزشتہ ایک دہائی سے قبائلی علاقوں میں شورش برپا ہونے کی وجہ سے غیرمقامی افراد یہاں جانے سے کتراتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بھی حفظ ما تقدم کے طور پہ اس علاقے کے مقامی افراد جیسا حلیہ اختیار کیااور پبلک ٹرانسپوڑت کے ذریعے منزل تک جانے کا قصد کیا۔پشاور سے لنڈی کوتل کا فاصلہ تقریبا45 کلومیٹر ہے جو اسلام آباد کے فاصلے سے ایک چوتھائی ہے لیکن کرائے کے لحاظ سے یہ اسلام آباد سے زائد کرایہ وصول کر رہے تھے ۔ استفسار کرنے پہ معلوم ہوا کہ روڈ کی ناگفتہ بہ صورت حال کے پیش نظر کرایہ زیادہ وصول کیا جاتا ہے ۔ خیر ہم صبح آٹھ بجے کارخانو مارکیٹ سے روانہ ہو گئے ۔کار خانو مارکیٹ حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع ہے ۔ یہ غیر ملکی اشیاء کی بڑی منڈی ہے ۔ارزاں قیمتوں کی وجہ سے پورے ملک سے لوگ یہاں آتے ہیں ۔ اس ارزانی کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے نام پة خریداگیاسامان غیرقانونی طور پہ یہاں بیچ دیا جاتا ہے ۔ اس مال پہ ٹیکس اور کسٹم کی چھوٹ ہوتی ہے اس طرح اربوں روپے کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہونے سے رہ جاتا ہے ۔اس سے ایک طرف تو ملکی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے تو دوسری جانب ملکی صنعت سے تیار اشیاء کی فروخت میں کمی کے رجحان کی وجہ سے ملکی صنعت و حرفت کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ خیبر پختونخواہ کا بندوبستی علاقہ ہے لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس ضمن میں غیر سنجیدگی بلکہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہی ہیں۔
میں لنڈی کوتل متعدد بار جا چکا تھا لیکن وہاب صاحب اس سفر سے زیادہ سے زیادہ لظف اندوز ہونا چاہتے تھے اس لیے وہ کھڑکی کی جانب بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم جمرود پہنچے جہاں باب خیبر واقع ہے اس کے ساتھ ہی جمرود کا قلعہ بھی ہے ۔ بچپن میں ہم غزوہ ٔ خیبر کے واقعات پڑھتے تھے تو یہی جگہ ذہن میں آتی تھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خیبر تو سعودی عرب میں واقع ہے۔ یہ تو پاک افغان سرحد پہ واقع درہ خیبر ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اہم گزرگاہ ہے ۔ اسکی کل لمبائی53کلومیٹر ہے جس میں سے تقریبا 45کلومیٹر پاکستان جبکہ باقی افغانستان میں ہے ۔ جمرود میں ریلوے اسٹیشن بھی ہے ۔ ریلوے ٹریک سڑک کے ساتھ ساتھ ہی ہے ۔ یہ ریلوے ٹریک بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ انگریز نے اپنے استبداد کو دوام بخشنے کے لیے افغان سرحد سے لے کر کراچی بندرگاہ تک ریل کی پٹری بچھائی ۔ پشاور سے طورخم تک کبھی ریل بھی چلتی تھی جسے آگے پیچھے دو انجن چلاتے تھے۔ راستے میں چڑھائی ہے اور پہاڑی راستہ ۔ اس لیے جگہ جگہ سرنگیں بنائی گئی ہیں اور اسٹیشن بھی ۔ یہاں ریل کی پٹری بھی پہاڑی سڑک کی طرح بل کھاتی ہے ۔سڑک بھی دو رویہ ہے یعنی آنے اور جانے کے لیے دو الگ الگ سڑکیں بنی ہیں جن پہ یکطرفہ آمد و رفت ہوتی ہے ۔
ہم ماضی کی بنی اس شاہراہ اور پٹری کا لطف لے رہے تھے جو پاکستان کو افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ملاتی ہے۔ ہم اس کی بناوٹ اور تاریخ پہ بات کر ہی رہے تھے کہ گاڑی کی چال بدل گئی اور جھٹکے محسوس ہونے لگے ۔معلوم ہوا کہ سڑک اپنا وجود کھو چکی ہے اور ہر گاڑی شتر بے مہار کی طرح الگ راستے پہ گامزن نظر آئی ۔ اسی اثنا میں ریل کی پٹری بھی جگہ جگہ سے اکھڑی نظر آئی ۔ دل میں خیال آیا کہ شایدشدت پسندعناصر نے اسے جگہ جگہ سے تباہ کیا ہے لیکن ایسا نہیںبلکہ اس تمام شکست و ریخت کی اصل وجہ وہ نیٹو کنٹینرز ہیں جو بغیر کوئی ٹیکس ادا کیے مال و اسباب سے لدے یہاں سے گزرتے ہیں اور افغانستان پہ قابض امریکی فوجیوں کو کمک فراہم کرتے ہیں ۔ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے سڑکیں برباد ہوئیں تو انکے گزنے کے لیے جگہ جگہ سے ریل کی پٹری کاٹ کر راستے بنائے گئے ہیں ۔ اپناسب نقصان کر کے ہمیں حاصل کیا ہوا؟ یہ لیبل کہ ہم ناقابل اعتماد”غیر نیٹو اتحادی “ہیں ۔ اس جملے نے ہمارے حکمرانوں کی باچھیں کھلا دیں مگر چالیس ہزار سے زائد لاشیں بھی ہمارا مقدر بنیں اور جو شورشیں برپا ہیں وہ بھی انہی کی عطا کردہ ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شاید ہم آزاد ہو گئے ہیں اور دور ِغلامی کے ہر نقش کو مٹا دینے پہ تلے ہیں اسی لیے وہ سب کچھ ضائع کر رہے ہیں جو انگریز بہادر نے بنایا تھا۔
پون گھنٹے کا سفر ناگفتہ بہ سڑک کی وجہ سے اڑھائی گھنٹے میں طے ہوا اور ہم لنڈی کوتل کے بازار میں پہنچ گئے ۔ قدرے بلندی پہ ہونے کے باعث یہاں کا موسم خنک تھا ۔ بازاروں میں رونق تھی لوگ اسلحے سے مسلح گھوم پھر رہے تھے یہ اس علاقے کا کلچر ہے ۔ اسلحہ رکھنا اور اسکی نمائش قبائل کے لیے سرمایہ ٔ افتخار ہے ۔ یہ ان قبائل ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ ہماری مغربی سرحدیں محفوظ رہیں اور ہم چین کی نیند سوتے رہے ۔ لیکن اس خدمت کے صلے میں انہیں کیا ملا ۔ اپنے ہی ملک میں انہیں ہر جگہ دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔خیر ہم نے لنڈی کوتل کی سیر کی یہ خیبر ایجنسی کا مرکز ہے یہاں ایجنسی ہیڈکوارٹر کے دفاتر، ہسپتال، کالج اور، فوجی چھاؤنی جیسے ادارے موجود ہیں ۔ یہاں ریلوے اسٹیشن بھی ہے ۔ لوگ آسودہ حال اور خوشحال معلوم ہوتے ہیں ۔ ہر گھر ایک قلعہ نما عمارت ہے جس کی دیواریں چالیس سے پچاس فٹ بلند ہیں ۔ اور کچھ گھروں کی لمبائی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ گا ڑی بھی ان کے ساتھ سے گزرتے ہوئے کئی منٹ لیتی ہے ۔ ان لوگوں کا بودوباش دیکھ کر سمجھ آئی کہ گاڑی کے کرائے زیادہ کیوں تھے ۔یہاں کھیت ،کھلیان، ہریالی نظر نہیں آتی ان افراد کا رزق پاک افغان تجارت سے ہی وابستہ ہے ۔ بڑے تاجروں کی کثیر تعداد اسی علاقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ باقی لوگ انہی سے جڑے ہوئے ہیں ۔لنڈی کوتل کا بازار غیر ملکی اشیا ء کی تجارت کا بڑا مرکز بھی رہا ہے۔
ہم نے جلد اپنے کام کو نمٹایا اور طورخم بارڈر کی طرف عازم سفر ہوئے جو یہاں سے کچھ ہی دور ہے ۔ یہاں بھی سڑک دو رویہ تھی مگر کچی تھی اور وجہ وہی نیٹو کنٹینر۔گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے قطاریں لگ جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی قافلہ جا رہا ہے ۔ ارد گرد پہاڑ اور ان سے رِستے چشمے اور جھرنے طبیعت کو لبھاتے رہے ۔ تقریبا نصف گھنٹے میں ہم طورخم بارڈر پہنچ گئے۔ یہاں ایک بارونق بازار ہے اور دونوں طرف سے افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ لگاتار جاری رہتا ہے ۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ آر پار جاتے ہیں ۔ ہاتھ سے دھکیل کر چلائے جانے والے ریڑھی نما رکشے مستورات ، بچوں ، ضعیف افراد اورانکا سامان لیے کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف رواں دواںتھے ۔ میں نے واہگہ بارڈر بھی دیکھا ہے لیکن وہاں جا کر وطنیت جاگ اٹھتی ہے اور کانوں میں مرد مجاہد جاگ ذرا کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں ۔ دونوں طرف ہجوم جمع ہوتا ہے لیکن ایک مخاصمت کی فضا ہوتی ہے لوگ پرچم سرنگوں کرنے کی تقریب سے محظوظ ہوتے اور اپنی منزل کی جانب چل دیتے ہیں ۔ اکا دکا افراد کو آر پار آتے جاتے دیکھا جاتا ہے ۔ لیکن یہاں کیفیت ہی مختلف تھی ۔ذہن میں ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ۔کے الفاظ گردش کر رہے تھے ۔ اور جی چاہتا تھا کہ سب سرحدیں ختم کر کے ایک خلافت کی چھتری کے نیچے دوبارہ آجائیں ۔ بہر حال یہ تقسیم در تقسیم بھی ہمارا نصیب ٹھہرا۔
سیر کرنے کے بعد ہم پشاور کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں نماز ظہر کے لیے علی مسجد قیام کیا ۔ یہ لنڈی کوتل اور جمرود کے وسط میں واقع ہے اس کے پہلو میں ایک سدا بہار ندی ہے جو چشموں کے شفاف پانیوں کو سمیٹے بہ رہی ہے ۔ ہم نے اسی پانی سے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی ۔ گاڑی روانہ ہوئی اور تھوڑی دیر میں گاڑی بھی اسی ندی میں اتر گئی ۔ سڑک کی ابتری کے باعث لوگوں نے اسی ندی کو رہگزر بنا دیا ۔ تمام قافلہ ندی سے گزر رہا تھا ۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ پانی سڑک پہ آگیا ہے یا گاڑیاں ندی میں چل رہی ہیں ۔ جو پانی مسجد کے پاس اپنی شفافیت کے باعث امرت کو شرما رہا تھا اب وہ گاڑیوں سے ٹکرا کر گندے نالے کی صورت میں ڈھل گیا تھا ۔اچانک قافلہ تھم گیا گاڑیاں رک گئیں معلوم ہوا آگے سڑک تعمیر ہو رہی ہے ۔ کچھ دیر بعد دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں اور کچھ دور گرد او ربڑے بڑے پتھر کے ٹکڑے فضا میںبلند ہوتے دیکھے ۔ خیال آیا کہ کوئی تخریبی کاروائی ہو رہی ہے لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ یہ تخریب نہیں تعمیر ہو رہی ہے سنگ ِراہ کو دھماکوں سے ریزہ ریزہ کر کے راستہ صاف کیا جا رہا ہے تاکہ گم گشتہ سڑک کو دوبارہ وجود بخشا جا سکے ۔ اسی اثنا میں نظر سڑک کنارے بیٹھے چند افراد پہ پڑی جو کرسی اور میز سجائے بیٹھے تھے کرسی کے ساتھ ایک بیگ رکھا تھا اور میز پہ نہایت خوشنما ترازو جو کہ عموماً زرگروں کے پاس ہوتا ہے رکھا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا شئے بیچ رہے ہیں ۔ ڈرائیور سے پوچھا تو وہ ہنس دیا اور بولا کیا آپ کو نہیں معلوم ؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے بتایا کہ یہ چرس بک رہی ہے ۔ یوں سرِراہ، سرِعام منشیات کا کاروبارکیا کہنے ۔ اس کاروبار سے بھی تو حکومت کی رٹ چیلنج ہوتی ہے مگر کسے فکر ہے ۔اگر جائز روزگار حاصل کرنے کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو تخلیقی صلاحیتیں بھنگ سے چرس اور افیون سے ہیروئن ہی بنائیں گی ،سمگلنگ کا کاروبار ہوگا اور مجرم معاشرہ تشکیل پائے گا۔یہی سب کچھ ہمارے قبائلی علاقوں میں ہوہی تو رہا ہے ۔ تعلیم ، صحت،روزگار اور دیگر سہولیات کا فقدان ہو گا تو عوام میں نفرت پھیلے گی اور پھر یہ نفرت زدہ لوگ کبھی دہشتگردوں کے بہکاوے میں آکر اپنی آگ بجھانے کی کوشش کریں گے کبھی سمگلنگ ، کبھی اغواکاری اور چوری جیسے جرائم کا سہارا لے کر ملک کو نقصان پہنچائیں گے ۔
لنڈی کوتل سے واپسی کا سفر ہم نے چار گھنٹے میں طے کیا۔ اس مختصر سفر سے جتنا ہم محظوظ ہوئے اس سے کئی گنا ہم اکتا گئے ۔ علاقے کی حالت زار خصوصا انفراسٹرکچر کی تباہ حالی دیکھ کر ہم دل شکستہ بھی ہوئے اور دل گرفتہ بھی ۔ سڑکوں اور دیگرقومی اثاثوں کی شکست و ریخت کا عالم دیکھ کر ایک حقیقت سمجھ میں آئی کہ ہمارے معاشرے میں تخریب کاری کا عمل سرکاری سطح پہ شروع ہوا بعد ازاں اسکی نجکاری کی گئی۔ زیاد ہ تر حصص اب بھی حکومت کے پاس ہی ہیں ۔ باقی حصص کچھ تو مذہبی انتہا پسندوں نے خرید لیے ، کچھ فرقہ واریت کے پروردہ لوگوں نے حاصل کیے ، کچھ علاقائیت اور لسانیت کے حامل قوم پرستوں نے لے لیے اور کچھ موسمی سیاست دانوں نے خرید لیے ہیں ۔ وطن عزیز کے اس خوبصورت چمن کے ہر درخت کی ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے اب حال گلستان کیا ہو گا ۔ اللہ رحم کرے ۔
یوں بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی بربادیاں
کچھ باغباں بھی ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے۔

6 تبصرے ”قصہ خوانی ٔخیبر بین

  1. very well effort.while reading it was a feeling of being there .Also there are points which Govt. and all .concerned must consider seriously and pay attention to develop such areas for tourism.you have touched some sensitive issues as well along with sharing your adventures experiences. Thats why it is said that a man can learn alot though travelling,so continue travelling,continue exploring through new angles of thinking and continue sharing your experiences with others. best wishes.

  2. میرا لنڈی کوتل کا یہ پہلا سفر تھا۔ یہ انتہائی لطف اندوز اور معلومات افزا تھا۔ انگریز دور کی تعمیرات دیکھ کر دل خوش ہوا۔ مگر انفراسٹرکچر کی تباہی پہ دل بہت خفا ہوا۔ اگر روڈ اور ریل کو بہتر کر دیا جائے تو سفر کی مشکلات حل ہو جائیں۔اسی طرح صحت اور تعلیم کو عام کیا جائے تو یہ خطہ جنت بن سکتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں اور پاکستان کا ہر علاقہ جنت بن جائے ۔ آمین

    سید وہاب شاہ
    پشاور

  3. I Think you are a sharp Writer. The article was interesting and informative . Keep up the Spirit in future

    Thanks Regards

    Dania Sohail Durrani
    Manager Business Development
    Chuchtai Healthcare
    Peshawar

اپنا تبصرہ لکھیں