ڈاکٹر فوزیہ عابد
اس وقت دنیا کے ہر کونے میں پاکستانی آباد ہیں۔پاکستانی خواہ کہیں بھی رہیںوہ اپنے مذہب اور قوم کی وجہ سے نہ صرف پہچانے جاتے ہیں بلکہ سوائے چند ایک کے وطن عزیز کو یاد بھی
رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک میں بسنے والے تارکین وطن خاص مواقع پر مل بیٹھتے ہیں اور ہم وطنوں کے ساتھ اپنے مذہبی اور قومی تہوار مناتے ہیں۔گو کہ آج ہمارا وطن عزیز اندرونی اور بیرونی انتشار کا شکار ہے مگر اس کے باوجود یہی ہماری پہچان ہے۔بیرون ملک پاکستان کے یوم آزادی ک بارے میں پاکستانیوں کے خیالات معلوم کرنے کے لیے اردو فلک ڈاٹ نیٹ نے ایک سروے ترتیب دیا ہے جو قارئین کی نذر ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ اوسلو سے پاکستان کے قومی تہوار کی اہمیت پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ
چودہ اگست یوم آزادی دراصل جغرافیائی آزادی ہے۔یہ سسٹم کی آزادی نہیں ہے۔یہاں آج بھی برطانوی قوانین رائج ہیں۔ یہ ملک اسلا م کے نام پر حاصل کیاگیا تھا مگر یہا ںاسلامی قوانین نہیں ہیں۔ اب اسلام پھیل رہا ہے۔ پچھلے پچاس سالوں سے جو جنریشن گئی ہے وہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکی ۔لیکن اب جو نئی پود آ رہی ہے وہ دین اسلام کو سمجھ کر اسے ملک میں نافذ کرے گی تو یہ ملک اسلامی ملک بنے گا۔ مجھے خوشی تب ہو گی جب سسٹم آزاد ہو گا ۔ملک میں اسلامی قوانین نافذ ہوں گے۔ بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ اکٹھے ہوکر یوم آزادی مناتے ہیں ۔یہ صحیح طریقہ ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں بھی ہوںسب مل کر یہ دن منائیں۔چھوٹے بچے تقریر کریں نظمیں پڑہیں۔ ا س موقع پر ہمیںاپنے وطن کی تاریخ دہرانی چاہیے۔کیونکہ اسکے معرض وجود میں آنے کی وجہ ہمارے دونظریاتی مملکت ہے۔ہمیں یہ معلومات جس زبان میں بھی ممکن ہو بچوں کو اردو انگلش یا نارویجن جس زبان میںبھی ہو سکے بتا نی چاہیے۔اس کے علاوہ وڈیو اور تصاویر کے ذریعے قومی ہیروز کے بارے میں بتائیں۔ بچوں کو
پاکستان کے بارے میںذہنی آزمائش کے کوئیز پرو گرام وں میں حصہ لینے کی ترغیب بھی دیں۔
محمد عابد لاہور کے بزنس مین ہیں ۔آجکل وہ ناروے آئے ہوئے ہیں ۔جشن آزادی کی اہمیت بیرون ملک پاکستانیوں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جشن آزادی کی اہمیت تو ہر حال میں ہے چاہے ہم ملک سے باہر ہوں یا ملک میں ہوں۔ ایک قوم کے لوگ دوسرے ملک میںپنے رسم و رواج نہیں چھوڑتے۔یہ ہمارے لیے ایک لمحہء فکریہ ہے کہ کیا ہمارا آزادی کا مقصد پورا ہو گیا ۔یہ ملک کس لیے بنایا گیا تھا۔ ہمیں چاہیے کہ اس دن کو کمیونٹی کے ساتھ اکٹھے ہو کرمنائیں ۔ چاہے کسی بھی فورم پہ منائیں جو یہاں موجود ہیں۔ آج ہماری قوم پریشان ہے۔مگر یہاںکے لوگوں کو وہ مسائل نہیں ہے جو پاکستان میں رہنے والوں کو ہیں۔وہاں لوگ مسائل اور محرومیوں کا شکار ہیں۔اس دن ہمیں پاکستانی قوم کی محرومیوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہی
موس کے تاجر اور اردو ٹیکسٹ بک کے مصنف خالد کھٹانہ نے کہا کہ ناروے ان چند ممالک میں سے ہے سے ہے جہاں پاکستان کا یوم آزادی پاکستان سے بھی ذیادہ منایا جاتا ہے۔انپروگراموں میں پاکستان کی اہم شخصیات حصہ لیتی ہیں۔ اس سال پاکستانی جشن سے ہزرا درجہ بہتر جشن یہاں ہے۔ پاکستانی فرقہ پرستی ہمارے لیے باعث شرم ہے۔ ہم کیا بتانا چاہتے ہیں دنیا کو ؟؟ شرم آنی چاہیے ہمارے سیاستدانوں کو انڈیا کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ میں اس موقع پر خون کے آنسو رو رہاہوں۔ ہمیں ایک دوسرے کوبھائی چارے کا پیغام دینا چاہیے بلا فرقہ ۔یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ڈرامہ ہے۔ہم پہلی بار دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم ایک نہیںہیں۔ کیا اب ہم کوئی اور نظریہ بنانا چاہتے ہیں؟؟
ہمیں چاہیے کہ اپنی خامیاں دور کریں ۔ہمارے حالات سے پوری دنیا با خبر ہے۔ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟؟ ہمارے سیاستدانوں نے دو دو آنے کی مساجد بنائی ہوئی ہیں۔ جمہوری آئین کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ایک بابا کینیڈا سے آیا ہے۔ جمہوری مطالبات کرنے کا ہر ایک کوحق ہے ۔لیکن یہ
طریقہ نہیں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ چھوڑو آئین کو ۔میںآئین خود لکھوا لوں گا۔ پاکستان کی بڑی اہمیت ہے ۔ عمران خان کا ایک سیاسی امیج تھا لیکن اس نے چودہ اگست کا انتخاب کیا ہے کہ کینٹینر والوں کو ہم پیمنٹ کر دیںگے ۔ خالد کھٹانہ نے کہا کہ مجھ جیسا کوئی انقلابی نہیں جوہر روزایک نیا پیغام فیس بک پر لکھتا ہے۔میرا پیغام ایک مزدور کے لیے ہوتا ہے۔ تمام ورکرز کو پاکستان میں غلاموں سے بد تر درجہ دیا گیا ہے۔ایک مزدور کا کوئی حق نہیں ہے۔ایک مزدور نے مہینے میں گزارہ کرنا ہے صرف سات ہزا روپئے میں۔اتنی کم رقم میں وہ کیسے گزارہ کرے؟
یہاں پر ہم لوگ بڑے امن سے جشن آزادی مناتے ہیںمختلف تنظیموں کے ساتھ۔ یہاںمیوزک پروگرام ہوتے ہیں۔مشاعرہ ہوتا ہے اور فیملی کے ساتھ پروگرام ہوتے ہیں۔ موجودہ حالت سے ہماری قوم کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔نارویجن وزیر اعظم پاکستانیوں پر فخر کرتے تھے ۔اب ہم انہیں کیا بتائیں ؟؟ ہمارے پا س انہیں بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔یہ کیا سوچیں گے کہ ہم ایک باغی قوم کے لوگ ہیں۔
موس سے غزالہ راجہ نے بتایا کہ پہلے ہم پاکستان ٹی وی چینل پر پاکستان کی خبریں سنتے تھے لیکن اب میں ے اپنا جادو باکس پھینک دیا ہے ۔کیونکہ پاکستان سے ایک ہی طرح کی سیاسی خبریں سن سن کر ہم لوگ تنگ آگئے ہیں۔ہر روز جلوس نکل رہے ہوتے ہیں۔پاکستان کی خبریں سننا تو دور کی بات ہے پاکستان جانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ویسے بھی وہاں کئی لوگ شادیوں کے پروگرام کرنے جاتے ہیں تاکہ اپنے عزیزوں کے ساتھ خوشی منائیں لیکن وہاں ہڑتالوں کی وجہ سے لوگ کسی پروگرام میں مل کر بھی نہیں بیٹھ سکتے۔اب وہاں نیا رواج چل نکلا ہے کہ باہر سے جانے والے لوگوںکے بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کر لیا جاتا ہے۔وہاں بڑے بڑے لوگوں کے بچوں کو اغواء کر لیا جاتاہے۔ایک عام پاکستانی کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
بچپن میں ہم لوگ شوق سے جشن آزادی کے پروگراموں میں جاتے تھے لیکن اب وہ جذبہ اور شوق نہیں رہا۔ویسے بھی جشن آزادی کا دن عام ورکنگ ڈے میں آ رہا ہے۔کام کی وجہ سے ہم لوگ جشن آزادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کر سکتے۔