سٹاک ہوم(رپورٹ :عارف کسانہ) غلام مصطفیٰ کھر کا ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا میں شرکت قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی اصل جمہوریت نہیں رہی۔ جاگیرداری نظام ختم نہ کرسکنا بھٹو کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہی بھٹو کی قاتل تھی۔ بھٹو جیسا رہنما تاریخ میں کبھی کبھی ہی پیدا ہوتا ہے۔ نصرت بھٹو نے میرے گلے لگ کر بتایا کہ مرتضیٰ بھٹو کا قاتل کون ہے۔ بھٹو پارٹی ختم ہوگئی اب صرف لوٹوپارٹی ہے۔بلاول زرداریوں کا جانشین ہے جبکہ فاطمہ بھٹو ہی اصل میں بھٹو کی وارث ہے ۔یہ انکشافات سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین نے عارف کسانہ کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اپنی اصلی صورت میں پاکستان میں کبھی بھی نہیں رہی۔ وہاں ایک فی صد رولنگ کلاس ملک پر حکومت کرتی ہے۔ جماعتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن حکمران طبقہ وہی رہتا ہے۔ جب تک ملک میںجاگیردارینظام موجود ہے اور ورکنگ کلاس اقتدار میں نہیں آتی مسائل ایسے ہی رہیں گے۔ بھٹو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین اور بے مثال خوبیوں کے مالک تھے اور ہمارے سیاسی باپ تھے۔انہوں نے بے آئین ملک کو متفقہ آئین دیا۔ انہوں نے ہی ہماری تربیت کی اور اُن کی خوبیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع اُص وقت ملا جب وہ شملہ میں اندرا گاندھی سے معائدہ کے لیے گئے۔ شکست کے باوجود انہوں نے دب کر معائدہ نہ کیا اور کشمیر کی تقسیم کی تجویز مسترد کردی۔ انہوں نے اندرا گاندھی پر واضع کردیا کہ وہ تاریخ نہ بھولیں کہ تمام حملہ آوروں کا تعلق شمال سے رہا ہے اور ہم اب بھی لڑ سکتے ہیں۔ اسلامی کانفرس اُن کا ایک اور کارنامہ تھا اور اس میں جو اہم فیصلے کیے تھے اگر اُن پر عمل ہوتا تو آج امت مسلمہ کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ اس میں مشترکہ اسلامی بنک، مشترکہ فوج، خارجہ پالیسی اور ایٹم بم شامل تھا۔ ایٹم بم بنانا بھٹو کے ذمہ تھا جسے انہوں نے پورا کردیکھایا۔انٹرویو میں انہیں بہت سے تندو تیز سوالات کا بھی سامناکرنا پڑا لیکن انہوں نے تحمل سے اُن سوالات کے جوابات دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی غلطیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بڑے آدمیوں سے غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اگر بھٹو ایف ایس ایف تشکیل نہ دیتے ، ضیاء کو آرمی چیف نہ بناتے اور 197میں جاگیرداروں کو ٹکٹ نہ دیتے تو شائد ان کا انجام مختلف ہوتا۔ اُن انتخابات میں بیوروکریسی نے انہیں اور وزراء اعلیٰ کو بلا مقابلہ منتخب کروا کر ایک غلط مثال قائم کی۔ پی پی پی میں بہت سے خوشامدی اور ابن الوقت بھی شامل تھے اورپی پی پی کے دور حکومت میں مجھے ایم این اے ہوتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا جبکہ کئی لوگوں کوتو دلائی کیمپ میں قید کیا گیا۔ جنرل ضیاء بہت خوشامدی انسان تھا ور ملتان میں ایک محفل میں بھٹو کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اس طرح اُس نے بھٹو کو شیشے میں اتارا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا ضیاء کے مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء سے بھٹو کی کوئی تلخ بات ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر غلام حسین نے کہا کہ مارشل لاء کے بعد بھی ضیاء بھٹو کو سر سر کہہ کر پکارتا تھا اور کوئی تلخی نہیں ہوئی تھی البتہ بھٹو نے شکوہ ضرور کیا تھا ۔جنرل ضیاء کے ایما پر سلام اللہ ٹیپو نے پی آئی اے کا طیارہ اغواہ کروایا لیکن بعد میں الذوالفقار نے اپنے کھاتے میں ڈال لیا اور کابل میں مقیم قیوم بٹ نے فہرست مرتب کی جس میں میرا نام بھی شامل تھا لیکن میں نے جانے سے انکار کردیا مگر مجھے ہتھ کڑیاں لگا کر لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو فرق آج کی مسلم لیگ اور قائد اعظم کی مسلم لیگ میں ہے وہی آج کی پیپلز پارٹی اور بھٹو کی پیپلز پارٹی میں ہے۔ اگر فاطمہ بھٹو عملی سیاست میں آگئیں تو پھر سے اصل پی پی پی بحال ہو جائے گی۔ عمارن خان اور طاہرالقادری نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور میں ذاتی طور پر اُن کے مطالبات کے حق مین ہوں اگرچہ طریقہ کار پر کچھ تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے صاف ستھری سیاست کی اور جنرل ضیاء تمام تر مخالفت کے ہم پر کوئی کرپشن ثابت نہ کرسکا لیکن اب سیاست مال کمانے کا نام ہے اور بھٹو کے نام کوبھی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ پاکستان کو اگر مہاتیر محمد جیسا رہنما مل جائے تو ہم بھی ترقی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سویڈن میں ایک طویل عرصہ رہنے کے باوجود میں نے یہاں کی شہریت نہیں لی اور سبز پاسپورٹ کوہی اپنی پہچان بنایا ہے۔ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھر پور توجہ دیں اور انہیں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کروائیں۔