ہر سال ٥ ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کے طور پر یہ تقریب سجائی جاتی ہے اور تعلیم کے معمار کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کی کارکردگیوں پر انہیں اعزازو اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ انکی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے جو لائق ستائش ہے۔ اسی کے پیش نظر گزشتہ دنوں دہلی اردو اکادمی نے بھی اساتذہ کا مشاعرہ منعقد کیا تھا، جس میں یونیورسٹی سطح کے علاوہ اسکولی اساتذہ بھی مدعو تھے۔ ادھر یوم اساتذہ کی ایک تقریب میں بہار کے وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار نے بھی ٹیچروں کے مشاہرہ میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بہار میں رواں ماہ ٢٢ ستمبر کو ٢٧٠٠٠ اسپیشل اردو و بنگلہ ٹیچرز کے لیے مقابلہ جاتی امتحان منعقد کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ نائب صدر جمہوریہ نے بھی ملک بھر سے منتخب کردہ اساتذہ کرام کو انکی بہترین کارکردگی پر انعام سے نوازا تھا، جو اک خوش آ ئند خبر ہے۔ سچ ہے اساتذہ کرام کی اہمیت والدین کے بعد اک سرپرست کی ہے۔ اساتذہ قوم کا مستقبل بناتے ہیں اور ایک بہتر سماج کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا انہیں بدلے میں کیا ملتا ہے؟
ایک سروے کے مطابق پورے بھارت میں اسکولی اساتذہ کی حالت کالج و یونیورسٹی سطحی اساتذہ کے مقابلے بد تر ہیں ۔ اس وقت خاص کر بہار میں اردو اساتذہ کرام جن کی بحالی غیر مستقل ہے انہیں مشاہرہ بھی کم ملتاہے اور وہ بھی انہیں وقت پر نہیں مل پاتا ہے ۔ دوسرے ذرائع کے مطابق پورے بھارت میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح تک لاکھوں اسامیان خالی پڑی ہیں جسے پر کرنا محکمہ تعلیم کا فرض ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی ۔ لہٰذا میں آپ کی توسط سے محکمہ تعلیم سے یہی مطالبہ کروں گا کہ وہ بحال شد ہ اساتذہ کرام کی بدحالی پر رحم کریں و نئے اساتذہ کی بحالی کو بھی یقینی بنائیں۔
جاوید اختر
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ۔١١٠٠٢٥
فون ٩٣١٣٠٠٧١٣١
ای میل jawed.ma@gmail.com: