محمد طاہر جمیل کراچی میں پیدا ہوے انکے آ بأ و اجداد کا تعلق سندھ پاکستان کے مشہور تاریخی ، علمی و ادبی شہرٹھٹھہ سے ہے۔ طاہرکے والد صاحب نے کراچی کے مشہور تعلیمی ادارہ سندھ مدرستہ الاسلام کراچی سے میٹرک کیا اور ایس ایم کالیج سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں وکالت کی۔ طاہر نے بھی اپنی تعلیم کے سارے مراحل کراچی میں پوری کٔیے۔ دہلی کالیج سے انٹرمیڈیت کرنے کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینٔرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز کراچی میں نیسپاک سے کرنے کے بعد تلاش معاش نے سعودی عرب پہنچایا، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، ینبع ، رابغ، ریاض اور الجوف میں رہے۔ اب ٢٠٠٥ سے دوحہ میں قطر جنرل الیکٹریسٹی اینڈ واٹر کارپوریشن (کہرمائ) ٔ میںبطور پروجیکٹ انجینٔر اور ایچ ایس ای کوآرڈینیٹر کے کام کر رہے ہیں۔ ادبی ذوق انٹرمیڈ یٹ کے زمانے میں ناصر کاظمی کے مجموعہ کلام’ دیوان’ کے مطالعہ سے ہوا۔ اور یہ ذوق بڑھتا ہی گیا۔
ہم نے ان سے سیا ست ویکلی کے لٔیے ایک مکالمہ کیا ہے جو نذر قار ئین ہے۔
١۔ ابتدائی زندگی نیز تعلیمی مراحل کے بارے میں بتائیں ؟
۔ بچپن میں ہی ماں باپ نے کہ دیا تھا کہ بیٹا انجینر بننا ہے۔ پڑھا ئی پہ توجہ دی، کلا س میں اچھے بچوں میں شمار ہوتا تھا۔ فٹبال کھیلنے کا شوق پورا کیا۔ والدین کی خواہش پر پری انجینئر نگ گروپ لیا۔سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری فرسٹ کلا س میں پا س کرنے کے بعد این ای ڈی انجینئر نگ یونیورسٹی کراچی میں داخلہ لیا۔
٢۔ ملازمتیں کہاں کہاں کیں ؟
۔ انجینئر نگ یونیورسٹی سے سول انجینئر نگ میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی بڑی کنسلٹنگ کمپنی نیسپاک سے اپنے کیرئیر کا آ غاز کیا دو سال کے بعد فکر معاش سعودی عرب لے آیا جہاں الجزیرہ انجینئر نگ کنسلٹنگ کمپنی کی طرف سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف، ینبع اور رابغ میں الیکٹریسٹی پروجیکٹس پر کام کیا۔ میرے لیئے یہ فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی الیکٹریسٹی کے توسیع کے منصوبہ پر کام کیا ہے۔
٣ ۔ادبی ذوق کیسے پروان چڑھا ؟
زمانہ طالبعلمی میں ہی لکھنے لکھانے کے ساتھ شاعری اور خطاطی کا بھی شوق پروان چڑھتا رہا ، گھر میں بچوں کے رسائل اور کتابیں والد صاحب لے آ تے تھے جو ہم بہن بھائی مل کر پڑھتے تھے، لاہور سے بچوں کے رسالہ ‘ نور’ اور کراچی سے ہمدرد کے زیر اہتمام نکلنے والے
ما ہنامہ نو نہال میں نظمیں، لطیفے اور پہلیاں ارسال کرتا رہا جو شائع بھی ہوتی تھیں۔ والد صاحب کو بھی مطالعہ کا بہت شوق تھا ۔ نسیم حجازی، قرئتہ العین حیدر اور شوکت صدیقی کی معرکہ آ راء ناول خاک اور خون، شاہین، خدا کی بستی اورآگ کا دریا و غیرہ رات رات بھر پڑھ کر ختم کرتے۔ مجھے ناول پڑ ھنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا ۔ مختصر افسا نے یا پھر شاعری پڑ ھتا تھا ۔ کورس کی کتابوں سے غالب، اقبال، درد، میراور حسرت کو پڑھا اور غیر نصابی کتابوں میں ناصر کاظمی، احمد فراز اور استاد قمر جلالوی کو پڑھا ، اس دور میں رومانوی شاعری پڑ ھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ کچھ نہ کچھ تو میں لکھتا ہی رہتا تھا لیکن با قا ئدگی سے بہت بعد میں لکھنا شروع کیا اس کا ذ کر آ گے جا کر کروں گا۔
٤۔ لکھنے لکھانے کا آغاز کیسے ہوا؟۔ کون کونسی تحریریں شائع ہوئیں؟
۔جب انجینئر نگ کے فائنل ائیر کے امتحانات سے فارغ ہوا تو جو پہیلی جاب آ فر ہوئی تو اسکے پہلے باس تھے جنا ب کرنل رضوان الحق صاحب بڑی لمبی لمبی چھوڑتے تھے بہت ہی دلچسپ اور عجیب و غریب شخص تھے ۔ زندگی میں سب سے پہلے انکا خاکہ لکھا، عنوان تھا ‘ کرنل صاحب آ پ کیا چیز ہیں’ کئی صفحات رنگین کر دئیے۔ پھر جب سعودی عرب فکر معاش نے پہنچا یا تو شروع شروع کا دور بہت کٹھن گزرا گھر بہت یاد آتا تھا میرے ایک ساتھی نے ان دنوں کہا کہ طاہر ‘ اداسی کا لفظ تو کئی بار سنا تھا اس کا مطلب اب سمجھ میں آیا ہے’۔ ان دنوں میں اکثر یہ غزل گنگناتا تھا ‘ دیواروں سے با تیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے’۔ خیر ہم نے زیادہ دنوں تک اپنے اوپر یہ کیفیت طاری نہیں کی ، زندگی کو اللہ رب العزت کا تحفہ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو کام کے ساتھ دوستوں کی محفلوں میں مشاعروں کی ویڈ یوز دیکھیں تو شاعری اور لکھنے کا شوق پھرسے ابھرا ۔ جدہ سے شائع ہونے والے گلف کے پہلے ڈیلی اردو اخبار ‘ اردو نیوز’ اور ویکلی میگزین ‘ اردو میگزین’ میں لکھنا شروع کیا ۔ مختلف مو ضوعات پر نثری مضامین ، سروے رپورٹس اورخطوط کے ساتھ غزلیں ارسال کیں جو پابندی سے شائع ہوتی رہتی تھیں۔ اس سلسلہ میں میرا ادبی مراسلہ بعنوان ‘ منہ میں زبان ‘ پہلے انعام کا حقدارٹہرا۔ یہ سلسلہ قطر آنے سے پہلے ٢٠٠٥ تک چلتا رہا۔
٥۔قطر کی ادبی سرگر میوں میں کہاں کہاں شریک ہوئے۔
۔ قطر میں ادبی مجالس میں شرکت کے موقع ملتے رہے ۔ مجھے یاد ہے قطر میں پہلی بار ٢٠٠٥ میں پاکستان آرٹس سوسائٹی کے ایک پروگرام ایک شام جاوید غامدی کے ساتھ میں شریک ہوا اسکے علاوہ پاکستان یوتھ سوسائٹی کی ادبی اور ثقافتی پروگرامز اور سالانہ عالمی مشاعرہ، مجلس فروغ اردو ادب قطر کے زیر اہتمام ہر سال باقائدگی سے منعقد کیا جاتا ہے ، میں پابندی سے شریک ہوتا ہوں۔ بزم اردو قطر کے ماہانہ طرعی اور سالانہ مشاعرے ، حلقئہ ادب اسلامی قطر کا ماہانہ مشاعرہ اس کے علاوہ گزر گاء خیال فورم کے زیر اہتمام ماہانہ غالب سمپوزیم جیسی اعلی ادبی نشست جہاں غالب فہمی پر ادبی مذاکرہ ہوتا ہے میں میری شرکت ہوتی رہتی ہے ۔
٦۔ دیگر مشاغل اور مصروفیات کیا رہیں اور ہیں ؟
۔٢٠٠٦ سے ٢٠٠١٢ تک مختلف سماجی اور ثقافتی تنظیموں کا عہدیدار رہا جسمیں پاکستان انجینئرز فورم قطرکی ایگزیکیوٹنگ کمیٹی کے ممبر، مشیر اور نائب صدر کی ذمیداریاں نبائیں اسکے علاوہ نیشنل ایونٹس آرگنا ئزنگ کمیٹی قطر کا فائننس سیکریٹری اور پاکستان ویلفئر آرگینا ئزیشن قطر کی اسٹیرئنگ کمیٹی کا ممبر بھی رہا۔ نیشل ایونٹس آرگنا ئزنگ کمیٹی کو پھر سے فعال کر رہے ہیں تاکہ مختلف قومی دنوں ، تہواروں کے علاوہ ادبی اور ثقافتی پروگرامز کو بڑے پیمانے پر منایا جائے۔
٧۔قطر کی ادبی فضاء کا تقابل آپ دیگر ادبی مراکز سے کیسے کریں گے؟۔
قطر میں اردو زبان جاننے والے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے علاوہ نیپالی اور بنگلہ دیسیوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ کئی ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور اردو کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔ میں چونکہ سعودی عرب کے شہروں جدہ، ریاض اور مدینہ منورہ میں زیادہ عرصہ رہا ہوں اس لئیے وہاں کی ادبی تقریبات میں حصہ لینے کے موقع بھی ملتے رہے ہیں لیکن میں یہ بات بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ قطر کی ادبی فضاء کسی طرع بھی وہاں سے کم نہیں ۔ یہاں بھی اعلی معیار کی شاعری اور ادبی شاہکار تخلیق ہوتے ہیں۔
٨۔’ سیاست’ ویکلی دوحہ کے اجراء کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
۔اردو زبان کے فروغ میں اب ‘ سیاست ویکلی دوحہ ‘ بھرپور حصہ لے رہا ہے۔ قطر کے اردو داں طبقہ میں اس کے اجراء کو نہ صرف قدر
کی نگاء سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسے اردو کی ترویج و ترقی میں معاون و مددگار سمجھا جارہا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ سیاست ویکلی دوحہ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے ‘آمین’۔ ہم اپنی کاوشیں اسی طرح سیاست ویکلی دوحہ کو بھیجتے رہیں تاکہ اردو داں اس سے مستفیض ہوتے رہیں ۔
٩۔ مستقبل کے ادبی منصوبے کیا ہیں؟
۔انشاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ اب لکھنے لکھانے پر زیادہ وقت صرف کروں گا تاکہ میرا وقت قیمتی کام میں استعمال ہو کرقیمتی ہوجائے۔ گزشتہ چند سالوں میں اور تنظیموں کی مصروفیات کی وجہ سے ادبی مجالسوں میں اتنا فعال نہ رہا لیکن اب ذمے داریاں کم ہونے سے ادبی تقریبات میں با قا ئدگی سے شرکت کی کوشش کرتا ہوںاس کے ساتھ شاعری کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اپنی یاداشتوں کو مجتمع کرکے مضامین بھی لکھ رہا ہوں ۔
َِْ
ْْ