نالہ شب گیر:عظیم فن کار کی عظیم پیش کش

عمران عاکف خان
لیجیے دیکھتے ہی دیکھتے مشرف عالم ذوقی کاایک اورشاہ کار ،ایک او رپیش کش اور ایک اور ناول منظر عام پر آگیا حالانکہ ابھی سابقہ ناولوں کا خمار سر وں میں سمایاہوا ہے اور ان کا حصارذہنوں کے ارد گرد باقی ہے۔نالہ شب گیر__بالکل انوکھے انداز ،نادر خیال ،انجان موضوع او راجنبی تعبیرات و تلمیحات پر مبنی۔گو اسے انجان اور اجنبی نہ کہا جائے اس لیے کہ عورتوں سے متعلق منٹو،عصمت چغتائی ،خدیجہ مستور،رشیدجہاں ،واجدہ تبسم، ممتاز شیریں، کشور ناہید(بری عورت کی آتم کتھا)، تسلیمہ نسرین (میں تسلیمہ کی حمایت نہیں کرسکتا مگر تسلیمہ نے سب سے زیادہ عورتوں پر ہی لکھا ہے)، تہمینہ درّانی،رضیہ سجاد ظہیر،صالحہ عابد حسین،جیلانی بانووغیرہم نے خوب لکھا اور اپنے ناولوں میں عورتوں کے درد و کرب ،ان کی کمزوری،مرد سماج کے خلاف بغاوت اور اس کی طاقت کو بیا ن کیا ہے اور تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔مگرپھر بھی عورت کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ‘نہیں !ابھی بات نہیں بنی، ابھی اس کے درد کا بیان اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے تھا__’ اس کے لیے ایک مردکی ضرورت ناگزیر ہو ئی ___ایسے مرد کی جو گلوبلائزیشن کے دور میںاس کی آواز کو ہمدوش ثریاکر دے اور اس کا ”نالہ”آسمانوں تک پہنچادے۔ چنانچہ مشرف عالم ذوقی نے عورتوں کی دیرینہ تمنائوں کو پورا کر نے کے لیے گلوبلائزیشن کے عہد میں عورت کو کردار اور اس کی عالمی مقبولیت ،مردوں سے ہر میدان میں بازی لے جانے اور ان کے مقابلے میں ایک چٹان کی حیثیت سے کھڑا کر دیا۔عورت کس طرح صدہا برس کی بے بسی اور سماج و معاشرے کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اپنا چہرہ نمایاں کر نے میں کامیاب ہوئی۔کس طرح ہمارے عہد کی کوئی صفیہ،کوئی ناہید ناز صدیوں سے بلکہ اسٹون ایج سے صدمے اٹھاتی آرہی ہیں اور ا ن کے کلیجے ناپسندیدہ باتیں ،طعنے اور کوسنے سن کر چھلنی ہیں ….اس کے بعد وہ ان تمام خلیجوں ،رکاوٹوںاور بندھنوں کو توڑ کر جو سماج نے اس کی راہ میں حائل کی ہیں ،پھلانگ کر اور وقت کو اس کے ہی گھن چکر میں الجھا کرمیدان میں آگئیں اور لوہابن کر لوہے کا مقابلہ کر نے لگیں___نالہ شب گیر اس کا بیان ہے۔
جب کبھی مرد اور عورت کو جاننے اور اس کی حقیقت سمجھنے کی طرف ذہن جاتا ہے تو دو سوال سامنے آتے ہیں عورت کیا ہے؟ مرد کیا ہے؟ ان سوالوں کی وجہ شاید یہ ہے کہ چونکہ عورت قرنہا قرن اور برسہا برس سے مرد کے مظالم، زیادتیوں اور مردانہ سماج کی نابرابریوں کی شکار ہوتی رہی ہے اور مرد نے ہمیشہ اس کے اوپر اپنی حاکمیت کے علم بلند کیے ہیں۔
سیمون دا بوا نے (دی سکنڈ سیکس) کی تحقیق کرتے ہوئے خود سے پوچھا تھا کہ عورت کیا ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو ہے کہ مرد کیا ہے۔ اس لیے کہ جب عورت یہ سوچتی ہے کہ عورت کیا ہے تو یہ محض سوال نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا ظلم بھی ہوتا ہے اور ظاہر ہے اس کے پیچھے ایک مرد ہوتا ہے اور شاید اسی لیے سیمون کو یہ سوال کرنا پڑا۔
”FOR a long time I have hesitated to write a book on woman. The subject is irritating, especially to women; and it is not new. Enough ink has been spilled in quarrelling over feminism, and perhaps we should say no more about it. It is still talked about, however, for the voluminous nonsense uttered during the last century seems to have done little to illuminate the problem. After all, is there a problem? And if so, what is it? Are there women, really? Most assuredly the theory of the eternal feminine still has its adherents who will whisper in your ear: ‘Even in Russia women still are women’; and other erudite persons – sometimes the very same – say with a sigh: ‘Woman is losing her way, woman is lost.’ One wonders if women still exist, if they will always exist, whether or not it is desirable that they should, what place they occupy in this world, what their place should be. ‘What has become of women?’ was asked recently in an ephemeral magazine.”
The Second Sex (Simone de Beauvoir)
١٩٤٩ میں سیمون عورت کے وجود کو تلاش کرتی ہوئی نئے سوالوں میں گم تھیں۔ غور کریں تو ١٩٤٩ سے آج تک ٦٦۔٦٥ برسوں میں ایک مکمل دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔ سیمون کو ممکن ہے عورت اتنی کمزور لگتی ہو کہ انہیں یہ کہنا پڑا، عورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ بنائی جاتی ہے۔ مگر ٦٧ برسوں کے بعد بدلی ہوئی دنیا میں اردو کا ایک فنکار عورت کو اس کمزور اور بے بس دنیا سے باہر نکال کر ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہاں جان بوجھ کر میں مکمل کہانی کو سامنے نہیں رکھ رہا تھا۔ اس لیے کہ یہ ناول نہ صرف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ناول کے اندر پوشیدہ اسرار ورموز کو سمجھنے کے لیے اسے بار بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ عورت کیا ہے اور مرد کیا ہے، ان سوالوں پر غور کرتے ہوئے آج کے، اکیسویں صدی کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اسی ناول سے یہ دو اقتباس دیکھیے۔
”کمال نے غور سے میری طرف دیکھا— y2k کے بارہ برس بعد… یعنی ہندوستانی تاریخ میں وہ سال جب عصمت دری کے واقعہ کو لے کر ایک انقلاب برپا ہوا تھا اور دوسری طرف میڈیا یہ دیکھنے میں مصروف تھا کہ کیا سچ مچ قیامت آئے گی اور دنیا ختم ہوجائے گی… اور ناہید کے لفظوں میں صرف عورتیں زندہ رہیں گی۔ مرد مارے جائیں گے…’ کمال نے مسکرانے کی کوشش کی… قیامت نہیں آئی مگر آپ دیکھیں تو y2k کے بارہ برسوں، یعنی دلی، انڈیا گیٹ میں انقلاب کی نئی دستک تک، اگر کوئی بڑی تبدیلی آئی تھی تو وہ صرف عورتوں میں آئی تھی… اور مجھے اپنے دوست نرمل کی بات یاد آرہی تھی… یعنی اگر بدلی تھی تو عورت۔ باغی ہوئی تھی تو عورت…دوسری طرف اس کے ردعمل بھی تھے۔ یعنی سہمی ہوئی تھی تو عورت۔’
‘سہمی ہوئی…’اس بار میں نے چونک کر کمال کی طرف دیکھا… چلو… کچھ دیر اس موضوع پر ٹھیرتے ہیں… ‘قدیم مایا تہذیب کے لوگوں کو علم وفنون پر بھروسہ تھا۔ وہ ستاروں پر نظر رکھتے تھے اورمستقبل کا حال کہہ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تہذیب کے خاتمہ کے بارے میں بھی پیشین گوئی کی تھی کہ سمندر کی طرف سے حملہ ہوگا اوران کی تہذیب سمندر کی نذر ہوجائے گی… اور جیسا جیسا انہوں نے کہا، غور کریں تو ہر دور میں وہی ہوتا گیا… ڈائنا سورس آئے اور پہلے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ طوفانی ہوائیں چلیں، طوفان اٹھے اوردوسرا دور بھی ختم ہوگیا۔ تیسرا دور شعلوں کی نذر ہوا… چوتھا سیلاب اور پانچواں دور…’
کمال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی… y2k کے ان چودہ برسوں میں یہ دنیا آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اس بار ان کے پیچھے نہ گرم ہوائیں ہیں، نہ طوفان، نہ شعلے، نہ آندھی… اس بار ان کے پیچھے بلّی ہے۔ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی… چوہوں کو کھانے کے بعد وہ آرام سے اپنی راہ چل دی۔ یا غائب ہوگئی۔’ وہ آہستہ سے بولا… میں اب اس تصویر کا مفہوم سمجھ چکا ہوں۔
‘تو تم مانتے ہو کہ…’
‘ہاں۔ y2kکے بعد کی یہ دنیا عورتوں سے منسوب ہے۔ اورہم صرف مہرے۔ اور اسی لیے اپنی نئی زندگی کا تعاقب کرتا ہوں تو ایک بڑی لکیر…’ وہ مسکرارہا تھا— یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ اس سے چیزوں کے سمجھنے کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔ مگر اسی واقعہ کی کڑی ناہید کا وہ بیان بھی تھا۔ یعنی جو بیان اس نے مایا کلینڈر کو لے کر دیا تھا… کچھ عورتیں فاتح ہوں گی اور کچھ… جن میں مردوں کی کچھ خصوصیات باقی رہ جائیں گی… وہ سہمی ہوئی ہوںگی۔”
نالہ شب گیرکیا ہے___؟ان جواں ہمت اور عالی حوصلہ عورتو ںکی کہانی جو ثریا اور مریخ کی باشندہ نہیں بلکہ ہماری ہی زمین اور ہمارے ہی عہد کی جیتی جاگتی ہستیاں ہیںجو بقول نعمان شوق اس ناول میں خودچل کر آئی ہیں۔وہ سب ایسی عورتیں جنھوں نے اپنے اپنے مقامات کی عظمت و شان میں اپنی جدو جہد سے چار چاند لگائے ہیں ۔یہ ہر اس عورت کی داستان ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں ظلم تشدد،جنسی زیادتی اور مرد وں کی جھوٹی انا کی خاطر قربان ہوتے ہوتے تنگ آچکی ہے۔ یہ عورتیں اب اپنے گندے ماضی سے لڑنے کے لیے برسر پیکار ہیں ۔شاہ بانو،عمرانہ ،ساوتری ،دامنی ،اور ہزاروں گمنام ہر دن مر دکی ہوس کی شکار ہونے والی عورتیں نالہ شب گیرکا حصہ ہیں اور اس کے صفحات نے ان کی ہم نوائی کی ہے۔
ایک سچی بات یہ ہے کہ قرنہا قرن سے عورتوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ غیر مناسب رہا ہے او رمردووں نے اس کے جواز میں یہ بات کہی کہ عورت کمزور پیدا کی گئی ہے لہٰذا اسے طاقتوربننے اور ابھرنے کا کوئی حق و اختیار نہیں ہے۔نہ وہ حاکم بن سکتی ہے او رنہ ہی حکم دینے یا اپنے اوپر عائد کر دہ پابندی،حکم اور فرمان کے خلاف احتجاج کر نے کی مجاز ہے۔حالانکہ عورت کی کمزوری کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سماج میں اس کی حیثیت مفلوج پہلو کی سی مان لی جائے ۔کیا عورت کو طاقتور ثابت کر نے کے لیے یہ حقیقت کافی نہیں ہے کہ عورت وہ ہے جس کے بطن سے آسمان و زمین کو تعمیر کر نے انسانوں نے جنم لیا۔نبیوں،ولیوں ،رشیوں اور منیوں کو عورتوںنے پیدا کیا ہے۔آسمان و زمین کے رازداران ،اونچے اونچے پہاڑوں کو کاٹنے والے،آسمان سے باتیں کر تیں چوٹیوں کو سر کر نے والے اور اتھا ہ سمندروںکا سینہ چیر نے والے بھی عورتوں نے دیے۔
عورتوں کی ان عظم الشان خدمات اورمسلسل کوششوں کو دیکھ کر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عورت کمزور ہے اور سماج کا مفلوج پہلو ہے اورتاحال وہ مردوں کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتی ۔ایسی سوچ نہ صرف متعلقہ ادیان و مذاہب اور مشنوں کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مذہب انسانیت کے بھی سخت خلاف ہے۔
ہم مان سکتے ہیں کہ عورت کمزور ہے مگر ان معنوں میں کہ اس کے دل میں رحم،ممتا،شفقت،اپنوں کے تئیںمحبت اور آخرتک الفت ہوتی ہے جب کہ مرد ان صفات سے عاری ہوتا ہے یا ان میں خلوص نہیں ہوتا بلکہ سیاست ہوتی ہے۔جب کہ عورت خلوص اور بے لوثی سے ان فرائض کو انجام دیتی ہے۔یہ ہے عورتوں کی کمزوری ۔یہ ہے عورتوں کا مردوں کے مقابلے میں کمزور پہلو۔مگر مردو ں نے عورتوں کا راستہ ہی کاٹ دیا ۔اس سلسلے میں مغرب نے تو انتہا ہی کر دی اور اسے حیوان سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔اس کے بعد جب پاپو کا گھڑا بھرا اور اسلام عرب کے ریگستانوں میں نمودار ہوا تو عورت کو نہ صرف زندگی ملی بلکہ اس کے وجود کو معراج بھی حاصل ہو ئی ۔
یوں تو مشرف عالم ذوقی نے اپنے تمام افسانوں اور ناولوں میں اس درد کو کہیں اجمالا اور کہیں تفصیلاً بیان کیاہے مگر اس کو کیا کہیے کہ انھوں نے ایک مکمل اور کامیاب ناول ہی عورتوں کے نام وقف کر دیااور پھر اس کو خاطرخواہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔اس کا انداز ہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں اس کی پذیرائی ہو ئی ۔اس ناول کو آنکھوں اور دلوں سے لگانے والوں کا سلسلہ نئی دہلی،کلکتہ، پاکستان، لندن،جرمنی ،کناڈا،کوپن ہیگن ،ڈنمار ک اورخلیجی ممالک تک کے محسنین اردو شامل ہیں ۔
ذوقی کی اس نئی پیش کش کو سلام کر تے ہوئے نئی دہلی سے نعمان شوق کہتے ہیں:
”ذوقی کا ناول پڑھا___میں یہ اعتراف کر تا ہوں کہ دنیا کے اچھے فکشن کا بہت کم حصہ میں نے پڑھا ہے۔میراماننا ہے کہ عورت کے لیے آج کا فکشن نامحرم کی حیثیت رکھتا ہے۔منٹو اور عصمت جیسی چند مثالوں کو نظر انداز کر دیں تو ہر جگہ عورت لائی گئی ہے ___لیکن نالہ شب گیر میں عورت خودچل کر آئی ہے۔”
ٰگویا عورت آج بھی اس بات کی خواہش مند ہے کہ اس پر مزیدسے مزید لکھا جائے اورناولوں و افسانوں میں اب مجھے خود آکر اپنی آب و تاب دکھانی ہے۔پھر اس کی آرزو پوری ہوئی اور ذوقی کے قلم نے گمنام و اندھیروں میں رہنے ولی عورت کو تابناکی بخش دی۔اس طرح انھوں نے اپنے پس روئوں کو بھی راستہ دکھا دیا کہ عورت بھی ناولوں اور افسانوں کا دل چسپ موضوع بن سکتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنے تمام سابقہ ناولوں افسانوں اور بالخصوص نالہ شب گیرکے ذریعے یہ بات ذہنوں میں بٹھادی کہ حالات و واقعات،حادثات اور وقت کی نبضوں پر ان کی گر فت مضبوط ہے۔وہ صرف ہمارے عہد کے ایسے شناور ہیں جن پر ہمارے عہد اور اردو دنیا کو فخرو ناز ہے۔ان کا اسلوب نگارش اس قدر آسان اور سہل ہے کہ قاری ان کے ناولوں میں طوالت و اختصار کی پر وا کیے بناکھوجاتا ہے ۔اس کی نگاہیں اسی وقت ہٹتی ہیں جب وہ ختم ہوجاتے ہیں۔پھر ایک امنگ،ترنگ،نیا احساس زندگی اور حیرت انگیز انکشافات کے بعد آگاہی اوراس کے انگ انگ اور رگ رگ میں بھر جاتی ہے۔
نالہ شب گیرکو بعض نقادوں نے اکیسویں صدی کا نمائندہ ناول قرار دیتے ہوئے اسے سند کامیابی عطا کی ہے ۔چنانچہ نئی دہلی سے انوارالحق لکھتے ہیں:
”نالہ شب گیراکیسویں صدی کا نمائندہ ناول ہے___جو شائع ہونے سے پہلے ہی سرخیوں میں ہے اور قارئین اپنی بے بہااور قیمتی آرا سے نواز رہے ہیں ۔کسی ناول کی کامیابی کی دلیل یہی ہے کہ اس ناول پر بالاستیعاب مکالمہ اور مذاکرہ ہو____نالہ شب گیر ایسا ہی ناول ہے جس پر مکالموں کا سلسلہ شروع ہو گیاہے۔”
ذوقی کے ناولوں اورافسانوں کی زندگی اور مقبولیت راز یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے مالہ و ماعلیہ کا تجزیہ کسی ماہر نفسیات کی طرح کر تے ہیں ۔اس کے ایک ایک جز،ایک کُل ،ایک ایک نکتے پر اس طرح بحث کر تے ہیں کہ بقول نایاب (پاکستان)یہ سوال سامنے آکھڑا ہوتا ہے کہ”کیا اب بھی کچھ اور باقی رہ گیا؟”اور جواب یقینا”نا”میں ہوتا ہے۔بلکہ قاری اس سے بھی آگے بڑھ کر ”ہرگز نہیں ”کہہ اٹھتا ہے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو ایک کامیاب فن کار اور شاہ کار وہی ہوسکتا ہے جو اپنے موضوع سے پوراپورا انصاف کر ے اور قارئین کی آسودگی کے ساتھ ساتھ بگڑے حالات کے زخموں پر مرہم پٹی کر کے انھیں زندگی عطا کر دے___اور مشرف عالم ذوقی کے یہاں اس چیز کا آخری حدتک اہتمام ہے۔

imranakifkhan@gmail.com
+91-9911657591
85,Deeg Gate, Gulpada
Bhratpur, Rajasthan

اپنا تبصرہ لکھیں