میں تو یہی سمجھا کہ قیامت آ گئی۔ دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگا۔ ہم دونوں ساتھیوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔خیر اللہ اللہ کر کے یہ سلسلہ
پندرہ منٹ بعد ٹوٹا اور پھر دھیرے دھیرے اختتام پذیر ہوا۔ میرا خیال تھا کہ آج بنکاک میں یقینا تباہی آئی ہو گی خوش قسمتی سے ہم دونوں بچ گئے۔
اب سب لڑکے ہمت کر کے باہر نکلے۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ باہر معمول کا ہنگامہ جاری تھا۔ اگلے دن جب تھائی ساتھیوں سے رات والے واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے بتایا ہمارے لیے یہ کوئی خاص بات نہیں۔ اس طرح کی گرج چمک اور تیز بارش کا سامنا تو ہم اکثر کرتے ہیں اور اس کے عادی ہو چکے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہمارے لیے وہ شب قیامت صغری سے کم نہ تھی۔
پاک بھارت جنگ
جنگ میں کراچی دشمن کے خاص نشانے پر تھا۔ وہاں پاک بحریہ کا ہیڈکوارٹر واقع تھا تیل کے ذخائر بھی تھے۔ دوران جنگ آئے بھارتی طیارے کراچی پر حملہ کرتے۔ بحریہ والے اِک اِک گن چلاتے تاکہ انھیں بھگا سکیں۔ اسی وقت سائرن بجتے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا۔ کوئنس روڈ پر واقع ہمارا گھر کیماڑی کی بندرگاہ سے قریب تھا۔ اس لیے ہم لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر خالہ کے پاس نارتھ ناظم آباد منتقل ہو گئے۔
تین چار روز جب سائرن نہیں بجا اور خاموشی رہی تو ایک روز ہم لوگوں نے سوچا کہ چل کر گھر کی خبر لیں اور بچوں کے اوراپنے کپڑے وغیرہ لے آئیں۔ ہمیں شام کو واپس آنا تھا۔ شام پڑی تو سوچا کہ چلو آج رات گھر پر ہی گزار لیتے ہیں۔ اسی رات ہماری شامت آ گئی۔ رات ایک بجے کے قریب خطرے کا سائرن بجنے لگا۔ ہم لوگوں نے الماری کے درمیانے راستہ میں حفاظت گاہ بنا رکھی تھی۔ اس میں تینوں بچوں کو لیے بیٹھ گئے۔
کچھ دیر میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بم گرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ بم قریب ہی ڈیفنس سلطان آباد حبیب پبلک اسکول حاجی کیمپ اور آئل ٹرمینل پر گرائے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گھر بری طرح ہل رہا ہے۔ دروازے کھڑکیاں جن کے شیشوں پر کالے کاغذ لگے تھے خوفناک آواز میں بج رہے تھے۔ چند کھڑکیاں زمینی جھٹکوں سے کھل گئیں۔ ہم نے دیکھاکہ بھارتی جہاز بہت کم اونچائی پر اڑتے جا رہے ہیں۔ ایک جہاز نے فاسفورس بم پھینکا تو چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔اس نے اطمینان سے آئل ٹرمینل پر بم گرایا اور واپس لوٹ گیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جہازہماری اِک اِک گنوں کی حد سے نیچی پرواز کر رہے تھے اس لیے نشانے پر نہ آ سکے۔ جب تک بمباری جاری رہی ہم لوگ بچوں کو سینوں سے لگائے خوفزدہ بیٹھے رہے۔ ان کے کانوں میں ہم نے پہلے ہی روئی ٹھونس دی تھی۔ مجھے یہی خدشہ ستاتا رہا کہ ہمارا آخری وقت آ پہنچا۔ جس طرح سے یہ گھر ہل رہا ہے ہم کسی بھی لمحے اس کے ملبے تلے دب کا جام شہادت نوش کر جائیں گے۔ آخر خطرہ ختم ہونے کا سائرن بجا۔ میں نے پناہ گاہ سے نکل کر بتی جلائی۔ یہ دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہر چیز صحیح سالم تھی۔ البتہ قریب سے چیخ پکار اور ایمبولینس و فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی مستقل آوازیں آ رہی تھیں۔
سلطان آباد حبیب پبلک اسکول کے علاوہ ہمارے گھر سے قریبا ایک فرلانگ دور بم گرا تھا۔ اس نے پھٹتے ہی زمین میں کنوئیں جیسا بڑا گڑھا بنا دیا۔ یہ ایک کچی آبادی پر گرا تھا اس لیے بہت لوگ شہید ہوئے۔ پھر خالہ کا فون آیا وہ بہت ناراض تھیں۔بولیں تم لوگوں کو وہاں رات رکنے کی کیاضرورت تھی؟ دن کا اجالا پھیلتے ہی ہم نے فورا گاڑی نکالی اور خالہ کے پاس چلے گئے۔ پھر جب تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہو گیا ہم نے کوئنس روڈ کا رخ نہیں کیا۔
مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کو شکست ہوئی۔ جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے پلٹن میدان میں اپنی بیلٹ اتار کر میز پر رکھی اپنا پستول اس کے ہاتھوں میں دیا پھر پچانوے ہزار قیدی بھارتی فوج کے حوالے کر دیے۔
یوں مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ شکست میں ہمارے فوجی حکمرانوں کا بڑا ہاتھ تھا کچھ سیاسی طالع آزمائوں نے ملک کے دو ٹکڑے ہونے میں اپنی کامیابی سمجھی اور اقتدار پا لیا۔ انہی دنوں بھارت کی وزیراعظم نے کہاآج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا اور ہم نے اپنے پرکھوں کا ہزار سال پرانا بدلہ لے لیا۔ اس وقت تمام مغربی پاکستانی انتہائی صدمے سے دوچار تھے۔ خود مجھ سے اس دن کھانا نہیں کھایا گیا۔ کچھ دن طبیعت بہت بے چین اور پریشان رہی۔ پھر دھیرے دھیرے وقت نے دل پر صبر کا مرہم رکھ دیا۔
اس ڈرامے کے تین بڑے کرداروں کی جس طرح موت واقع ہوئی وہ قدرت کا ایسا بھیانک انتقام ہے جس سے زندہ رہنے والوں کو سبق لینا چاہیے۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی اور اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی غیرفطری موت سے ہمکنار ہوئے۔ مجیب الرحمن اپنے پورے خاندان سمیت اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اس کی صرف دو بیٹیاں زندہ بچ سکیں جو ملک سے باہر تھیں۔اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں ماری گئی۔ جبکہ اس کے بھی دو بیٹے غیرفطری طبعی موت کا شکار ہوئے۔
یہ سب کچھ ہوا لیکن ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا حال اب پہلے سے بھی زیادہ برا ہے۔ ہم من حیث القوم ہر قدم پستی کی طرف بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(مولانا ظفر علی خاں)
بھوت کارندے (Ghost Workers)
میں بلدیہ کراچی کے محکمہ انجینئرنگ میں گریڈ سے گریڈ میں ترقی کا معاملہ بورڈ میں پیش ہوا۔ بورڈ کی صدارت ایم اے مجید ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کر رہے تھے۔ پانچ آدمی انٹرویو کے لیے بلائے گئے۔ دو اپنی سینیارٹی کی وجہ سے چن لیے گئے۔ باقی تین میں مجھے اعلی تعلیم یافتہ اور ایک صاحب سے سینئر ہونے کے باوجود سب سے آخر یعنی پانچویں نمبر پررکھا گیا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ مجھے عملی کام (Construction)کا تجربہ نہیں۔
اس بات کو ایڈمنسٹریٹر نے نوٹ کیا کہ یوں تو ہمیشہ ڈیزائن آفس میں کام کرنے کے باعث میرے ساتھ زیادتی ہوتی رہے گی۔ لہذا انھوں نے ازخود میرا تبادلہ ایگزیکٹو انجینئر ڈویژن نمبر کی حیثیت سے کر دیا۔ تب اسی ڈویژن میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوتے تھے۔ یہ ڈویژن جنوب میں لائنزایریا شمال میں گلشن اقبال مشرق میں محمود آباد اور مغرب میں لیاری ندی تک کے درمیان میں آنے والے تمام علاقوں پر مشتمل تھا۔
جب میں نے اپنے ڈویژن کی کارکردگی پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ چھوٹے چھوٹے کام میرے کہنے کے باوجود وقت پر نہیں ہوتے۔ مزید تحقیقات کی تو پتا چلا کہ عملہ ناکافی ہے۔ دوسرے مرمت کا سامان رقم خرچ ہونے کے باوجود اسٹور میں وقت پر موجود نہیں ہوتا۔ یہ جان کر میں چوکنا ہو گیا۔ سب سے پہلے میں نے کارکنوں (جمعدار مالی وغیرہ) کی حاضری چیک کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک دن بغیر بتائے حاضری کے وقت آٹھ بجے اسٹور پہنچ گیا جہاں ان کی حاضری لگتی تھی۔
وہاں سب انجینئر جنھیں حاضری لینی تھی خود موجود نہیں تھے۔ رجسٹر ان کی دراز میں بند تھا۔ وہ ساڑھے آٹھ بجے تشریف لائے۔ میرے اچانک آنے اور حاضری رجسٹر مانگنے پر سٹپٹائے۔ بہرحال رجسٹر دیا۔ جسے کھولتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس روز مہینے کی دس تاریخ تھی لیکن حاضری ایک دن کی بھی نہیں لگی تھی۔ پتا چلا کہ سب انجینئر مہینے کی آخری تاریخ پراپنی مرضی سے سب کی حاضری لگاتے اور اس کا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
میں نے پونے نو بجے اپنے سامنے حاضری لگوائی تو پتا چلا کہ ملازمین میں سے جن میں سپروائزری عملہ ( عدد) بھی شامل تھا صرف چالیس کارکن موجود ہیں۔ بقایا پچاس کارکن غیرحاضرتھے۔ سب انجینئر نے مختلف توجیہات پیش کیں اور کہا کہ ان میں سے بیشترافسروں کے گھر کام کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ سب کو بلا لیں میں اگلے ہفتہ پھر حاضری چیک کروں گا۔ تاریخ کا تعین یوں نہیں کیا کہ وہ جعلی کارکنوں سے تعداد پوری نہ کر دیں۔ میرا یہ اعلان موصوف نے فورا ورکر یونین تک پہنچا دیا جو اِن دنوں خاصی فعال تھی۔
یونین کے لیڈر میرے پاس آئے اور مجھے سمجھانے لگے کہ میں ایگزیکٹو انجینئر ہوں میرے ماتحت اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر اسسٹنٹ انجینئر صاحبان آتے ہیں اور پھر ان کے ماتحت سب انجینئر صاحبان ہیں۔ یہ میرے فرائض منصبی کے خلاف ہے کہ اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے میں سب سے کم گریڈ (کارکنوں کا گریڈ ایک تھا) والوں کی حاضری چیک کروں۔
میں نے ان سے کہا کہ مجھے کہاں روز روز اتنی فرصت ہے کہ صبح صبح کارکنوں کی حاضریاں چیک کرتا پھروں۔ لیکن مجھے اپنے علاقے میں فوری کام چاہیے۔ میرے پاس شکایت آئی کہ کارکن کم ہیں۔ میں مزید پچاس نئے کارکنان کی حکام بالا سے منظوری لے لوں تو میرے احکام کی فوری تعمیل ہو سکے گی۔ میرے علم میں ہے کہ ہمارے پاس چار ٹرک ہیں۔ ان پر اگر بیس مزدور فی ٹرک بھیجے جائیں تو مزدور کافی ہوں گے۔ جبکہ مجھے مزدورکہیں کام کرتے کسی سڑک پہ نظر آئے تو ان کی تعداد آٹھ دس سے زیادہ نہیں تھی۔ اب میں مزید بغیر بتائے حاضری چیک کروں گا۔ سب انجینئر رجسٹر پر جتنے کارکن ہیں ان کی تعداد پوری دکھائیں اور انھیں صحیح طرح کام پر لگا دیں تاکہ سڑکوں کے ٹوٹے حصے کم وقت میں درست ہو جائیں۔ تب مجھے حاضری لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
جب میں نے بغیر اطلاع کے دو دفعہ حاضری لی تو کارکنوں کی تعداد سے بڑھ کر ہو گئی۔ ان میں کارکن وہ بھی شامل تھے جو افسروں کے گھر کام کر رہے تھے۔ تیس کارکن سرے سے غائب پائے گئے۔ ان میں سے چند وفات پا چکے تھے۔ چند نوکری چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بقایا جعلی کارکنبھوت کارندے (Ghost Workers)تھے۔ مزے کی بات یہ سبھی سالہاسال سے اوورٹائم بھی لے رہے تھے۔
میں نے اس اسکینڈل کی جامع رپورٹ بنا کر حکام بالا کو بھجوا دی۔ سب انجینئر کو توفورا معطل کروا دیا۔ حکام بالا نے معاملہ اینٹی کرپشن والوں کو دے دیا۔ یہ خبر عام بھی نہیں ہوئی تھی کہ سب سے پہلے ڈان اخبار نے تفصیلی خبر شائع کی۔ بھوت کارندے (Ghost Workers) کے عنوان سے ایڈیٹوریل لکھا اور دوسرے محکموں میں بھی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا۔
لیکن اس ساری محنت اور دوڑ دھوپ کا صلہ مجھے کیا ملا؟ یہ کیس اینٹی کرپشن کورٹ میں چلا گیا جہاں مجھے ہر پیشی بھگتنا پڑتی۔ بلدیہ کے وکیل مجھے کورٹ میں بٹھا کر دوسرے مقدمات بھگتانے چلے جاتے۔ سب انجینئر نے کرمنل کیسز کرنے والے مشہور وکیل مظفرحسین شاہ کو اپنا وکیل مقرر کر لیا جو بعد میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ وہ کورٹ میں پیش ہو کر لمبی تاریخ لے لیا کرتے۔ پھر اس نے اتنی لمبی تاریخ لی کہ کچھ پتا ہی نہیں چلا کیس کا کیا بنا۔ حالانکہ میں کیس داخل ہونے کے بیس سال بعد ریٹائر ہوا۔ درمیان میں یہ ضرور معلوم ہوا کہ متعلقہ سب انجینئر کی حکومت سندھ کے ایک بڑے آفیسر سے رشتہ داری ہے۔ اس نے معاملہ دبایا اور موصوف کو پاکستان سے باہر بھجوا دیا۔ انھوں نے وہاں جا کر کیا گل کھلائے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہاں تو وہ لاکھوں روپے ہڑپ کر گئے اور ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔
بددماغ وزیر
میں پیار علی الانہ ایک سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ احساس برتری کا شکار (ان کی گردن ہمیشہ اکڑی رہتی) بدماغ اور کانوں کے کچے آدمی تھے۔ سندھ اسمبلی میں اپنی جماعت کی طرف سے کراچی کی نمائندگی کرتے اور پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے صوبائی وزیرتعلیم بنا دیے گئے۔ ان کے والد غلام علی الانہ (جی الانہ) انتہائی شریف بااخلاق عظیم دانشور اور کراچی کے میئر رہ چکے تھے۔
ان دنوں بلدیاتی نظام قائم نہیں تھا اور شہر کا انتظام ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھوں میں تھا۔ میری خوش قسمتی کہ بلدیہ عظمی کے ایڈمنسٹریٹر ایم اے مجید(محمد عبدالمجید) بنائے گئے۔ وہ انتہائی سمجھدار مردم شناس اور خاص طور پر مجھ پر مہربان تھے۔ کچھ سال بعد وہ جب پچاس سال کے ہوں گے اچانک دل کا شدیددورہ پڑنے پر انتقال کر گئے۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو تاحدِ نگاہ روشن رکھے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔
میں وزیرتعلیم کے حلقہ انتخاب میں ایگزیکٹو انجینئر تھا۔ ویسے تو بلدیہ والوں کا وزرا سے واسطہ نہیں پڑتا۔ لیکن وزیر صاحبان ان دنوں اپنے علاقوں کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کونسلروں کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ اس لیے ان کے نمائندے آئے دن افسروں کے پاس اپنا کام کرانے چلے آتے۔ خوامخواہ کادبائو ڈالتے اور غلط کام نہ ہونے کی صورت میں وزیروں سے جا کر افسروں کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے۔
وزیر تعلیم کو مجھ سے بغض للہی ہو گیا۔کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر وزیر تعلیم کے کان بھرے کہ میں جماعت اسلامی کا آدمی ہونے کی وجہ سے ان کے کام کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہوں۔ ایک دفعہ انھوں نے وزیر بلدیات جام صادق علی سے کہا کہ مجھے گھربٹھا دیا جائے۔ لیکن وزیر بلدیات نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی سے بات کرنے کے بعد ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اب ان کی ناراضی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔
ایک دن انھوں نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے پاس میٹنگ رکھوائی۔ وزیرتعلیم کے آدمیوں نے مجھے اطلاع دی کہ اب منسٹر صاحب تمھاری اچھی طرح خبر لیں گے۔ آج وہ اپنے علاقے سے تمہارا تبادلہ کرا کر چھوڑیں گے۔ میں نے جواب میں یہی کہا کہ اللہ مالک ہے۔ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے دفتر میں میٹنگ شروع ہوئی۔
جب میرے ڈویژنعلاقے کی بات آئی تو منسٹر صاحب نے تلخ لہجے میں کہا یہ افسر میراکوئی کام نہیں کرتا۔ اس سے پہلے کہ وہ میری مزیدبے عزتی کرتے میں فورا اٹھ کھڑا ہوا۔ میرے دائیں بائیں بیٹھے دوسرے افسران میری قمیص پکڑ کر کھینچنے لگے تاکہ میں بیٹھ جائوں۔ لیکن میں نے کھڑے ہوتے ہی کہا آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ پھر ان کے سامنے ان کاموں کی فہرست پیش کی جو میرا محکمہ مختص کردہ رقوم کے مطابق انجام دے چکا تھا۔ ہاں ان سڑکوں پر کام نہیں ہوا جن پر موصوف کے کارندے غیرقانونی طور پر کرانا چاہتے تھے۔ وزیر صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
فرشتہ رحمت کی مدد
ستمبر کی بات ہے۔ میری خالہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی۔ (چند دن بعد ان کا انتقال ہو گیا) انھیں لیاقت نیشنل اسپتال داخل کرایا گیا۔ ہم لوگ چنددن کے لیے اپنے نارتھ ناظم آباد والے مکان میں رک گئے۔ میں روز صبح اسپتال چلا جاتا۔ خالہ کے پاس کچھ دیر رکنے کے بعد اپنے دفتر چلا جایا کرتا۔ ایک دن صبح جونہی بس کے قریب سے گزرا تو گیارہ بارہ سالہ لڑکی بھاگتی ہوئی اچانک سامنے آ گئی۔ میں نے فورا بریک لگائی مگر وہ بونٹ سے ٹکرا ہی گئی۔
میں گھبرایا ہوا گاڑی سے نیچے اترا۔ لڑکی گاڑی کے پیچھے سڑک پر گری پڑی تھی۔ بس اسٹاپ پر آٹھ دس آدمی کھڑے تھے۔ کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ سوچا اب تو میں بڑی پریشانی میں پھنسنے والا ہوں۔ بہرحال پہلے لڑکی کو اسپتال لے جائوں پھر پولیس کو اطلاع دوں گا۔ میں ابھی لڑکی کو اٹھانے بڑھا ہی تھا کہ اللہ تعالی کو مجھ پر رحم آ گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس حادثے میں میری ذرا برابر غلطی نہیں تھی۔ لڑکی اچانک گاڑی کے سامنے آ گئی تھی۔
ہوا یہ کہ اللہ نے ایک رحمت کا فرشتہ بھیج دیا۔ وہ بھاگ کر آیا اور لڑکی کو اٹھایا تو اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ وہ بس چوٹ لگنے کے صدمے سے رو رہی تھی۔ آدمی نے اسے سہارا دے کر چلایا ہاتھوں کو اوپر نیچے کر کے دیکھا وہ صحیح سالم تھے۔ البتہ چہرے پر بونٹ سے ٹکرانے کے باعث نیل پڑ گیا تھا۔ میری خوش قسمتی کہ وہ سنگین نوعیت کے حادثے سے بچ گئی۔ دراصل ٹکر لگنے کے بعد جب گری تو اس کا جسم گاڑیکے کے نیچے
لمبائی میں پہیوںکے متوازی رہا۔ اس لیے گرنے کے بعد وہ ٹائروں کے نیچے نہیں آئی۔میں نے اس فرشتہ صفت آدمی سے کہا کہ اسے اسپتال لے چلتے ہیں۔
وہ بولا پہلے اس کے گھر چلتے ہیں تاکہ وہاں سے کسی کو لے لیں۔ لڑکی کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی بھی تھا جسے ہم نے نہیں دیکھا۔ وہ سڑک کی دوسری جانب کھڑا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بہن گاڑی کے نیچے آ گئی ہے تو روتا اور بھاگتا ہوا گھر والوں کو اطلاع دینے پہنچا۔ وہ کریم آباد والے پل کے نیچے جھونپڑوں میں رہتے تھے۔ جب انھوں نے حادثے کی بابت سنا تو ڈنڈے لیے گاڑی والے کو مارنے نکلے۔ میں گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ آدمی پیچھے لڑکی کے ساتھ بیٹھا۔ لڑکی ہمیں اپنے گھر کا پتا بتاتی رہی۔
جب ہم جھونپڑوں کے قریب پہنچنے والے تھے کہ دیکھا دس پندرہ آدمی لٹھ لیے چلے آ رہے ہیں۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ اس کے اعزہ ہیں۔ تب آدمی نے مجھ سے کہا آپ گاڑی روک دیں میں اِن سے بات کرتا ہوں۔ اتنے میں وہ سب گاڑی کے قریب پہنچ گئے۔ انھوں نے لڑکی کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو اسے گھیرے میں لے لیا۔ وہ سب مشتعل ہو کر شور مچا رہے تھے۔ اس آدمی نے انھیں کہا پہلے میری بات سنو!لڑکی کو کوئی گاڑی والا ٹکر مار کر بھاگ گیا ہے۔ میں کھڑا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ یہ صاحب وہاں سے گزر رہے تھے ان کی مہربانی کہ انھوں نے گاڑی روکی۔ ہم اسے گاڑی میں ڈال کر تمہارے پاس لائے ہیں تاکہ اسپتال لے جائیں۔
یہ سن کر وہ لوگ خاموش ہو گئے۔ انھوں نے لڑکی کو گاڑی سے اتارا اسے چلا پھرا کر دیکھا بات چیت کی کہ تمہیں تکلیف تو نہیں؟ لڑکی اسپتال جانے سے گھبرا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسپتال نہیں جائے گی۔ پھر اس کے گھر والوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا کہ اسے ان کے پاس پہنچا دیا۔ اب وہ رخصت چاہتے تھے۔ میرے ساتھی نے مجھے کہا جہاں آپ نے اتنی ہمدردی کی ہے ان غریب لوگوں کو کچھ رقم دے دیجیے تاکہ وہ بچی کو دودھ وغیرہ پلا سکیں۔ میں نے انھیں چند سو روپے دیے۔ یوں اس آدمی کی حاضردماغی سے میں ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گیا۔
ابھی میںلڑکی کے گھر والوں کو رقم دے ہی رہا تھا کہ اس فرشتہ صفت انسان نے مجھے سلام کیا اور رخصت چاہی۔ میں نے بہت کہا کہ گاڑی میں بیٹھیے میں آپ کو منزل تک پہنچا دوں لیکن وہ ہاتھ ہلاتا پیدل ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
جاری ہے۔۔۔۔