غلام ابن غلام ابن غلام
میں ان دنوں بلدیہ عظمی کے ڈویژن نمبر میں منتظم انجینئر (Executive Engineer) تھا۔ میرے ماتحت ایک نائب قاصد نبی یار خان مجھ سے عمر میں بڑے نہایت ایماندار اور نستعلیق آدمی تھے۔ میرا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ میں ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ ہمیشہ صاف ستھری وردی میں ملبوس رہتے اور گفتگو بہت ہی مہذب طریقے سے کرتے۔ پاکستان آنے سے قبل کسی راجواڑے کے کارندے رہ چکے تھے۔ اس معاشرے کا اثر ابھی زائل نہیں ہوا تھا۔ ایک دن مٹھائی کا ڈبا لے کر آئے۔ دعا سلام کے بعد میرے استفسار پر کہ مٹھائی کس خوشی میں لائے ہیں؟ فرمانے لگے حضور! غلام کے غلام کے یہاں گزشتہ رات ایک اور غلام کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ سن کر پہلے مجھے حیرت ہوئی پھر سمجھ گیا کہ خاں صاحب کے ہاں پوتا ہوا ہے۔ میں نے انھیں مبارکباد دی تو بہت خوش ہوئے۔ یہ چھوٹا غلام میں آیا تھا۔ اب تو غلام ابن غلام ابن غلام کے ہاں بھی غلام آ گیا ہو گا۔
امام کعبہ کی پاکستان آمد
۔ کی بات ہے۔ ایک دن حکومت سندھ کا یہ نادرشاہی حکم بہ توسط ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی ملا کہ آغا خان اسپتال کے قریب کھلے میدان میں امام کعبہ نماز پڑھائیں گے چناںچہ وہاں نماز کا بندوبست گھنٹوں میں کر دیا جائے۔ سب سے مشکل کام میدان ہموار کرا کے اس پر صف بندی کے لیے چونے سے نشان لگوانا تھا۔پھر وضو کی جگہ کا بھی انتظام کرنا تھا۔ نیز امام صاحب کے لیے قدرے اونچا چھوٹا سا سایہ دار پلیٹ فارم (مصلی) بنانا پڑا تاکہ وہ نمازیوں کو دور سے نظر آ سکیں۔
ساری رات جاگ کر عملے اور ٹھیکیدار کے آدمیوں نے کام کیا۔ اللہ کے فضل سے سارا کام بروقت مکمل ہو گیا۔ مقررہ دن نماز پڑھنے کے لیے خلقت امڈ آئی۔لوگ غالبا یہی سمجھ رہے تھے کہ امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ملے گا۔ نماز ختم ہوئی۔ جیسے ہی امام صاحب نے سلام پھیرا مجمع ہڑبونگ کا شکار ہو گیا۔ ہر شخص امام صاحب کو قریب سے دیکھنے کا متمنی تھا۔ بڑی مشکل سے امام صاحب کو سیکیورٹی والوں
نے اپنے حلقے میں لے کر گاڑی تک پہنچایا۔ لوگ پھر امام کعبہ کے مصلی پر لگی جھنڈیوں اور آرائش کی دیگر اشیا کو تبرک سمجھ کرلوٹنے لگے۔ انھوں نے سوائے تخت کے کوئی چیز نہ چھوڑی۔
ہم لوگ سعودی عرب کے فرمانروا حضرات اور وہاں کا آئمہ کرام کا کس قدر احترام کرتے ہیں یہ ایک اور واقعے سے بھی عیاں ہے۔ میں سعودی عرب کے شاہ سعود پاکستان تشریف لائے۔ اعلان ہوا کہ وہ نماز جمعہ پولو گرائونڈ(موجودہ باغ قائداعظم) میں پڑھائیں گے۔ اس کا انتظام بلدیہ عظمی کراچی نے کیا تھا۔ شاہ سعود کو دیکھنے کے اشتیاق میں ہم لوگوں نے بھی باغ قائداعظم میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اتفاق سے اسی روز ہمارے دھوبی جو کافی بزرگ تھے اپنی گدھا گاڑی پر کپڑے لیے آ گئے۔ وہ یہ پروگرام بنا کر آئے تھے کہ شاہ سعود کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ ہم انھیں ساتھ ہی نماز پڑھنے لے گئے۔
لیکن شاہ سعود کے اصرار پر مولانا احتشام الحق تھانوی نے نماز جمعہ کی امامت کرائی۔ مولانا کوشاہ سعود نے پہلے ہی ایک خلعت عطا کر دی تھی جسے پہن کر وہ آئے۔ عربی لباس میں عرب ہی معلوم ہوتے تھے۔ ماشااللہ ان کی قرات بہت عمدہ تھی۔ نماز احسن طریقے سے پوری ہوئی۔ لوگوں نے نماز کے تقدس کوبرقرار رکھا۔ ہم لوگ واپس آ رہے تھے تو بزرگ دھوبی فرمانے لگے بابو! نماز پڑھنے کا مزا آ گیا۔ مکہ کے بادشاہ کی قرات کتنی اچھی تھی۔
ہم لوگوں نے ان کی سرشاری دیکھ کر مناسب نہیں سمجھا کہ انھیں بتائیں بابا نماز مولانا احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ہے۔ مکہ کے بادشاہ نے نہیں۔ شاہ سعود کی آمد کے موقع پر ہی کراچی میں سعود آباد کی مشہور آبادی وجود میں آئی۔
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا قیام
علاقہ لیاری میں میں ایک چھے منزلہ عمارت (بسم اللہ بلڈنگ) اچانک سحری کے وقت زمیں بوس ہو گئی۔ اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تب بلدیہ کے محکمہ بلڈنگ کنٹرول کے سربراہ اتنے خوفزدہ ہوئے کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ گئے اور پھر مستعفی ہوئے۔ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی نے بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کا اضافی چارج مجھے دے دیا۔ میں اس وقت ڈائریکٹر انجینئرنگ ڈیزائن کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ میں فروری تک اس محکمے کا سربراہ رہا۔
مانے میں کے ڈی اے (کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) الگ ادارہ تھا۔ اب دونوں کو ملا کر نیا ادارہ بنایا گیا۔ جسے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (K.B.C.A) کا نام ملا۔ اس کا سربراہ چیف کنٹرولر بلڈنگز کو بنایا گیا۔ یہ ڈپارٹمنٹ بنانے کی ابتدائی وجہ انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ ہوا یہ کہ بلدیہ عظمی کے بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کا ایک انسپکٹر گورنر صاحب کی بہن کے گھر پہنچا جو زیرتعمیر تھا۔ وہاں اس نے کچھ غلط کام ہوتے دیکھے جنھیں نظر انداز کرنے کی خاطر اس نے رشوت طلب کر لی۔
اس امر کی شکایت بہن نے بھائی سے کر دی۔ گورنر کے حکم پر بڑوں نے سر جوڑا اور حل یہ نکالا کہ ایک نیا ادارہ بنایا جائے۔ اس میں اختیار کے مجاز گریڈ کے افسر ہوں۔ ان کا سربراہ گریڈ کا افسر بنے اور نچلے عملے کے اختیارات کم سے کم کر کے انھیں غیرفعال بنا دیا جائے۔ یوں کرپشن میں کمی ہو جائے گی۔ جب بڑوں کا یہ فیصلہ آخری مرحلے میں تھا تو مجھے بھی طلب کر لیا گیا۔ گورنر صاحب کی زیرصدارت آخری فیصلے سے قبل طے ہو گیا تھا کہ میں نئے ادارے کا چارج سنبھال لوں گا۔
مجھ سے پوچھا گیا کہ نئے ادارے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ بے شک آپ یہ ادارہ قائم کر لیں لیکن اگر افسروں کی تنخواہ نہیں بڑھی تو کرپشن چھوٹی سے بڑی سطح پر چلی جائے گی۔ میری بات سے گورنر صاحب کے مشیروں نے اتفاق نہیں کیا۔ چناںچہ میری رائے کے برخلاف نیا ادارہ قائم کر دیا گیا۔ تب میں خاموشی سے لمبی رخصت پر چلا گیا۔ تقریبا دو سال بعد میئر عبدالستار افغانی کے اصرار پہ بلدیہ عظمی اس وقت واپس آیا جب میری تقرری بحیثیت سپرنٹنڈنگ انجینئر کی گئی۔
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بے شمار افسر بھر لیے گئے۔ پہلے بلدیہ میں کل دو افسر (آرکیٹکٹ کنٹرول اور اسسٹنٹ کنٹرولر) اور کے ڈی اے میں بھی دو ہی افسر پورے کراچی کو کنٹرول کرتے تھے۔ اب چند دن بعد ہی اتھارٹی کے افسر اپنے ہاتھ دکھانے لگے جس کا مجھے پہلے ہی خدشہ تھا۔ یہ ڈپارٹمنٹ رشوت کھانے کے معاملے میں کے ڈی اے کے دوسرے محکموں سے بازی لے گیا۔ خاص طور پر بلڈرز نے غلط کام کروانے کے لیے اوچھے حربے استعمال کیے۔ یہ محکمہ بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی روکنے میں بری طرح سے ناکام رہا۔ بلکہ کہتے ہیں کہ بائی لاز کی خلاف ورزی ان کی ناک کے نیچے خود انہی کے مشورے سے ہوتی رہی۔ دن بدن اس محکمے کے حالات خراب تر ہوتے گئے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں جو ایک بلڈنگ انسپکٹر کے چند روپے رشوت طلب کرنے کی وجہ سے وجود میں آیا۔
(اس دلچسپ آپ بیتی کی آخری قسط اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیے)
(یہاں سے غلطیاں لگنے والے ہیں۔ خالد محی الدین)
برائے شمارنومبر
وزیر کی سفارش
یہ مئی کی بات ہے۔ جام صادق علی کا شمار پی پی پی حکومت کے دبنگ وزرا میں ہوتا تھا۔ ایک بڑا بلڈر ایم اے جناح روڈ پر ماسٹر پلان کے خلاف نقشہ منظور کرانا چاہتا تھا۔ اس نے جام صاحب سے مدد چاہی۔ انھوں نے ایڈمنسٹر بلدیہ عظمی جناب مجید کو فون کر کے کہا کہ یہ نقشہ پاس کروا دو۔ مجیدصاحب نے معذرت کی کہ نقشہ پاس
کرنے والے محکمہ کا افسر گو ان کا ماتحت ہے لیکن وہ کبھی غلط کام نہیں کرتا۔ لہذا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ خود اس سے بات کر لیں۔ مجید صاحب نے پھر فون کرکے مجھے جام صاحب سے ہوئی بات بتائی اور کہا کہ تم ہرگز ان سے یہ مت کہنا کہ تمہاری مجھ سے بات ہو چکی۔ کچھ وقفے کے بعد جام صاحب کے پی اے کا فون آیا کہ منسٹر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ فورا جام صاحب کی آواز سنائی دی میں جام صادق علی بول رہا ہوں۔ میں نے کہا سائیں سلام علیکم۔ انھوں نے سلام کا جواب دیا پھر میری خیر و
عافیت دریافت کرتے رہے۔ پھر میرے پروموشن کی بات کی۔ میں نے بھی جوابا کہا کہ ان کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی فکر نہیں۔ ان شااللہ میرا پروموشن جلد ہو جائے گا۔ جب انھوں نے پانچ منٹ تک اِدھر ادھر کی بات کر لی تو مطلب پر آئے کہنے لگے ایم اے جناح روڈ پر فلاں جگہ کا نقشہ پاس کرنا ہے کام ہو جائے گا؟
میں نے کہا سر! بالکل ہو جائے گا۔ لیکن میری ایک گزارش ہے۔ اگر وہ پوری ہو جائے تو۔
بولے بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔
میں نے کہا سر! مجھے آپ لوگوں نے اس لیے یہاں بٹھایا ہے کہ میں عوام کی خدمت قوانین کے اندر رہتے ہوئے کروں۔ یہ قوانین آپ ارکان اسمبلی بناتے ہیں۔ ان کی اگر خلاف ورزی کروں گا تو آپ اگلے دن میری چھٹی کر دیں گے۔ ایسا ہی قانونی نکتہ آپ کے نقشہ پاس کرنے میں بھی حائل ہے۔ ایم اے جناح روڈپر آپ کے منظور کردہ ماسٹر پلان کے تحت ہر نئی بلڈنگ کو فٹ پیچھے ہٹ کر بننا ہے۔ آپ جس نقشے کی بات کر رہے ہیں اس میں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اسمبلی سے فٹ کٹ لائن والی شرط ختم کرا دیں پھر نقشہ اسی دن پاس کرنے کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔
جام صاحب زور سے ہنسے کہنے لگ یمجید صحیح کہہ رہا ہے۔ میں پتھر سے سر پھوڑ رہا ہوں ارے جب میں اسمبلی سے قانون پاس کرا دوں گا تو تم سے سفارش کی کیا ضرورت؟
میں نے کہا سر! میں آپ لوگوں کابنایا قانون توڑ کر آپ کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا۔ میری معذرت قبول فرمائیں۔ جام صاحب نے فون رکھ دیا۔ اس واقعے سے چند ماہ پہلے بلدیہ عظمی کے ایک افسر نے جام صاحب کے کسی حکم کو بجا لانے میں تساہلی سے کام لیا تھا۔ اسے فوری طور پر معطل کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ جس ملک میں جنگل کا قانون ہو وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن میرے معاملے میں جام صاحب خاموش رہے بلکہ انھوں نے بڑے کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔ کئی سال بعد وہ سندھ کے وزیراعلی بنے تو میں ان کی چھوٹی صاحبزادی کی شادی جام گوٹھ میں ہونا قرار پائی۔ میں ان معدودے چند سرکاری افسروںمیں شامل تھا جنھیں شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔
جام صاحب کا بیٹی کی شادی میں مجھے بلانا میرے لیے ایک معمہ ہے کہ کام نہ کرنے کے باوجود انھوں نے میرا نام اپنے ذہن میں محفوظ رکھا۔
جل تو جلال تو آئی بلا ٹال تو
جولائی کی شب میں جنرل ضیا الحق نے جمہوری حکومت پر شب خون مار کر ملک پر تیسرے مارشل لا کا نفاذ کر دیا۔ کلیدی عہدوں پر فوجیوں کی تقرری شروع ہو گئی۔ سویلین حکومت کی چھان بین کرنے کے لیے مارشل لا انسپکشن ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ایسی ہی ایک ٹیم حکومت سندھ کے کارناموں کی چھان بین کرنے سندھ اسمبلی میں بیٹھی۔ اس کے سربراہ ایک بریگیڈئیر تھے۔ ان کے دفتر والوں نے ماہ نومبر میں ایڈمنسٹریٹر مجید صاحب کو فون کر کے بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ بلدیہ عظمی سے زیرتعمیر بھٹو
ٹرسٹ بلڈنگ بیومنٹ روڈ اور حیات ریجنسی ہوٹل کی فائلیں منگوا لیں۔ ان دونوں تعمیرات میں درپردہ بھٹو صاحب کا نام آتا تھا۔ یہ بھی اطلاع تھی کہ عمارتیں غیرقانونی طور پر بن رہی ہیں۔ ان عمارات کے نقشے آرکیٹکٹ کنٹرول بلدیہ نے پاس کیے تھے۔ مجید صاحب نے مجھے بلا کر کہا چونکہ یہ نقشے سابقہ آرکیٹکٹ کنٹرول نے پاس کیے تھے جو اب موجود نہیں۔ لہذا یہ فائلیں لے کر تم خود جائو۔ ان کا مطالعہ کر لینا تاکہ ٹیم کو کوئی اعتراض ہو تو صحیح جواب دے کر مطمئن کر سکو۔ مجھے یہ فائلیں مقررہ تاریخ اور وقت پر ایک ایک میجر کے حوالے کرنی تھیں۔ میں جب اسمبلی بلڈنگ میں میجر کے کمرے میں پہنچا اور آمد کی اطلاع ایک چٹ کے ذریعے دی تو انھوں نے فورا ہی اندر بلا لیا۔
مجھے دیکھتے ہی تمسخرانہ انداز میں فرمانے لگے آہا! کے ایم سی سے آئے ہیں۔ کے ایم سی والوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتا ہے۔ ابھی دیکھتا ہوں آپ نے کیا کیا گل کھلائے ہیں۔
ان کی یہ طنزیہ باتیں سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے غصہ میں کہا میجر صاحب! بس اب کچھ مت کہیے گا۔ آپ نے گھوڑے اور گدھے کو ایک ساتھ ہانکنا شروع کر دیا۔ آپ کے خیال میں سارے سویلین برے ہوتے ہیں۔ حالانکہ جس دبائو میں سویلین کام کرتے ہیں آپ لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اچھے برے آدمی ہر جگہ ہوتے ہیں۔ خراب لوگ بے شک پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ مجبورا بھی انہیں کام کرنا پڑتا ہے جو بے شک وہ اپنی ذاتی کمزوری کی وجہ سے کرتے ہیں۔ آپ کو تو
شاید پتا نہیں کہ اب لوگ ملٹری والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔یہ خبر زیرگردش ہے کہ ملٹری والے بھی سویلین کی طرح زیادہ پیسے لے کر کام نمٹانے لگے ہیں۔ میری باتیں میجر ہکابکا ہو کر چپ چاپ سنتا رہا۔ پھر دھیمے لہجے میں کہا قریشی صاحب تشریف رکھیں آپ ناحق ناراض ہو گئے۔ آپ کی دل آزاری کرنا میرا ہرگزمقصد نہیں تھا۔ پھراس نے فائلیں مجھ سے لیں۔ میں نے ان کی رسید لی۔ پھر وہ فائلوں کی ورق گردانی کرتا رہا۔ پہلے سے تیارشدہ سوالات کے جوابات مجھ سے پوچھ کر نوٹ کیے۔ اس
دوران فوجی کروفر اور اہتمام سے مجھے چائے پلائی۔ پھر دروازے تک مجھے رخصت کرنے آیا۔ بعدازاں ان فائلوں کے سلسلے میں مارشل لا انسپکشن ٹیم والوں نے پھر مجھے کبھی نہیں بلایا۔ حیات ریجنسی کا کام مارشل لا لگتے ہی روک دیا گیا۔ مختلف قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس کا ڈھانچا اسی حالت میں کھڑا ہے۔
قریشی صاحب فائل پر وزن رکھ دیں
سول لائنز ایریا میں انگریزوں کے زمانے کا تعمیر کردہ دو ہزار گز رقبے پہ بنا ایک پرانا بنگلہ واقع تھا۔ وہ شہر کے متمول شخص کو متروکہ املاک کے عوض الاٹ ہو گیا۔ اس میں ایک بوڑھا پارسی نوکروں کے ساتھ رہتا تھا۔ بنگلہ کی دونوں چھتیں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مخدوش حالت میں تھیں۔ بنگلے کے ساتھ ہی نوکروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کی چھتیں گرنے کے بعد پتھر کی دیواروں پر ٹین کی چادریں ڈال دی گئی تھیں۔ اب ان کے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس مالدار شخص کی کوشش
تھی کہ یہ مکان کسی طرح مکینوں سے خالی کرا لیا جائے۔ اس نے اپریل میں بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو درخواست دی کہ وہ بنگلہ اور سرونٹ کوارٹروں کو خطرناک قرار دے کر گروا دے کہ مکینوں کی جان کو خطرہ ہے۔ نچلے عملہ نے الاٹی سے مل کر فائل اس کے حق میں بنائی اور مجھے بھجوا دی۔ میں نے متعلقہ عملہ اور الاٹی کے کارندے کے ساتھ جا کرجگہ کا تفصیلی معائنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ملازموں کے کمرے کو تو کوئی خطرہ نہیں۔نیز بنگلے کی چھتیں مرمت کے عمل سے گزریں تو وہ
بھی درست ہو جائیں گی۔لہذا میں نے بھاری مرمت کے آرڈر پاس کر دیے۔ یہ بات مالدار مالک کے حق میں نہیں تھی۔ اس نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے پاس میرے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کر دی۔اب فائل دوبارہ میرے پاس آئی۔ اگلے دن صبح کو گھر کی گھنٹی بجی۔ دیکھا کہ الاٹی کا کارندہ دروازے پر کھڑا ہے۔ میں نے اسے اندر آنے کو کہا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کہا صاحب! میں اپنے اسی کیس کے سلسلے میں آیا ہوں۔ فائل دوبارہ آپ کے پاس ہے۔ سیٹھ صاحب نے بھیجا ہے کچھ مہربانی کریں۔
میں نے کہا میری طرف سے سیٹھ صاحب کو مشورہ دو کہ مکینوں کوکہیں متبادل جگہ دلا دیں۔ کرایہ دار اور اس کے دونوں نوکر جانے کو تیار ہیں۔ پھر ان کا گھرخود ہی خالی ہو جائے گا۔
اس نے کہا صاحب!وہ لوگ بہت پیسے مانگ رہے ہیں جس پر سیٹھ صاحب راضی نہیں۔ اب آپ اس فائل پروزن رکھ دیں تو میرا کام ہو جائے گا۔
میں اس کی بات سمجھ نہیں پایا۔ جب یہی بات اس سے کہی تو وہ کہنے لگا صاحب دس بیس ہزار کا وزن۔ اب میں سمجھا کہ اچھا یہ مجھے رشوت کی پیش کش کر رہا ہے۔ میں غصے سے کھڑا ہو گیا اور اس سے کہا آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ کو بزرگ سمجھ کر اندربلا لیا۔ آپ نے یہ پیش کش کرنے کی جرات کیسے کی؟ براہ کرم فورا یہاں سے تشریف لے جائیں اور آئندہ آنے کی جرات نہ کریں۔ میں نے انھیں گھر سے باہر کرکے دروازہ بند کر لیا۔ دفتر جا کر اپنے سابقہ فیصلہ کو حتمی قرار دیا فائل ایڈمنسٹریٹر کو واپس کی اور سیٹھ صاہب فائل پر وزن نہ رکھوا سکے۔
چچا مولوی پھڈا
انھیں میری زندگی میں پہلے چچا بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ چار نمبر ناظم آباد میں والد صاحب کے گھر کے قریب ہی رہتے اور مولوی پھڈا کے نام سے مشہور تھے۔ ایک روز چھٹی کے دن صبح صبح گھر پر آئے اور انھوں نے اپنا تعارف کرایا میں تمہارا چچا ہوں۔ تمہارے والد ناظم آباد میں میرے پڑوسی تھے۔ میں ان کی ناگہانی موت پر تعزیت کے لیے آیا ہوں۔ انھوں نے پھر دعائے مغفرت کر کے مجھے صبر جمیل کی تلقین کی۔ مجھ سے معانقہ کیا۔ میں نے انھیں چائے پلائی اور وہ دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
دو ہفتوں بعد چچا مٹھائی کے دو ڈبے لیے وارد ہوئے۔ بقول ان کے بھتیجے کی محبت کھینچ لائی حالانکہ والد صاحب کے مکان میں ان کا چھوٹا بھتیجا (انوار) رہ رہا تھا لیکن اس کے پاس نہ تعزیت کرنے گئے اور نہ محبت جتائی۔ اب مٹھائی لانے کا یہ جواز پیش کیا ایک سیٹھ دوست عمرہ کر کے آئے ہیں۔ انھوں نے مٹھائی کے دس ڈبے عمرے کی خوشی میں بھیجے تھے۔ میں نے سوچا کہ بھتیجے کو بھی اس خوشی میں شریک کر لوں۔ مجھے ان کے اس بیان پر حیرت تو ہوئی لیکن اصرار کی وجہ سے مٹھائی کے ڈبے
واپس نہ کر سکا۔ اب میں نے بھتیجے جمال کو فون کر کے موصوف کا نام اور جغرافیہ بتایا۔ اس نے مجھے ان کے بارے میں سب کچھ بتا دیا کہ بہت تیز آدمی ہیں سارا محلہ ان سے نالاں ہے۔ چہرے پر بڑی ڈاڑھی کی وجہ سے مولوی پھڈا کہلاتے ہیں۔ اس نے کہا چچا جان! آپ ان سے محتاط رہیے گا۔
جاری ہےِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔